گوشہ اردو

ظالم کون…. مظلوم کون…؟؟

شدید فائرنگ سے میری آنکھ کھُل گئی، میں فلیٹ کے بالکو نی میں چلاگیا. ،میری آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھی اور دماغ پر نیند سوارتھا۔ چوتھی منزل سے میں با آ سانی نظارہ کر سکتا تھا۔ ایک فریق ہمارے فلیٹوں میں اور دوسرا گروپ سامنے زیر تعمیر مسجد میں مورچہ زن تھا. یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہا۔

اگلی صبع جب میں یونیورسٹی جانے کے لئے کالونی کے داخلی دروازے سے گزررہا تھا تو دیوار پر لگے بینر نے مجھے اپنی طرف متّوجہ کیاجس پر لال رنگ سے دو بندوں کے نام کے سامنے لفظ ”شہید“ لکھا ہوا تھا اور نیچے تفصیل میں خود کو حق بہ جانب اور مظلوم لکھا تھا۔ دوسرے گروپ کو ظالم اور یزید قرار دِیا گیا تھا۔

میں آگے بڑھ گیا.  مسجد، جہاں کل شام ایک گروپ مورچہ زن تھا، کے دروازے پر کئی میٹر لمبا بینر آویزاں تھا۔ یہاں اِس فریق نے خود کو مظلوم اور حق کا سفیر لکھا تھا، اور دوسری جماعت کو ظالم، یزید اور کافر جیسے “القابات” سے نوازا تھا۔ اس بینر میں لکھے معلومات کے مطابق اس گروپ کے دو بندے ظلم کے خلاف ’جہاد ‘ کرتے ہوئے ’شہید‘ ہوگئے ہیں۔ اس بینر پر  ’جہاد جاری رکھنے’ کا عزم بھی لکھا گیا تھا ۔

میرے ذہن میں کئی سولا ت گردش کرنے لگے، مثلا ظالم کون، مظلوم کون؟ اس واقعے کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے قریب بیٹھے ایک انکل سے رجوع کیا جو پندرہ سالوں سے یہاں سبزی کی ریڑھی لگاتے ہیں۔ میرا سوال سُن کر انھوں نے پہلے  ان دو گروہوں کو پہلے تو لاتعداد غلیظ گالیوں سے نوازاپھر واقعے کی تفصیلات کچھ یوں بتادی۔

”کچھ روز قبل ان میں سے ایک گروپ نے سامنے کی خالی اراضی پر قبضہ کیا اور چار دیواری بنادی۔ ایک ہفتے بعد دوسرے گروپ نے یہ چاردیواری گِرادی اور راتوں رات اس پلاٹ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کر دیااور آہستہ آہستہ اِرد گِرد کے پلاٹس پر قبضہ جمالیا۔ یوں یہ جنگ جاری ہے جس نے آدھے درجن انسانوں کی جانیں لی ہیں۔پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ “

ا

س واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیا جو میرے دماغ کے دَر کو پیٹتے رہتے ہیں۔ ان دونوں مسلمان کلمہ گو گروپوں میں ظالم کون اور مظلوم کون؟ کیا اس طرح زمین پر نا جا ئز قبضہ کر کے مسجدوں اور عبادت گاہوں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ جائز عمل ہے؟؟ یہ تمام لوگ ثواب کما رہے ہیں یا گُناہ؟ کیا ان تمام افراد کو شہید کہہ سکتے ہیں جو اس طرح کے جھگڑوں میںمارے جاتے ہیں؟؟؟

جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ یہاں مولوی صاحبان ایک دوسرے کے خلاف کے کفر کا فتویٰ دینے اور نفرتیں پھیلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا ذورلگاتے ہیں، حتیٰ کہ قرآن پاک اور احادیث کو بھی نہیں بخشتے ہیں، وہ ایسے مسئلوں پر کیوں نہیں بولتے ہیں؟ مجھ جیسے اور کتنے لوگ ان جوابات کے منتظر ہیں اور کنفیوز ہیں کہ مظلوم کون؟ ظالم کون؟ یزید کا پرچار کون کرتا ہے اور حق کا سفیر کون ہے؟

ان تما م حضرات کو چاہیے کہ نفرت کی اس آگ کو ہوَا دینے کے بجائے اسے بُجھادینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آ ج پورا گلگت بلتستان اس طرح کے کئی مسئلوں ہیں گھِرا ہوا ہے اور سارا خطہ ایک آگ کی لپیٹ میں ہے جسے کبھی امن کا گہوارہ کہا جاتا تھا۔

Related Articles

Back to top button