گوشہ اردو

ایڈز سے متعلق شعور و آگاہی میں انجمن ہلال احمر گلگت بلتستان کا کردار

تحریر علی شیر خان(YPF) ہلال احمر جی بی

 (Human Immunodeficiency Virus(HIV یا “انسانی قوت مدافعت میں کمی کا وائرس” ایک ایسے جرثومے کا نام ہے جو قدرتی قوت مدافعت کو آہستہ آہستہ کمزور کرکے بالاخر انسان کو مختلف النوع بیماریوں کا مجموعہ بنا دیتا ہے. اس حالت کو ایڈز کی بیماری کانام دیا جاتا ہے.   لفظ ایڈز  ایک انگریزی اصطلاح Acquired Immunodeficiency Syndromeکا مخفف ہے جس کا لغوی معنی ہے ” قوت مدافعت میں کمزوری کا حاصل شدہ مرض”.

HIVکا وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد سفید خلیوں میں پائی جانے والی مدافعتی نظام کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔ان خلیات کی تعداد ختم ہونے کے بعد متاثرہ شخص ایڈز کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بہت ساری موقع پرست بیماریاں (Opportunistc Infections)حملہ کر دیتی ہیں۔

دور جدید میں علاج و معالجے کی نت نئی سہولیات میسر ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی نئی بیماریوں نے بھی انسان کو اپنی گرفت میں لیا ہے اور نئی بیماریوں میں اظافہ بھی ہوا ہے۔فی الوقت ایڈز کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے البتہ ایسی ادویات اور متبادل طبی اور سماجی طریقے موجود ہیں جن کی مدد سے متاثرہ افراد ایک صحتمنداور اچھی زندگی ایک لمبے عرصے تک گزار سکتے ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک میں HIV/AIDSنے وبائی صورت اختیار کی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 33.33ملین لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں HIV سے متاثرہ افراد کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن کئی خطرناک عوامل کی وجہ سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں HIVاور AIDSپھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔پاکستان میںایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ AIDSکے مریضوں کی تعداد 5000سے زیادہ ہے جن میں نوجوان افراد کی تعداد سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 20سے 40سال کے افراد اس بیماری کا شکار ہیں جن میں مردوں کی شرح عورتوں سے سات گنا زیادہ ہے۔

ان خطرناک عوامل میں جنسی بے راہ روی، غیر محفوظ اور غیر شرعی جنسی تعلقات، متاثرہ خون کا انتقال اور سرنج کے نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ شامل ہیں۔ شرح خواندگی میں کمی، جدید طبی سہولیات کا فقدان اور سماجی اور معاشرتی پابندیاں۔ خصوصاً ایڈز کی شعور و آگاہی تک محدود رسائی اس بیماری کو پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے۔

ان تمام خطرات کے پیش نظر انجمن ہلال احمر پاکستان نے اپنے انسانی خدمات کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے پورے ملک میں اس بیماری سے متعلق لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے انٹرنیشنل فیڈریشن آف دی ریڈ کراس (IFRC) کے تعاون سے متعدد منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کا دائرہ گلگت بلتستان تک پھیلایا گیا ہے۔ اور یوں انجمن ہلال احمر گلگت بلتستان 2008سے اس بیماری سے متعلق لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیئے مختلف اور مسلسل معاشرے کے مختلف طبقات کے لئے پروگرام کا انعقاد کررہی ہے۔ جن میں ٹرک ڈرایﺅرز، حجام، برڈر ٹریڈرز، جیل ان میٹس سرفہرست ہیں۔ یوتھ پیر ایجوکیٹرز کی مدد سے دوست سے دوست کی تعلیم کے طریقہ تعلیم و تبلیغ کو استعمال کرتے ہوئے مختلف تعلیمی اداروں میں (Sessions)سیمینارز ، تقریری مقابلے اور (IEC Material Dissemination)ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق تعلیمی مواد کی ترسیل و تقسیم کے ذریعے معاشرے میں پھیلنے والی مہلک امراض سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر زور دی جاتی ہے۔

انجمن ہلال احمر گلگت بلتستان 2008ءسے اب تک اس بیماری سے متعلق لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے اور مسلسل معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے اس طرز کے پراوگرامز منعقد کر رہی ہے جن میں ٹرانسپورٹرز، درائیورز، جیل اِن میٹس(قیدی)، حجام، چائنا جانے والے کاروباری حضرات، ٹورسٹ گائیڈز ، پورٹرز ، منی سنیما دیکھنے والے نوجوان سرفہرست ہیں۔ اِن کے علاوہ سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلباءکی ایک اچھی خاصی تعدادکو یوتھ پیئر ایجوکیشن کے ذریعے تعلیمی اداروں میں سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد بھی کر رہی ہے جن میں نوجوان نسل کو معاشرے میں پھیلنے والی اس موذی مرض سے بچنے کی تدابیر پر زور دیا جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہم قران کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل کریں اور اسلام کے دائرے میں رہیں۔ اس بیماری سے بچنے کے لیے احتیاط ناگزیر ہے کیونکہ ایڈز جیسی موذی بیماریاں اکثر ہمارے غلط رویوں اور بے را ہروی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔ ماہرین نے ایڈز سے بچنے کے لیے چند بنیادی تدابیر مرتب کیے ہیں جن میں دوران انتقال خون صرف HIVسے پاک ٹیسٹ شدہ خون کا استعمال، غیر محفوظ اور غیر شرعی جنسی تعلقات سے پرہیز،قربت کے تعلقات میں احتیاط برتنا، دانت نکلواتے وقت ہمیشہ جراثیم سے پاک اوزار کا استعمال اور شیو بناتے یا بال کٹواتے وقت ہمیشہ نئی بلیڈ کا استعمال لازمی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام افراد کا رویہ HIVسے متاثرہ افراد کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے؟ یقینا ہمیں HIVسے متاثرہ لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ان کی دلجوئی کرنی چاہئے اور ان کی بیمار پرسی کرنی چاہئے کیونکہ یہ کوئی اچھوت کی بیماری نہیں ہے۔ یہ ہمارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔کیونکہ ہم ان کے کپڑے بھی پہن سکتے ہیں ، ان کے ساتھ کھیل سکتے ہیں حتیٰ کہ ایک ہی پلیٹ میں ا ُن کے ساتھ کھانابھی کھایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ انجمن ہلال احمر گلگت بلتستان اس حوالے سے اپنا کردار بخوبی ادا کررہا ہے مگر بحیثیت شہری ہم سب کا فرض اور ذمہ داری بنتی ہے کہ اس قسم کی مہلک بیماریوں کے روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں اور اس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے لوگوں کو ایڈز کی حقیقت سے آگاہ کریں تاکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو ایڈز سے پاک معاشرہ دے سکیں۔ اور ایک “AIDS DREE GENERATION” تشکیل دینے کا خواب شرمندئہ تعبیر کرسکیں۔

دنیا بھر میں ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد اس موذی مرض میں مبتلا لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اور اس حوالے سے شعور و آگاہی اجاگر کرنا بھی ہے۔

Related Articles

Back to top button