گوشہ اردو
علماءبورڈ کے قیام کا فیصلہ، چند تجاویز
انسانی فطرت ہے کہ وہ معاشرے سے کٹ کر رہ نہیں سکتا، اور اگر معاشرے میں امن نہ ہو تو وہ معاشرہ ، معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ ہر ذی شعور آدمی امن کا خواہاں ہے اور یہ واضح حقیقت ہے کہ امن کے بغیر کوئی قوم یا ریاست ترقی نہیں کرسکتی ہے۔تمام پیغمبروں کی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ تبلیغ اور محنت قیام امن کے لئے کی ہیں۔ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا المیہ امن و آمان کی دگرگوں صورت حال ہے اور بد قسمتی سے یہاں اس کا ذمہ دار علماءکرام اور مذہبی طبقات کو گردانا جاتاہے اور بعض ناہنجار تودین اسلام کو اس کا ذمہ دار و قصور وار ٹھہراتے ہیں ، حالانکہ قرآن و حدیث، سیرت ہادی دو عالم او ر سیرت صحابہ ؓ اور فقہ اسلامی اور اکابر و مشائخ کی تعلیمات کے گہرے مطالعے سے یہ بات ببانگ دہل واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام سب سے زیادہ امن و آمان پر زور دیتا ہے اور انسانیت کے احترام کی بات کرتا ہے۔ اور امن و آمان اسلامی ریاست کی اولین ترجیح ہے۔ کاش !اسلام اور علماء کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو امن دشمن اورگلگت بلتستان کو مقتل بنانے والے حقیقی مجرم نظر آتے، سب جانتے ہیں مگرزبان سے کہنا جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے ارباب اقتدار نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ گلگت بلتستان میں قیام امن اور مذہبی یک جہتی کے لئے گلگت بلتستان کے تمام مسالک کے جید علماءپر مشتمل ایک علماءکونسل/ بورڈ بنائیں گے۔یہاں حکومت نے اعلان تو کردیامگریہ اتنا آسان کام اور بچوں والامعاملہ نہیں کہ بس علماءبور ڈ کے قیام سے گلگت بلتستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ دھرتی عزیز پاکستان میں اس کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں،اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان و آزاد کشمیر اور متحدہ علماءبورڈ پنجاب کے نام سے یہ روایتی تجربے پہلے سے ہوتے رہے ہیں اور ان کے نتا ئج صرف ہیں۔1951ءمیں پاکستان کے سارے دینی مکاتیب فکر کے معتمد علیہ ۱۳ علماءکرام نے عصر حاضر میں ریاست و حکومت کے اسلامی کردارکے حوالے سے ۲۲ نکات پیش کئے تھے اور ۴۲ ستمبر ۱۱۰۲ءکو بھی لاہور میں ” ملی اجلاس“ کے زیر اہتمام منعقدہ ”اتحاد امت کانفرنس“ میں تمام دینی مکاتیب فکر کے ۵۵ جید علما ءکرام نے ایک مشترک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میںمملکت خداداد پاکستان کواسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لئے متفقہ راہنماءاصول پیش کیے مگر اس کے نتائج ہنوز ندارد۔ حکومتی سطح پر کام کرنی والی اسلامی نظریاتی کونسل کے پیش کردہ سفارشات کو بارہا ردی کی ٹوکری کے نذر کردیے گئے ہیں، تاہم ان کے چیئرمینوں اور ممبران اور دیگر عملے کو مکمل پروٹوکول ملتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرّوفرّ سے ملتا رہے گا۔ اگر گلگت بلتستان میں بھی اس طرح کی ایک نام نہاد کونسل بنائے جانے کا پروگرام ہے تو میں حکومت وقت سے دست بستہ عرض کرونگا کہ خدارا! قوم کو بھی بے قوف نہ بناو¿ اور خود کو بھی دھوکہ مت دو، اور تمام مکاتیب فکر کے سنجیدہ اور جید علماءسے بھی گزارش کرونگا کہ وہ ایسی نام نہاد کوششوں اور ڈھکوسلہ ٹائپ کی کونسلوں سے گریز کریں تاکہ عوام میں آپ کا وقار تو بحال رہے۔ تاہم آئندہ سطور میں ممکنہ کونسل یا علماءبورڈ کے قیام کے حوالے سے چند معروضات پیش کرونگا اس امید کے ساتھ کہ ارباب حل و عقد اگران پرسنجیدگی سے غور کریںگے تو شاید کوئی بہتری کا پہلو نکل جائے۔
سب سے پہلے اس بورڈ کی قانونی حیثیت واضح ہونی چاہیے، ایک دو سال کے لئے نہیں بلکہ اس کو ایک مستقل ادارے کی شکل دینی ہوگی، اس حوالے سے گلگت اسمبلی میں مکمل قانون سازی ہونی چاہیے اور سربراہ مملکت سے ادارے کی توثیق و تائید حاصل کی جانی چاہیے ۔ اس بورڈ / کونسل کے دائرہ اختیار اور دائرہ کار کو واضح کیا جانا چاہیے اور علماءبورڈ کے فرائض و اختیارات اور دائرہ کار کو متعین کرنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ آف پاکستان اور پاکستان بھر کے جید علماءکرام، مستند دینی جامعات،مختلف د ینی وفاقی بورڈ اور اہل قلم و علم سے مکمل استفادہ کرنا چاہیے بلکہ گلگت حکومت یہ کام ایک کمیٹی بناان کے سپرد کرے اور ان کی مکمل معاونت کرے۔تاکہ مستقل بنیادوں پر ایک جاندار ادارے کا قیام عمل میںلائے جا سکے۔اس کمیٹی کو واضح تو پر بتائے جائے کہ علماءبورڈ کے ممبران درج ذیل امور کے حوالے سے کام کرے گی۔ ۱۔قیام امن کے لئے سفارشات مرتب کرنا۔ ۲۔یہ بورڈکوئی بھی قانون قرآن و سنّت کے متصادم بنانے کا مجاز نہ ہوگا۔ ۳۔مشترکات کو مدنظر رکھا جانا ہو گا نہ کہ اختلافی امور کوزیر بحث لائے جا ئے گا۔ ۴۔بورڈ کے ممبران کے لیئے قانونی ماخذ قرآن ،حدیث،فقہ اسلامی، اجماع اور قیاس ہی ہونگے۔ ۵۔اسمبلی اگر کوئی غیر اسلامی یا کسی مکتب فکر کی دل آزاری پر مبنی قانون سازی کرے تو یہ بورڈ ان قوانین کو منسوخ کرنے کی اہلیت رکھتاہو اور اس کے فیصلوں اور سفارشات کا قانونی تحفظ بھی ہو۔
اب تک کے اطلاعات یہ ہیں علماءبور ڈ کے سات ممبر ہونگے اوران کے ممبران کو گریڈ ۹۱ کے مراعات اور چیئرمین کو گریڈ ۰۲ کے مراعات دیے جائیں گے، کیا انصاف سے بتائیں کہ گریڈ ۹۱ اور ۰۲ کے مراعات یافتہ کچھ علماءکوئی کردار ادا کر سکیں گئے؟، ناممکن۔ یہاں ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے اگر یہ بورڈ بنانا ہی ہے تو پھر ممبران کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے اور ان ممبران کے اختیارات و مراعات کم سے کم صوبائی وزراءاور چیئرمین کے اختیارات و مراعات وزیراعلی کے برابر ہونی چاہیے تاکہ ادارے کا وقار قائم ہو سکے، تب یہ ادارہ کوئی کردار ادا کر سکے گا۔ علماءبورڈ کے لئے جو ممبران ہونگے ان کے لئے کڑی شرائط ہونی چاہئے، علمی اور مستند علماءہی کو بورڈ کا حصہ بننے کے لئے درج ذیل شرائط لاگو کیے جانے چاہیے تاکہ علمی ذوق رکھنے والے یہ مستند علماءکوئی کردار بھی ادا کر سکیں، اگر یہاں بھی پارٹی، سیاست،علاقائیت ،اقربا اور رشوت کی بنیاد پر ممبر لئے جائیں گے تو یہ بورڈ پوری قوم کے لئے مضر اور ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے اور قومی خزانے پر ایک اضافی بوجھ ہوگا۔
ممبران بورڈ کے لئے علماءکا درج ذیل صلاحیتوں کے حامل ہونا ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔
۱۔ باکردار اور متقی عالم ہو۔
۲۔ قرآن و حدیث نبوی سے مکمل آگاہی حاصل ہو۔
۳۔ خلفائے راشدین ؓ ، تابعین کرام ؒ،آئمہ فقہ و اجتہادکے فیصلوں سے پوری طرح واقف ہو۔
۴۔ عربی اور اردوپر مکمل عبور ہو اور انگریزی ضرورت کے مطابق جانتاہو۔
۵۔ دور جدید کے تمام سیاسی،معاشی،اخلاقی اور علاقائی پہلوں پردسترس رکھتا ہو۔
۶۔ تقریر و تحریر پر اچھی کمانڈ حاصل ہو اورقدیم و جدید لٹریچر کا وسیع مطالعہ اور وسعت ظرفی کا مالک ہو۔
۷۔ اپنے مسلک کے کسی معتبرادارے کا سند یافتہ ہو اور علاقے میں اچھی شہرت کا حامل ہو۔
۸۔ قانون کی زبان کو جانتا ہو۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں خالص دینی و علمی مواقف بھی اب علمی اصولوں اور فتاویٰ نویسی کے قواعد و ضوابط کا لحاظ اور پابندی کرنے کے بجائے سیاسی، مسلکی اور علاقائی و لسانی حالات سے متاثر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ بڑی بڑی معتبر علمی شخصیات اور معروف دارالافتاءبھی کسی بھی مسئلے کی وضاحت کرتے وقت دینی،شرعی، تحقیقی اور علمی حیثیت کو نظر انداز کرکے یہ دیکھنے لگتے ہیں کہ ہو ا کا رخ کس طرف ہے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اور یہی حال ہماری عدالتی اور انتظامی فیصلوں کا ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا اور لکھنا پڑھتا ہے کہ بعض دفعہ اپنی پسند اور ناپسند کو شرعی و دینی او ر قانونی و آئینی مسئلہ و معاملہ گرداناجاتاہے۔ بہر صورت ہم ان سطور کے ذریعے یہ عرض کریں گے کہ ممکنہ علماءبور ڈ کو ان تمام خرافات سے بچایا جانا چاہیے اور ان کے تمام فیصلے علمی بنیادوں پر ہونے چاہیے نہ کہ علاقائی، مسلکی اور سیاسی بنیادوں پر۔ اور اس کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد ہونی چاہیے اگر اس کی بھی حالت امن معاہدے کی طرح ہونی ہے تو الامان و الحفیظ۔
اگر حکومت یہ خیا ل کرتی ہے کہ اس طرح کے بورڈوں کے ذریعے علماءکو اپنے تابع بنایا جائے تو یہ اس کی خیام خیالی ہے۔انجمن امامیہ اور تنظیم اہل سنّت و الجماعت کے سرکردہ علماءکو مکمل مشاورت میں رکھا جانا چاہیے تاکہ توازن اور اعتدال قائم ہو سکے او ر بورڈ کی ابتداءبھی نیک شگون ہو۔علماءبورڈ میں ریٹائرڈ ججز، ماہرین قانون اور کچھ ا یسے ارکان بھی شامل ہو جو طویل عرصہ اسلامی تحقیق و تدریس سے منسلک رہ چکے ہوں۔