گوشہ اردو
ہارن آہستہ دو‘ قوم سو رہی ہے!
انسان کی سماجی زندگی کی شروعات پتھرکے زمانے سے شروع ہوئی تھی۔ اُس نے ایک عرصہ غاروں میں گزاری۔علم وشعور کی وجہ سے فوراََ غار سے نکل کر جنگل کی جانب نکلا۔ ایک وقت میں اس کو احساس ہواکہ انسان جانوروں کی طرح جنگل کےلئے نہیں بلکہ عقل وشعورکے ساتھ پیداکیاگیاہے لیذا اُس کی زندگی بھی جانوروں سے بہتر ہونی چاہئے۔ زرعی دور سے صنعتی دور تک انسانی روّیوں میں بہت تبدیلی رونماہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے انسان نے اپنے ہاتھ سے محنت کرنے کے بجائے ایسے مشینیں بنائی جو آگے چل کر انسان ہی کےلئے بہت کارآمد ثابت ہوئے۔ اپنے تجربے سے انسان نے وہ کچھ سیکھا جو وہ سیکھ سکتاتھا۔ اس سفر میں شروع ہی سے انسانی روّیے تین گروپوں میں تقسیم ہوتے آرہے ہیں۔ ہر دور کے وہ لوگ جو اپنی تاریخ ورسومات سے چمٹے ہوئے ہیں قدامت پسند کہلاتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو اپنے آباواجداد کے ساتھ ساتھ خود بھی دریافت وایجاد میں مصروف رہے ہیں اور تیسرے طبقے کے وہ ہیں جو تاریخ و رسومات سے آگے نکلتے رہتے ہیں اُن کا پچھلے ایام سے کوئی واسطہ ہی نہیں رہا کرتا ہے۔ انہی تیں طبقات کی نمائندگی ہرزمانے میں موجود رہی ہے اور رہے گی۔
دوسری جانب مذہبی زندگی ہے جہاں اللہ کی جانب سے ہر دور میں انبیائے کرامؑ جولوگوں کو ان کی زندگی میں ہدایت و راہنمائی پر معمور ہوتے ہیں۔ ھادی الزمانہ اپنی قوم کو وہ راستہ دیکھاتے ہیں جو فلاح وبہود اور کامرانی کاہے۔ حضرت آدم علیہ سلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاءاپنی قوم کو ہدایت سے نوازتے رہے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ اس دنیا میں رحمة اللعٰلمین بن کر آگئے اور قرآن پاک جیسی مقدس کتاب قیامت تک کےلئے رشدوہدایت کا سرچشمہ چھوڑ کر گئے۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے کتاب وسنت پر شاندار عمل کیا جس کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھتے رہے اور دنیا کو علوم و فنون سے مالامال کیا۔ چھٹی صدی عیسوی میں اسلام کی ترقی اس حدتک بڑھ گئی کہ زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق و تعلیم پر کام کرتے رہے۔ بہت کم عرصے میں اسلام عرب سے عجم و اسپین تک پہنچ گیا۔ اس زمانے میں یورپ جہالت کے اندھیرے میں ڈوبا ہواتھا۔ اچانک مسلمانوں کی علمی اداروں تک اُن کی رسائی ہوئی اور وہ علم تمام لیکریورپ نکلے اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی وسعتوں میں اتنا اضافہ کیا کہ آج وہ سب تعلیم و تحقیق یوروپی لگنے لگی ہے۔ اِدھر مسلمان حالت جنگ میں رہے ایک دوسرے کی سلطنتوں کو تہس نہس کرڈالا جس کی وجہ سے بڑے بڑے لائبریریاں جل کرراگ ہوگئی۔ اس قدر جنگ و جدل سے آپس میں اتنی دوریاں ہوئی جن کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ ان جنگوں کی بنیادیں مسلمیہ کذاب‘ خاریجوں‘ غلو کرنے والوں اور شدت پسندوں نے رکھا۔۔۔
تاریخ کے اس لمبے تناﺅ کے بعد ہم جب ہوش میں آئے تو یورپ پوری انسانی سماجی زندگی پرچھاچکی ہے۔ انسانی بنیادی ضروریات کے ایک ایک چیز یورپ میں بنی ہے۔ زرعی معاشرے سے صنعتی اور صنعتی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی تک کے ارتقائی سفر میں یورپ کو بہت کچھ دینا بھی پڑا۔ مذہب اور اسٹیٹ الگ الگ ہوگئے۔ امیر اور غریب میں فاصلے بڑھ گئے۔ اشتراکی سماج سے سرمایہ دارانہ نظام میں انفرادی زندگی نے پنپ لیا۔ مقابلے کے اس رجحان میں انسانی سماجی روّیے کچل دئیے گئے۔ جیت جیت کے بجائے کسی کی ہار میں ہی جیت ہونے لگی۔ سماجی انصاف‘ رحمدلی‘ مدد‘ حلیمی‘ شفقت‘ مہربانی‘ ہمدردی‘ پیارو محبت‘ دوستی‘ خلوص‘ دیانت داری اور امانت داری جیسے عالمی انسانی اقدار ختم ہوتے گئے۔ معاشرے میں طاقتور کی سنی جاتی ہے۔ سرمایہ کی بنیاد پر تعلقات قائم ہیں۔ انسان مشنینوں کی دوستی میں گم ہے۔ دن رات مشینوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانی رشتوں میں خلوص و محبت میں کمی آرہی ہے۔ خاندانی نظام زندگی میں دوریاں پیدا ہورہی ہے۔ خاندانوں میں اتحاد کا فقدان اور انفرادیت کی وجہ سے ہر ایک اپنی ذات تک محدود ہوتا جارہاہے۔ اسلامی اقدار اور تعلیمات پرعمل اس عالمی سیاق میں کم ہوتے جارہے ہیں۔ میڈیا اور انٹرنٹ کی وجہ سے اب غریب ممالک کے لوگوں میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی خواہش بڑھتی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں ہر دور کی طرح ہمارے دور میں بھی وہی تین گروپ موجود ہیں۔ جو اپنی سطح پر اپنے اسلاف کی نمائندگی کرتے ہیںیعنی قدامت پسند‘ اعتدال پسند اور جدت پسند۔
اس کہانی میں ہر شخص کا مفاد ہے اس لئے اپنی سطح پر سوچتے رہتے ہیں۔ اجتماعی طورپرموجودہ وقت میں ہم تیسری دنیا کے شہری ہیں جس کی وجہ سے غربت وافلاس کے ساتھ کم تعلیم کی وجہ سے دوسری اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کسمپرسی میں زندگی کی روڈ میں اس قدر پریشان ہیں کہ سمت کے تعین میں مشکلات درپیش ہیں۔ مشکلات اس لئے درپیش ہے کہ ہمارے اسلاف نے اپنے دور میں اندون خانہ جنگوں اور قبائلی جھکڑوں میں وقت ضائع کیا جس کی وجہ سے ہم ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے۔ ہم اب بھی ہوش میں نہیں آپس کے لڑائی جھکڑے جاری ہے۔ علاقہ‘ زبان‘ مذہب اور غربت کی بنیاد کی ان جھکڑوں کی وجہ سے امیر ممالک ہماری اس روّیے سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ہمیں آپس میں لڑاکر ہمارے وسائل پرقبضہ کرچکے ہیں۔ ہماری لڑائی میں اُن کی دکان چلتی ہے اور ہم انہی کے دکان کو چلانے کے سبب بنے ہوئے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے امیرممالک کی غلامی میں سب پیش پیش ہیں۔ آج ہم زیست کے تمام ایجادات اُن سے خرید رہے ہیں۔ غریب ہونے کے باوجود محنت مزدوری اور خون پسنے کی کمائی سے خود اپنے پیٹ پالنے کی بجائے موبائل بلینس سے لیکرٹشو پیپرتک کی مد میں پیسے وہ اٹھا جاتے ہیں۔ ہمارے نوجوان ایجادات و دریافتوں کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم چھٹی صدی کے اپنے اسلاف کے گُن گاگاکر اپنی زندگی میں سوئے ہوئے ہیں۔ یورپ والے اُن کی علم کو استعمال کرکے چاند اور سیاروں کو مسخر کر چکے ہیں ہم اپنے اسلاف کی علم میں اضافہ نہ کرسکے اور خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے یہ رکشہ والے نے ہمیں ہماری تاریخ یاد دلانے کی کوشش میں اپنی رکشے کے پیچھے لکھاہے۔ ہارن آہستہ دو قوم سوئی ہوئی ہے! بقول شاعر
یونہی بے سبب تو نہیں چمن کی تبائیاں
کچھ باغباں ہیں آگ و شرر سے ملے ہوئے!
waw waw waw…. بہت عی اعلٰی استاد محترم۔ کیا خوب بیان کی ہے۔