ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
شہر کی بڑی بڑی عمارات میں ہم رہ سکتے ہیں اور وہاں زندگی کی آسائشیں بھی موجود ہیں لیکن یہ تمام آسائشیں ان علاقوں سے آتی ہیں جہاں لوگ خود ان آسائشیں جانتے بھی نہیں۔ وہ دن رات کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پانی‘ موسم‘ صحت‘ معاش اور مذہبی وسیاسی مسائل کا شکار رہنے کے باوجود محنت مزدوری جاری رکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر جب بھی ہم شہر سے تین چار کلومیٹر باہر جاتے ہیں۔ دیہات کے ان جفاکش لوگوں کو دیکھتے ہیں جو دن رات محنت کرتے ہیں اور ان کی محنت کا صلہ ان کو نہیں شہر والوں کو مل جاتا ہے۔ دیہات کے لوگوں کی قیادت کرنا کوئی آسان کام نہیں ان کی قیادت کے لئے انہی کے پاس رہنا پڑتا ہے۔ نمبردار‘ چودھری اور دیگر لوگ گاؤں میں ہی لوگوں کی قیادت کرتے ہیں۔ اساتذہ اور علماء کی راہنمائی میں انہی دیہاتوں سے بچے پڑھنے شہر نکلتے ہیں اور شہرکے ہوکے رہ جاتے ہیں۔
اس ملک میں ترقی کی منزل اس وقت تک قریب نہیں آئیگی جب تک ہم اپنے دیہی علاقوں کو اہمیت نہیں دیں گے۔ نیم حکیم اوران پڑھ لوگ گاؤں کے لیڈر بنا شروع ہوجائیں تو یقیناًوہ اپنی قوم کو بھی وہی حیثیت دینے میں راضی ہونگے۔ گاؤں سطح کی قیادت کو روایتی سے ہٹ کر اہلیت کی بنیاد پر رکھنا چاہئے تاکہ لوگ اپنے لوگوں کی گاؤں سطح پر صحیح قیادت کرسکے۔ علماء وسیاسی قیادت کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے دنوں یونیورسٹی سطح کے ایک سمینار میں ایک بہت پڑھے لکھے پروفیسر نے کہا کہ وہ جب بھی گاؤں جاتے ہیں گاؤں کا حلیہ بنا کر جاتے ہیں اور گاؤں میں جاکے وہ ان کو باقی دنیا کے بارے میں اگاہ کرنے کی بجائے خود ان کی خوشنودی کیلئے ایک دو دن اُن کی طبیعت کے مطابق (نہ چاہتے ہوئے) گزارتے ہیں۔ اس صورتحال کو سامنے کرنے کیلئے وہ خصوصی لباس اور ٹوپی اور دیگر قدیم حلیے کی ضروریات لیکر وہاں جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ گاؤں میں بہت ساری چیزیں اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ جہالت بھی ہے لیکن وہ کبھی بھی اس کے خلاف نہیں بولتے ہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے خاندان والے اس کے ناراض ہوسکتے ہیں۔ محض اس ناراضگی کو سہنے کے لئے وہ نئی نسل کی قیادت نہیں کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ گاؤں سے واپسی پر وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر آتے ہیں اور خود جدید زندگی کا لطف لیتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے علاقے میں بیس فیصد بھی تعلیم نہیں اور اب بھی نوجوان بچے بندوق اور قبائلی افکار کے مالک ہیں۔ یہی حالت ہم سب کا ہے ہم جب گاؤں جاتے ہیں گاؤں کے لوگوں کو شعور دینے کی بجائے محض چند لوگوں کی خوشنودی کی خاطر نوجوانوں کی قیادت نہیں کرتے ہیں۔ ان کو جدید دنیا کے بارے میں اگاہی نہیں دیتے ہیں۔ ان کو ہم بھی اپنی ثقافت اور زبان کے نام سے آگے آنے نہیں دیتے ہیں۔ ان کو ہمیشہ وہی رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ تعلیم اور ترقی کی وجہ سے اپنے آپ کو مظلوم بناکر پیش کرتے ہیں اور گاؤں والوں کو ہیرو بنادیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ تعلیم اور ترقی پسند لوگوں کا پیچھا کرتے ہیں اور رسومات اور ثقافت کے نام سے بچے اور بچیوں کو بھی اگلی صدی کے بجائے پچھلی صدی کے افکار کی تعلیمات دیتے ہیں۔ یہاں پچھلے تعلیمات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو مذہبی تعلیمات ہیں اور دوسرے قبائلی تعلیمات۔ ہم مذہبی کو کم قبائلی کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں اور بعض علاقوں میں مذہب بھی قبائلی رسومات کے اندر نظرآتاہے۔ اس صورتحال میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی شعوری خدمت کی ضرورت ہے۔ سماجی ضمیر کی اگاہی سے ہی قومیں ماضی کے زنجیروں سے باہر آسکتی ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کا معذرتخہانہ روّیہ مناسب نہیں بلکہ اپنے خاندان کے ساتھ دوسروں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ موجودہ دور میں رہنے کیلئے موجودہ دور کی سوچ ضروری ہے۔ معاملات زندگی میں اخلاقیات اور مذہبی تعلیمات کے ساتھ دور حاضر کی سوچ ہمیں قیادت فراہم کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے ہمیں اچھے لوگ یاد آتے ہیں اور ان کا نام زندہ رہتا ہے۔ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنا نام آنے والے دور میں زندہ دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہمارا آج کل کی یاد بن جائے گی اس لئے انسان کا ہردن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہونا چاہئے۔ اس لئے جب ہم مستقبل کے لئے سوچتے ہیں تو دراصل ہم آنے والی نسل کیلئے ماضی کی مثال بننا چاہتے ہیں!ہمارا آج اور کل آنے والی نسل کیلئے ماضی کی یاد بن کر رہے گی.