گوشہ اردو
گلگت بلتستان پر جن بھوت کا سایہ تو نہیں؟
قدیم زمانے میں گلگت بلتستان کے بارے میں مافوق الفطرت کہانیاں بہت عام تھیں ۔ شام کے وقت ہر گھر میں ایک ہی قسم کی کہانیاں سنائی جاتی تھی کہ فلاں شخص آج لکڑی لانے قریبی پہاڑ پر جارہے تھے کہ راستے میں ایک نامعلوم مخلوق نے ان پر حملہ کیا جس کی وجہ سے وہ بہت خوفزہ ہوئے اور واپس گھر آگئے پانچ دن تک بستر پر پڑے رہے اور صحت یاب ہوگئے۔ اللہ بہتر جانتاہے کہ وہ کیا تھا اور کون تھا؟ویرانوں اور بیابانوں میں جن بھوتوں کی یلغار میں کثرت تھی ہمیشہ کوئی نہ کوئی نامعلوم خوف سے ڈرجاتے تھے۔ کبھی اندھی نکلتی تھی اور کبھی جانوروں کی صورت میں جن بھوت اس علاقے کے لوگوں کو یرغمال کرتے تھے۔ عجیب وغریب آوازوں کے ساتھ مقامی عورتیں اور حضرات کبھی چڑیل کی شکل میں نمودار ہوتے تھے۔ الغرض ان تمام خطرات سے بچنے کے لئے لوگ انسانی آبادی کے قریب آکرسکھ کا سانس لیتے تھے۔ ہنزہ سے آتے ہوئے تنک وتاریک وادیاں خوف کا باعث ہوتی تھی راستے میں مخصوص علاقے دہشت کے حوالے سے مشہور تھی جہاں جن بھوت اکثر لوگوں کو ہراساں کرتے تھے۔ دیامر کے مختلف جگہوں سے آتے وقت بھی مخصوص علاقوں کو ڈر اور خوف کی وجہ سے دن کو ہی طے کیا جاتا تھا۔
اس طرح اسکردو اور استور میں بھی جن بھوتوں کی کہانیاں عام تھی۔ غذر کے لوگ جب گلگت آتے تھے تو راستے میں رات ہوتی تھی۔ رات کے اندھیرے میں کئی قسم کے توہمات اور خوف کے سائے ان پر منڈھلاتے تھے۔ان تمام کے باوجود لوگ ہمیشہ راستے میں انسانی آبادی پہنچتے ہی سکھ کا سانس لینے کے ساتھ امن و سکون پاتے تھے۔ لوگ مسافروں اور تاجروں کو نہ صرف گھر وں میں جگہ دیتے تھے بلکہ ان کی بہت خدمت بھی کیا کرتے تھے۔ اُن کے جانوروں گھوڑوں اور گدھوں کو چارہ اور رہنے کےلئے جگہ بھی دیتے تھے۔ جب ان تمام علاقوں سے لوگ گلگت پہنچتے تھے تو امن اور سکون محسوس کرتے تھے۔ گلگت بازار میں فٹ پاتھ پر بھی لوگ سکون سے سوتے تھے۔ اب ہوٹل کے دروازے بند کرکے بھی نید نہیں آتی ہے۔
قدیم زمانے میں ڈر اور خوف کی صورت میں لوگ عالموں کے پاس جاتے تھے اور وہ اپنے علم سے بتاتے تھے کہ فلاں جگہ جن اور بھوت نے آپ کو تنگ کیا ہے اور اس کاعلاج بھی کیا کرتے تھے۔ آج کل کی ایجنسیاں ان جن بھوتوں کو پکڑنے سے قاصر ہے۔اب حالات نے الٹا رخ اختیار کیا ہے۔ گلگت کی انسانی آبادی کے حدود میں پہنچ کر امن تو دور کی بات ہے خوف اور دہشت کے بادل منڈھلاتے ہیں۔ ہرایک جلدیہاں سے نکل جانے کی فکر میں ہوتا ہے ۔ شام ہوتے ہی دکانیں بند ہوجاتیں ہیں۔ لوگ ہوٹلوں اور رشتہ داروں کے گھر نکل جاتے ہیں تاکہ نامعلوم گولی کی زد میں نہ آئے ۔ آج کل ہر گھر میں ایک ہی کہانی ہے وہ ہے کہ فلاں جگہے نامعلوم لوگوں نے فائیر کی اور فلاں کو مار دیا۔ فلاں آدمی زخمی ہوا اور ہسپتال میں ہے۔ کوئی بھی جواب دینے سے قاصر ہے کہ دہشت گرد کون ہے۔ ہر گلی میں تین چار پولیس کھڑے ہیں ہر سو میٹر پر ناکہ بندی ہے۔ پولیس اور رنجر چوکس کھڑے ہیں۔ کیمرے بھی لگے ہیں۔ جدید اسلحہ بھی ہے۔ گاڑیاں بھی ہے۔ پولیس کی تربیت بھی ہے۔ نظام حکومت بھی ہے۔ ہر شہری چاہتا بھی نہیں کہ امن خراب ہوجائے ۔ کسی سے بھی اس موضوع پر بات کرو تو قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سناکر اپنی غیرجانب داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر ایک فرد امن اور سادگی کی علامت نظر آتا ہے۔
اس تمام کے باوجود روز ایک ایک ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے۔ سب حیران ہے کہ آخر کون ہے یہ لوگ؟ انسان ہوتے تو پولیس‘ لوگ اور کیمرے دیکھتے مجھے شک ہے کہ یہ جن بھوت ہیں۔ تبھی نظر نہیں آتے ہیں؟ شاہراہ قراقرم میں حالیہ دنوں میں پولیس نفری میں اضافہ دیکھ کر اطمینان ہوا ہی تھا کہ سانحہ کوہستان کا واقعہ رونما ہوا جس میں بے گناہ انسان مارے گئے۔ ہر موڈ پر پولیس تعینات ہیں لیکن پھر بھی ملزم نظر سے غائب۔ ان پہاڑیوں میں جنات پھر سے آگئے کیا؟ انسان تھے تو کسی گاڑی میں یا پیدل‘ گروہ کی شکل میں آئے ہونگے لیکن کسی کی بھی نظر نہ پڑنا قابل غور اور تشویس ناک ہے۔
بسوں میں سیکوریٹی کے نام سے چیکیک تو کافی عرصے سے جاری ہے لیکن نتیجہ کیا ہے وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ مقامی زیرزمین تنظیمات پر نظر پر روز خبریں آتے ہیں لیکن وہ تو مزید بھی بڑے بڑے گاڑیوں میں بڑے سکون کے ساتھ پھرتے ہیں کوئی پوچھنے ولا نہیں پتھروں پر چاکنگ سے ہی ان کے سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔ خیر ہماری قوم کب سمجھے گی۔ ہم نئی نسل کو کس رخ پر لے جاتے ہیں یہ نہیں معلوم ۔ ایک طرف ہم امریکہ اور بڑے بڑے ملکوں سے ٹکر لینے کی بات کرتے ہیں دوسری طرف اپنی بستی کے حالات سے بے خبر ہے۔ چھوٹے بڑے سب کے سب ان حالات سے صرف ایک ہی سبق سیکھتے ہیں کہ اس علاقے سے ہجرت ہی بہتر ہے۔ اس گروہی جنگ کا خاتمہ اُس وقت ممکن ہے جب ہماری قوم نفسیاتی لحاظ سے ہمدردیوں میں نہ پڑے۔ نام نہاد گروہی ہمدردی بھی ایک مہلک بیماری ہے جو روز پھیلتی ہے۔ اس صورتحال میں سیاسی لیڈرشب کا کردار صفر رہا۔ مسجد و منبر ہی مصلحت میں آگے آگے ہیں۔ سب کام یہاں سے ہوتا ہے تو آپ سرکاری پروٹوکول میں کیا کرتے ہیں حکومت بھی اُن کے حوالے کردو۔ خیر عروج وزوال ہر قوم کی ترقی کا راز بھی ہوتا ہے۔ ہماری اگلی نسل ہم سے ورثے میں کیا لے گی اس کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے باوجود ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ امن کے قیام میں ہر فرد کردار ادا کریں۔ حکومت کا ساتھ دیں اور حکومت بھی سنجیدہ اقدامات کریں۔ سیکورٹی ادارے اپنے سیکوریٹی پلان کو دوبارہ ترتیب دیں۔ شاہراہ قراقرم یاگلگت جیسے ایک چھوٹے شہر میں حالات کا قابو نہ ہونا حکمرانوں کےلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلعم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ”من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فلسانہ و ان لم یستعطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان“ ترجمہ: تم میں سے کوئی برائی دیکھیں بس اُسے چاہئے کہ وہ ہاتھ (کی طاقت )سے اُسے روک دیں اور اگر اُس کی اسے طاقت نہ ہو تو اُسے یعنی برائی کو زبان(کی طاقت یا تبلیغ) سے روک دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو اُسے اپنے دل میں بُرا سمجھے اور یہ ایمان کی کمزور ترین نشانی ہے“۔ اس حدیث شریف سے واضح ہوتا ہے کہ ہرفرد کا کردار بہت اہم ہے۔ تمام سیاسی اور سماجی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں میں اعتماد میں لینا چائیے۔ امن کمیٹی مخصوص لوگوں تک محدود نہیں رہنا چائیے۔ اس میں یونیورسٹی کے پروفیسروں سے لیکر سماجی شخصیات تک مشاورت کرنا چائیے۔
قدیم زمانے میں جن بھوت اس علاقے کے لئے پریشانی کا باعث تھے اور آج کل ہم خود جن بھوت بنے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کے حکم کے مطابق ”ایک انسان کوقتل کرنا پورے انسانیت کی قتل کے مترادف ہیں“۔ ہمیں ایمان اور جذبے کے ساتھ اس آیت مبارکہ پر غور کرنا چائیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ہی اس حکم خداوندی کی تعمیل میں سستی تو نہیں دکھا رہے ہیں۔ دین اسلام میں قانون سازی کی اہمیت آپ سب جانتے ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیں بار بار فرمایا ہے کہ”اور تم میں سے ایک ایسا گروہ ہونا چائیے جو نیکی کی طرف بلائے پسندیدہ کاموں کا حکم دے اور ناپسندیدہ ماموں سے روکے“۔ اس کے ساتھ ساتھ تحفظ جان‘ تحفظ مال‘ تحفظ نسب‘ تحفظ شہرت اور تحفظ عقل کے حدود قیود کا نظام ہمارے دین میں موجود ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران کیسے اس پرعمل درآمد کرسکتے ہیں۔ جس دن حکمران اور سیکوریٹی ادارے مخلص ہونگے قتل وغارت کی دکان بند ہونگی۔ ان کے ساتھ ساتھ ہر ایک شہری کا فرض بھی ہے کہ وہ اپنے اور اپنے ارد گرد کے حالات سے باخبر رہے۔ پولیس کو اعلاع دیں اور ”نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور بدی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں“۔ اس کالم کو پڑھتے ہوئے آپ بھی سوچئے کہ ہم انسان بننے کے بجائے جن بھوت کیوں بنتے ہیں؟ جن بھوت بھی قتل وغارت نہیں کرتے ہیں۔ آج گلگت سیاحت اور خوبصورتی کے بجائے خوف اور دہشت کے نام سے مشہور ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ طالب علم دوست ان مباحثوں کے بجائے اپنی امتحان کی تیاری کرنگے جو ابھی اگلے ہفتوں میں ہونا ہے۔
’ادارے جن کے پختہ ہو نظر جن کی خدا پر ہو
طلاتم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے‘