گوشہ اردو

خوف جامعہ

علی گل جی(علی احمد جان)

عنوان پڑھ کر ایک قاری کو تعجب ہو گا کہ جامعہ سے کیسا خوف! اگر مدرسہ اور اسکول کے ساتھ لفظ ”خوف“ لکھا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ کہ گھر کا کام مکمل نہ ہوا یا سبق یاد نہیں کیاتو معلم سزادے گا۔مدرسے کے ساتھ یہ لفظ اورزیادہ صادق آتا ہے۔ کیونکہ گزشتہ کئی مہنوں سے مدرسوں میں طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی خبرے آ رہی ہیں۔لیکن ایک جامعہ سے کیسا خوف؟؟

جامعہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جہاں پہنچنے تک ایک طالب علم تقریباًاپنا بیسواں جنم دن منا چکا ہوتا ہے۔اس عمر میں پہنچنے کے بعد وہ matureہوتا ہے۔ اور اچھے اور بُرے کی بہتر تمیز کر سکتا ہے۔ اپنی بھلائی اور نقصان سے بھی بہتر واقف ہوتا ہے۔اس لئے جامعات میں وہ پابندیاں نہیں ہو گی جو کالج اور اسکول میں ہوتاہے۔

ملک کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میںقدم رکھے دو سال مکمل ہو گئے ہیں لیکن جامعہ میں پہلی کلاس کبھی نہیں بھول پاو¿نگا۔ یہ دن میرے لئے جتنا زیادہ خوشی اور فخر کا تھا اس سے کئی گُنا زیادہ دُکھ اور افسوس کا بھی۔ خوشی اس لئے کہ مجھے ملک کے ایک بڑے درس گاہ میں داخلہ مل گیادُکھ اس بات پر کہ پوری یونیورسٹی میں کوئی گروہ یا طالب علم نہیں ملاجو اتحاد اور یکجہتی کی بات کرے۔لیکن درجنوں ایسے گروہ اور طالبعلم ملے جو تقسیم اور الگ الگ طبقوں کی باتیں کر رہے تھے۔ہماری orientation classمیں درجن بھر طلباءگروپس آئے اور اپنے منہ میاں میٹھو بن کر چلے گئے۔ اور indirectlyایک دوسرے پرتنقید کرنے سے بھی گریزنہیں کیا۔کسی بھی گروپ نے اتحاد اور قومی یکجہتی اور پاکستان کی بات نہیں کی۔ہر گروپ کی یہی خواہش تھی کہ نووارد طلباءکو اپنے گروپ میں شامل کر لے۔

ان گروپس نے تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ جامعہ کے عمارتی حسن کو بھی بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہیں۔پاکستانی تعلیمی اداروں میں شاید ہی کوئی درودوار ایسی ہو جس پر پوسٹرز، بینرزاور جھنڈے نہ چسپاں ہوں۔جگہ جگہ رنگارنگ جھنڈے پوسٹرز اور کئی کئی میٹر لمبے بینرز آراستہ ہوتے ہیں۔یہ چیزیں تعلیمی ادارے کی عمارتی حسن کو گہنہ دیتی ہیں۔ ان میں بیشتر بینرز اور پوسٹرز قرآنی ایات اور مقدس تحاریر درج ہوتی ہیں۔اور اس طرح چسپان کیا جاتا ہے کہ وہ eventگزر جانے کے بعد بھی مہنوں ویسے ہی لگی رہتی ہیں۔تا وقت یہ کہ گردش دوراں کا شکار ہو کر پھٹ نہ جائے۔اس عمل سے مقدس ایات اور تحاریر کاتقدس بُری طرح پامال ہوتا ہے۔ان بینرز اور جھنڈوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اتنے گز کپڑے سے نہ جانے کتنے بے لباسوں کو ڈھانپا جاسکتا ہے۔

ان گروپوں کی ایک اور سرگرمی آئے دن ایک دوسرے کے ساتھ دست گریباں ہونا اور ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کرنا بھی ہے۔ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو یہ لوگ سب سے پہلے اپنے کالج اور جامعات کے املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اُس واقعے کا کالج اور جامعات کے املاک کے ساتھ کیا تعلق؟

اب مجھے جامعہ سے ایک خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ کیونکہ جامعہ میںآئے روز جھڑپیںہوتی ہیں۔میں ان دو سالوں میں ایک درجن سے زاید جھڑپیں اپنی انکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ان واقعات میں کھلے عام اسلحے کا استعمال بھی ہوتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طالب علم کا اسلحے سے کیا تعلق؟اس کا اصل ہتھیار تو قلم ہے!ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ہتھیار لے کر جامعات کے حدود میں کیسے داخل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ (اللّلہ نہ کرے)اگر کوئی دہشت گرد چاہے تو بغیر کسی رکاوٹ کے جامعہ کی حدود میں اسلحہ لیکر اسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔اور بڑی تباہی مچا سکتا ہے۔جیسا کہ کچھ ماہ پہلے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد اور جامعہ کراچی میں ہوا۔ جو ناقص سیکورٹی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ مسلئہ کسی مخصوص یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے کا نہیں بلکہ بالعموم پورے پاکستان اوربلخصوص کراچی کے تعلیمی اداروں کا ہے۔پہلے یہ مرض صرف جامعات تک محدود تھا۔ مگر اب یہ کینسر کی مانند کالجوں اور اسکولوں تک پہنچ چکا ہے۔اور اس کی جڑیں دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔اب مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ خدا نخواستہ میں بھی اس رنگ میں رنگ نہ جاو¿ں کیونکہ سوکھی لکڑی کے ساتھ کچھ گیلی لکڑیاں بھی جلتی ہیں۔

کسی بھی معاشرے کا نوجوان طبقہ اس معاشرے کے مستقبل اثاثہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کے طالب علموں کا ایک بڑا حصہ ایک نامعلوم اورغلط سمت کی طرف محو سفر ہے۔ جو کہ بعد میں لسانیت کا بڑا مسلئہ بن سکتا ہے۔

تعلیمی اداروں کے سربراہان اور جامعات کے وائس چانسلرز چاہتے تو ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ جامعات میں مخصوص نوٹس بورڑ لگادئے جائے تاکہ موقعوں کے منا سبت سے بینرز اور پوسٹرز ان پر چسپاں کر سکے۔ اس طرح دیواریں اور دروازیں محفوظ رہ جائنگے۔ دوسری بات ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے جو فرقہ واریت اور لسانیت کو ہوا دیتے ہوں۔ اس طرح طلباءمیں مذہبی وسیاسی تفریق ختم ہو جائیگا اور طلباءکسی ایک غیر سیاسی و غیر مذہبی پلیٹ فارم پر جمع ہو سکیں گےااور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور یکجہتی پیدا ہو گی۔

ہمارا حکمران طبقہ نہیں چاہتا ہے کہ یہ تفریق ختم ہو وہ نہ صرف تماشائی بنا بیٹھا ہے بلکہ ان طالب علموں کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یوں یہ لوگ ان طالب علموں کے مستقبل کو بھی داو¿ پہ لگا دتے ہیں۔

خدارا حکمران طبقہ اس المیے اور اہم ترین مسلئے کی طرف توجہ دیں تاکہ پاکستان کا نقشہ دنیا کے نقشے پر قائم و دائم رہے۔ (آمین)

فرد ملت ربط قائم سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں!!!

Related Articles

Back to top button