گوشہ اردو
یارانِ محفل کے ساتھ ایک دن اشکومن میں
تحریر: امیرجان حقانی
لیکچرر: ایف جی فیڈرل ڈگری کالج جوٹیال گلگت
یہ ستمبر کے ابتدائی دنوں کی ایک خوشگوار دوپہر تھی، ڈگری کالج گلگت میں تمام پروزفیسر اور لیکچررزخوش گپیوں میں مصروف تھے۔اور گرمیوں کی تعطیلات کے بعد پرنسپل صاحب کی اپنے اکیڈمک اسٹاف کے ساتھ پہلی میٹنگ تھی۔ اس میٹنگ میں کالج میں تدریسی اور تربیتی امور کے حوالے سے تمام پروفیسروں اور لیکچراروں سے رائے اور تجاویز لی گئیں تاکہ تعلیمی اور تربیتی نظام کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکے۔ اور مختلف امور کا حتمی فیصلہ ہوا۔سینئر اساتذہ کو داخلہ وغیرہ کی ذمہ دریان سونپی گئی۔ اختتام نشست میں پرنسپل صاحب نے کہا کہ اس سال ڈائیریکٹریٹ والوں کی مہربانی سے ہم اپنے کئی محنتی ساتھیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی نئے چہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔ اب ہمیں چاہیے کہ آنے اور جانے والوں کے اعزاز میں ایک ” فیئر ویل اور ویلکم پاڑٹی “ کا اہتمام کریں۔ تمام ساتھیوں نے اس خیال کا یک زبان تائید کی تاہم چند احباب نے گلگت کے کشیدہ حالات کا رونا رویا اور ایک ایسا نقشہ کھینچا کہ کہیں تفریح کے لیے جانا خطرے سے خالی نہیں۔ اپنے زمان گوجالی المعروف ”کمشنرصاحب“ نے تو رائی کا پہاڑ بنا دیا۔
پروفیسر سیدجلال نے اشکومن میں واقع اپنے وسیع وعریض دولت کدے میںشرفِ ضیافت کی آفر کی جو بغیر تامل کے قبول ہوئی۔ جلال صاحب کے ادبی چٹکلوں‘رعنائی طبع‘ متلون المزاج‘حس ظرافت و طراوت اور ذوق لطافت و حلاوت کی طرح ان کی ”سخاوت“ بھی محکمہ تعلیم میں معروف ہے۔وہ ہر عام و خاص کی ضیافت کے گُر سے خوب واقف ہیں۔لوگ ڈنڈے‘ دھکے‘ پنگے ‘ ٹوٹکے ٹونے‘رشتے ناتے اور ”بابا کے نقشے“ سے جو جو معرکے سر نہیں کرسکتے وہ جلال صاحب ایک سالن کے ڈونگے سے حل کرجاتے ہیں۔لاریب کہ باوصف وباکمال آدمی ہیں ۔خدا تادیر سلامت رکھے۔
خدا خدا کرکے اصحاب علم و قلم کا سینتیس (۷۳)افراد پر مشتمل یہ قافلہ بروز اتوار ۵۱ اکتوبر کو صبح نو بجے کالج وین میں گھڑی باغ سے محبتوں کی سرزمیں وادی غذر کا معروف گاو¿ں اشکومن پکورہ کی طرف پابہ رکاب ہوا۔ ہم بیچارے پابندیِ وقت کے مارے ہوئے پورے آٹھ بجے گھڑی باغ پہنچے مگر کچھ احباب کی لاپرواہی کی وجہ سے نو بجے روانہ ہوئے۔ اپنے اجلال صاحب نے تو دیر کرنے کے ریکارڈ توڑ دیے‘ چلو یوں ہی سہی۔
عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ ” الوقت سیف قاطع فان لم یقطع فیقطعک“ وقت دو دھاری تلوار ہے اگر آپ اس کو نہیں کاٹیں گے تو وہ آپ کو ضرور کاٹے گا۔ یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم وقت کو ضائع کررہے ہیں بلکہ وقت ہمیں مزے لے لے کر ضائع کررہا ہوتا ہے۔
سفر کے ابتداءمیں پروفیسر راحت صاحب ڈیجیٹل کیمرے سے ”یارانِ محفل “کی تصویریں بنارہے تھے اور ساتھ یہ آواز بھی لگارہے تھے کہ” اپنا اپنا منہ دکھاو‘ یہ موٹروے ہے آپکی انٹری لازمی ہے جو ویڈیو فلم کے ذریعے ہوگی‘ سونے والے بیدار ہوجائیں“ ۔دل میں خیال آیا کہ اگر یہ قوم بیدار ہوتی تو یہ حالت نہ ہوتی۔ یوں ابتداءہی میں ایک زور دار قہقہ لگا۔اپنے کمشنر صاحب اور صدرالصدور(ایسوسی ایشن کے صدر)جناب عزت عالی مآب پروفیسر اویس صاحب ڈرائیور کے ساتھ براجمان تھے اور پروگرام میں تھے کہ محفل نشاط کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہو‘ الحمدللہ ایسا نہیں ہوا۔ ڈرائیوری کے فرائض استاد نوشیر انجام دے رہے تھے۔گاڑی فراٹے بھرنے لگی۔ میں گم سم علم کی موتیاں بکھیرنے والوں کی حرکات وسکنات کا جائزہ لے رہا تھا۔احباب نے بھی کھسر پھسر شروع کی ہوئی تھی۔ہری پون کے قریب ایک تھریشر مشین نے ڈھٹائی سے روڈ بلاک کرکے قافلے کے رنگ میں بھنگ ڈالا‘ گاڑی میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے پرنسپل صاحب‘ پروفیسر علی داد صاحب ‘ پروفیسر کمال نور صاحب اور پروفیسر بشیر صاحب برادرم عبداللہ کی گاڑی میں سوار ہوکر ہم سے آگے نکل چکے تھے۔جب ہم گلاپور میں پہنچے تو بزرگوں کا یہ کارواں جلال صاحب کے ڈرائنگ روم میں چائے نوشی فرما رہے تھے۔
تھنگی میں تمام احباب نے پروفیسر انورناصر کا ملکیتی باغ کا عاقبانہ جائزہ لیا‘ کچھ نے تعریفیں کی اور کچھ ناک منہ چڑھانے لگے اورہم تو منہ بسورتے ہیں رہ گئے۔ عبید صاحب پروفیسر انور ناصر کا طریقہ واردت کو تفصیل سے بیان کرنے لگے تو ساتھی کان لگا کرسن رہے تھے جیسے جنت کے فضائل بیان ہورہے ہیں۔
ابھی میں اپنے خیالات میں گم تھا کہ گاڑی نے بریک مار دی‘ کیا دیکھتا ہوں کہ ہم وادی غذر کے پہلے گاوں گلاپور میں پہنچ چکے ہیں۔ گلاپور سے کچھ خریداری کرنی تھی، جو کی گئی، ساتھی اتر کر فروٹ والے کے پاس جمع ہوئے۔کچھ انگور خریدے گئے مگر کیا دیکھتا ہوں کہ احباب نے نہ آودیکھا نہ تاو، فروٹ والے کی دکان پر دھاوا بول دیا،خوش گپیاں جاری ہیں، ہم نے بھی اپنے حصے کا انار لیا اور مزے لینے لگے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ احباب نے فروٹ کی دکان کو ”فری زون “ قرار دیکر یہ سلوک کیا تھادل ضرور دکھا‘ مہذب لوگوں کا یہ غیر مہذب رویہ قطعا اچھا نہیں لگا۔ مگر وہ بھی بڑے ہوشیارنکلے کہ رات گئے واپسی پر سب کو لوٹ لیا‘ چالیس روپے کلو کے انار پچاس اور اسی والے انگور سو کے بیچ دیا‘ کم سے کم ان چند منٹوں میں بیس ہزار کی سیل ہوئی اس کی‘ یوں اس کے وارے نیارے۔ جب ہم انار کے مزے لے رہے تھے تو کچھ ساتھی کالج وین کے ساتھ چپک کر فوٹو لے رہے تھے اور اپنے سلیمی صاحب آدھا کلو انگور ہاتھ میں لئے یہ صدا بلند کررہے تھے کہ ” سر جی! ایک دانہ ہی لے لو، لو تم ہی بتاو¿ کہ آدھا کلو انگور سے چالیس آدمی کیا پورا خوشہ لیں گے یا پیٹ بھر کر کھائے گے۔ سخاوت کی یہ نرالی ادا دل کو بھا گئی۔ ایک بات تو بھول ہی گیا کہ اپنے یاد صاحب نے ابتداءسفر میں ہی ”خیراتی “ ٹافیاں تقسیم کی تھی جن کے زہر مار کرنے سے منہ ضرور میٹھا ہوا مگر گلے میں سوجھن شروع ہوئی‘ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا سازش تھی۔
ایک دفعہ پھرساتھی گاڑی میں بیٹھ گئے ، ہم نے موقع پاکر قلم کاپی نکالا اور اپنی تحریر کے لیے نوٹس لینے لگا‘ اتفاق سے میرے قلم اور ڈائری کا کلر سرخ تھا اور مجھ سے متصل بیٹھے راحت صاحب میری تصویر پر تصویر بنارہے ہیں، میرے استفسار پر بتایاکہ” کہیں آپ یہ نہ لکھ ڈالے کہ میں اپنے من پسند لوگوں کے پکچر ز بنارہاہوں“۔میں نے دائیں بائیں دیکھا تو سارے ترچھی نگاہوں سے مجھے گور رہے تھے کہ جیسے میں منکر نکیر بن کر ان کے پاس آیا ہوں یا سرکاری فرشتہ بن کر ان کے احوال نوٹ کررہا ہوں۔لوبھئی ! یہ بھی کوئی بات ہوئی‘ سفراور جنگ میں توسب کچھ جائز ہوجاتاہے۔ اور آج تو لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ سیاست اور محبت میں بھی سب کچھ جائز ہے۔ پتہ نہیں تھوک کے حساب سے اتنے سستے فتوے کہاں سے دستیاب ہیں؟۔جاتے ہوئے احباب کے چہرے سرخ سرخ تھے جو سفیدی بہ مائل تھے مگرواپسی پر بھی سرخ سرخ مگر سیاہی غالب تھی چہروں پر‘تھکاوٹ کے اثرات تھے یا نشیلی انگور کے مضرات۔ معلوم نہ ہوسکا۔
میرے ساتھ پروفیسر شریف بیٹھے تھے‘ وہ غذر کے رہنے والے ہیں، اس لیے جگہ جگہ کے اہم مقامات کا تعارف کرائے جارہے تھے اور میں ان کی معلومات سے محظوظ ہورہا تھا۔غذر کے علاقہ گوہرآباد میں ایک Spark of Hope public school کے نام سے ایک سکول ہے۔غذر کی ایک بیٹی کی شادی کنیڈا میں ہوئی ہے اس نے فنڈنگ کر کے یہ سکول تعمیر کروائی ہے، بیٹی ہو تو ایسی جو پوری دھرتی کا سوچے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ شریف صاحب کے مطابق خوبصورت بلڈنگ کے اس اسکول میں معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ ویلڈن یار!
سنگل کراس کرنے کے بعد اپنے اشتیاق صاحب اور راحت صاحب نے کھسر پھسر شروع کی‘ اچانک صلاح الدین حسرت کے کلام کو زور دار آواز کے ساتھ گانا شروع کیا ‘ پھر کیا تھا کہ ایک ہنگامہ بپا ہوا ‘ پوری محفل میں جمود سا چھاگیا تھا ٹوٹ گیا‘ سر اور تال نے پوری گاڑی کو آسمان پر اُٹھا رکھا تھا‘ کوئی چیخ رہا ہے ‘ کوئی تالیاں پیٹ رہا ہے تو کوئی ناچ رہا ہے۔ مگرآخر میں میدان مجیب صاحب نے مار لیا‘ کیا خوب گایا جو بھی گایا ۔میں مبہوت اپنی سیٹ پر پڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور دل دل میں کہہ رہا تھا کہ ” یا اللہ !کہاں آکے ٹپکا“ ”آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا “ والی کیفیت تھی۔دفعتَا دل میں ایک سوال ابھر آیا کہ علم کی موتیاں بکھیرنے والے کس چیز میں مصروف ہیں؟ تادم تحریر جواب ندارد۔
گاڑی کا سفر بے حد لطف اندوز تھا‘نیلے پانیوں کی سرزمین میںدرختوں پر پت جھٹر کے اثرات غالب تھے ‘راستے کے مناظر بھی جاذب النظر تھے اور دل کو بھانے والے تھے مگرسچی بات یہ ہے کہ” کم تو تھی آلودگی پر عام تھی بے ہودگی‘ اس لیے ہم کر نہ پائے کُھل کھلا کر تانک جھانک“۔
ٹھیک ۲۱ بجے پکورہ پہنچ گئے،پکورہ بازار سے محفل یاران کے احباب مختلف ٹولیوں میں بٹ کر تانکتے جھانکتے ہوئے ‘کھیتوں میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے سید جلال صاحب کے دولت کدے میں پہنچ گئے۔جلال صاحب اپنے معزز مہانوں کو خوش امدید کرنے کے لیے اپنے باغیچے کے دروازے پر موجود تھے ‘کسی کو خوش آمدید کررہے تھے تو کسی کو ویلکم، کسی کو پخیر راغلئے تو کسی کوخووش آمدید‘ کسی کو جُولاھ‘ مگر ہمیں تو” اہلاَ و سہلاَ مرحبا‘ مرحبا“ کہا۔ مجھے جلال صاحب کی زبان دانی پر رشک آیا‘ اردو ‘ انگریزی‘عربی پشتو‘شینا‘ کھوار اور بروشکی اتنی روانی سے بول رہے ہیں، آخر پروفیسر جو ہوئے‘ ہاں مگر علم لسانیات کے پروفیسر تو نہیں ہے بلکہ دینیات کے ہیںمگر پھر بھی اتنی مہارت۔رتبہ بلند ملا ہے جس کو بھی مل گیا ہے۔
جلال صاحب نے بطور ناشتہ ایک زبردست دسترخوان بچھایا تھا‘ جس میں ”غولی“ کے ساتھ دیسی گھی‘ چپس‘ کباب اور چائے‘ ہاں مگر چائے تو ”بہت پتلی“ تھی۔ یارانِ محفل نے جم کر کھایا ‘ خوب سیر ہوئے‘ باغیچے میں لگے دسترخوان سے ہر آدمی حسب جثہ و جبہ اپنا اپنا حصہ لے رہاتھا۔چائے کا اشتیاق راستے میں ہی تھا اور میرے قریب بیٹھے اشتیاق یاد چائے کی تھرموس میرے طرف سرکارہے تھے‘ ہم نے چائے کی خوب چسکیاں لی ‘ پیالی پر پیالی اڑانے لگے‘مجھے تو لگتا ہے کہ میں چائے کے بغیر جنت بھی جانے پر راضی نہ ہوجاوں۔ جناب صدرالصدور کا فارمولا یاد آرہا تھا کہ”دودھ ‘ پتی اور چینی ٹھونک کے اور پانی ذرا ‘روک کے‘ چار کپ چائے دے دیں“ مگر یہاں تو پانی ٹھونک کے باقی سب روک کے چائے تیار کی گئی تھی۔ جب احباب کو کھاتے ہوئے دیکھا تو جلال صاحب سے رہا نہ گیا‘ بالآخر وہ بول اُٹھے کہ” آپ سب کو یہاں اس طرح کھاتے ہوئے دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ میری تیسری شادی ہورہی ہے“ پھر کیا تھا کہ یارانِ محفل نے ایک زور دار قہقہے سے محفل کو کشت زعفران بنا دیا اور ہم بھی جلالی طنز سے محظوظ ہوئی بغیر نہ رہ سکے۔اس بڑھاپے میں بھی یہ مست جوانی اُف یا خدا !
جب ناشتے سے فارغ ہوئے تو کچھ دوست کھانا پکانے کے لیے رک گئے جن میں اپنے صدر الصدور‘ ڈپٹی کمشنر اور عبید صاحب تھے۔ صدرالصدور تو واقعی خدمت گار ہیں‘ جناب کمشنر صاحب بھی ان کے معاون ہیں مگر عبید صاحب کا سمجھ نہیں آیا کہ وہ ان کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے تھے، شاید نگرانی کررہے تھے کہ وہ پورا بکرا ہضم نہ کر جائیں۔
ہم پرنسپل صاحب کی معیت میں پکورہ کا وزٹ کرنے کے لئے نکلے۔ کھیتوں سے گزرتے ہوئے پکورہ کے آخری سرے تک گئے‘ میں پکورہ پہلے بھی ایک دفعہ جا چکا ہوں ۔میرا خیال ہے کہ یہ علاقہ(ضلع غذر) جنت نظیر ہے اور جو جنت نظیر ہو اس میں دوزخ کے داغ دھبے نظر آئے تو کیفیت تکلیف دہ ہوتی ہے؟
2010ءکے سیلاب کے بعد یہاں دوزخ کے بے شمار دھبے نظر آرہے ہی اور سیلاب سے متاثر ان دھبوں پر رنگ روغن کرنے کے لیے اپنے پیر کرم علی شاہ صاحب کے پاس فرصت ہی نہیں۔ بہرصورت اب کی باربھی پکورہ کی خوبصورتی دوبالا نظرا ٓئی، پھر احباب بھی تو کچھ کم نہیں تھے، کھیتوں سے گزرتے ہوئے میں کسی درخت سے ناشپاتی توڑ رہا تھا تو کسی کیاری سے کھیرا‘ کہیں سے بیر توڑ رہا تھا تو کہیں سے انگور اور کہیں سے چٹور نامی پھل کا ذائقہ چکھ رہا تھااور کہیں سے کچھ۔ برادرم عبداللہ صاحب مجھے سمجھا رہے تھے کہ یہ مناسب نہیں‘ او ر پھر مجھے اپنا منصب بھی یاد دلا رہے تھے کہ مگر ان کو کیا پتہ کہ میں یہاں نہ ” تبلیغ“ کے لیے آیاتھا نہ استاد بن کے‘ بلکہ ایک سیاح، صرف اور صرف ایک ”سیاح“۔ دریا کے کنارے کنارے احباب نے نماز ظہر ادا کی‘ ہم بھی اس فرض سے سبکدوش ہوئے، اپنے راحت شاہ صاحب تو بس جگہ جگہ ” پکچرنگ“ میں مصروف تھے۔ یعنی ان کو پکچر فیلیا ہوگیا تھا۔ ادائے فرض کے بعد احباب ٹولیوں میں بٹ گئے‘ میں محترم کمال نور صاحب کی معیت میں پکورہ نالے کی چڑھائی چڑھ رہا تھا اور وہ نیچرل اور فطرتی زندگی کے اوصاف بیان کیے جارہے تھے۔ پکورہ کے موسم ‘ بہتے پانیوں کا شور‘ کالے پتھر‘ پہاڑوں پر جمی برف کی سفیدی‘ سپیدے کے درخت اور بیر کی جمالیت و افادیت اور قدرتی مناظر کی تعریف وتوصیف پر مبنی یہ لیکچر کافی دیر تلک جاری رہا‘ شاید انہوں نے مجھے بی ایس سی سال اول کا نیانیا اسٹوڈنٹ خیال کیا تھا‘ چلو! یوں ہی سہی۔پروفیسر اسماعیل صاحب بھی سماعت کیے ہماری معیت میں آگے بڑھ رہے تھے۔اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ پگڈنڈی کے پار برلب دریا احباب نے بیچ درختوںایک خوبصورت سی جگہ میں ” محفل نشاط و سرور “ لگائی ہوئی ہے۔ سلیمی او ر یاد پکار رہے ہیں کہ یہاں آو یہاں آو! ہم آگے بڑھے اور کافی آگے جا کر مڑے‘ اور کانٹے دار جھاڑیوں اور پھلدار درختوں سے راستہ بناتے ہوئے اس قدرتی باغیچے میں لگی محفل میں پہنچے‘ بس عبدالرزاق جونیئر کے پشتو گانے سے احباب نے محفل کی ابتدا کی‘ میں بھی ذرا فاصلے پر بیٹھے ” محفل نشاط وسرور“ سجانے والے اصحاب علم و دانش اور اساتذہ شعر و ادب کی حرکات و سکنات بلکہ واہیات سے محظوظ ہورہا تھا اور حیران بھی ۔ دل میں ایکاایکی خیال آیا کہ یہ کیا کرنے لگے ہیں۔اپنے سلیمی صاحب نے دیسی رقص شروع کی‘ حیرت ہوئی کہ اتنی بے ڈھنگ رقص احباب نے کیسے تحمل سے برداشت کیا‘ آدمی کو ناچنا نہ آئے تو دوسروں کو اپنی چال بے ڈھنگی سے تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ محفل کے ارگرد قدرت کا حسین حسن نظر آرہا تھا‘نالے کا پانی محفل کے رنگ میں بھنگ ڈالنے اوراحباب کے سُر اور تال میں شوریدگی بلکہ بدمزگی پیداکرنے کی ناکام سی کوشش کر رہا تھا‘ مگر پت جھڑ کے موسم میں خیالات کی دنیامیں محفل نشاط اور احباب کی سریں دل و دماغ میں عجب کیفیات پیدا کررہے تھے۔دل محفل کے حق میں دلائل کے انبار لگا رہا تھا اور دماغ یک جنبش قلم سب کو مسترد کررہا تھا‘ سچی بات یہ ہے کہ دل نے جیت لیا‘ بہر صورت دوستوں نے خوب انجوائی کی‘ راحت شاہ بھی شینا گانا گانے کی کوشش کررہا تھا مگرا ن کو یاد ہی نہیں آتے‘ نسیانی کی شکایت کرنے ہوئے کھسیانے ہوتے۔ دور درختوں کے اوٹ سے کمال نور صاحب ترچھی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اگران کا بس چلتا تو سب کی پٹائی کرتے۔ نشست کا آغازجس خوبصورتی سے ہوا تھا اختتام اس بے رغبتی سے ہوا‘ یعنی اپنے منور صاحب کے ”جارحانہ “ مگر والہانہ لطیفوں سے۔
دوبارہ احباب جلالی باغیچے میں جمع ہوئے‘ میں کھسک کر باہر نکلا‘ ذہن میں کوئی شرارت سوجھ رہی تھی کہ یکایک سامنے سے ایک خواندہ نوجوان وارد ہوا‘ علیک سلیک کے بعد ان سے کہا کہ برادرم !میں اجنبی ہوں،یہاں کے بارے کچھ بتاو تو، وہ کہنے لگا۔ ضلع غذر فطرتاَ ایک شریف النفس ضلع ہے مگر اب یہاں بھی آبی پرندوں کی طرح موسموں کو دیکھ بیرونی حالا ت وارد ہونے لگے ہیں۔یہاں ہر نفس‘ خیال وفکر کے انسان بستے ہیں‘ محبت یہاں عام ہے، یہاں دولت کے مغرور بھی ہیں اور غربت کے مجبور بھی‘ یہاں معرفت کے مخمور بھی ہیںاور دیسی شراب(مو) سے چور بھی‘ نیلے پانیوں کی سرزمین بھی ہے اور رنگ برنگے پتھروں کی وادی بھی۔ اس نوجوان کی تقریر دل پزیر سن کر میں مبہوت ہوا‘ اور خدا حافظ کہہ کر اپنی راہ لی اور باغیچے میں رنجش قدم کیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ دسترخوان پر کھانے کی پلیٹیں لگ رہی ہیں۔صدر اور کمشنردیگر معاونین کے ساتھ کھانا تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کو پہلی دفعہ مشرقی تہذیب اور اسلامی ثقافت کے ساتھ انتہائی باوقار انداز میں کھانا تناول کرتے ہوئے دیکھا۔ورنہ تو موقر پروگراموں بلکہ سیرت نبوی پر سیمینار منعقد کروانے والے اختتام سمینار کے بعد کھانے پر جس انداز میں ٹوٹ پڑتے ہیں‘ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔دسترخوان پر کئی انواع کے بہترین کھانے سجائے گئے تھے۔روسٹ‘ بریانی‘ قورمہ‘ کھیر‘ سلاد ‘ انگور ‘ کیلے اور بہت کچھ۔ احباب نے شکم سیر ہو کر کھائے۔کھانا وافر تھا‘ انگور بے حد لذیذ تھے۔ نصیر کریم صاحب انگور کے خوشے اٹھا اٹھا کر مجھے تھما رہے تھے مگر کچے ہاہاہا۔ تو آپ خود ہی سوچے کہ ان تمام نعمتوں کے بعد بھی کسی چیز کی اشتہاءرہتی ہے۔ شکم پروری اور شکم سیری کا رواج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ اس معاملے میں مغرب ہم سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ گوروں کو شکم سیری کے اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے اتنی محنت اور عرصہ لگے گا جتنا ہمیں ان کے جدید علوم یعنی سائنس و ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور سیکھنے میں۔ یہ سفید جھوٹ ہے کہ مغرب کے گورے ہم سے ہر چیز میں آگے نکلے ہیں۔ کچھ چیزوں میں تو ہمیں امتیاز حاصل ہے بالخصوص شکم سیری و پروری میں۔ شکم پرور علاموں کی کئی ڈنر پارٹیوںکے ہم خود عینی گواہ ہیں بلکہ شریک سہم بھی۔ اس لیے تو یار لوگ مجھے ” علامہ شکم پرور حقانی“ کہتے ہیں۔
کھانے تناول فرمانے کے بعد ” سگریٹی قبیلہ“ باغیچے سے باہر نکلا‘ مگر ایک آدمی نے ایسا کرنا لازمی نہیں سمجھا ‘ مشرق کی اس خوبصورت سی روایت کو پاوں تلے روند ڈالا۔ بھری محفل میں پاوں پھیلا کردھواں دار کش پر کش لگانے لگااور مرغولے اڑائے‘دھواں درختوں سے ٹکرا کر دسترخوان کے اوپر اوپر اور درختوں کے تلے تلے منڈ لانے لگا جیسے کُہر‘ آخرا یسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری جو ٹھہرے۔
اختتام نشست پر محترم پرنسپل صاحب نے ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا، اورکہا کہ” ہمارے جانے والے ساتھی بہت اچھے تھے‘ بہت محنتی تھے‘ تعاون کرنے والے تھے‘شریف تھے۔بہر صورت ہماری دعاہے کہ وہ جہاں بھی رہے خوش رہے مگر خدا کے لیے دوبارہ آنے کی کوشش نہ کریں“۔ انہی الفاظ کا تکرار کئی بار ہوا تو پرنسپل کے ساتھ تشریف فرما شیخ جلال صاحب جلال میں آگے اور دفعتا کھڑے ہوکر کہنے لگے کہ بھائی یہ پارٹی تو ”فیئر ویل اور ویلکم پارٹی “ ہے مگر یہاں تو صرف جانے والوں کی ہی تعریفیں ہورہی ہیں تو ہم آپ حضرات کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ ہم آنے والے بھی اتنے گئے گزرے نہیں ہیں۔پھر کیا تھا کہ یاران محفل نے ایک زور دار قہقہ مارا اور دور تک گونج سنائی دی۔ بہر صورت نشست اختتام پذیر کو پہنچی۔
شام پانچ بجے واپسی ہوئی۔ راستے میں جو ہوا اگر اس کو قرطاسِ قلم کردوں تو میرے خلاف ایف آئی آر کٹے گی۔ بہر صورت عبدالرزاق جونیئر نے محفل گرما دیا‘ تما پروفیسران ‘ ان کی انگریزی دانی سے محفوظ ہوئے اور رشک کرنے لگے۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ مہدی شاہ اور اسلم رئیسانی کی اردو سے عبدالرزاق کی انگریزی بہت بہتر ہے۔ ان دونوں کا لہجہ اور روانی اتنی زیادہ نہیں اس لیے کچھ نہ کچھ سمجھ آ ہی جاتی ہے مگر پروفیسر رزاق صاحب تو اتنی روانی سے بولتے تھے کہ انگریزی الفاظ سماعتوں سے ٹکرا جاتے اور یوں لگتا جیسے ڈبے کے اندر باجری ڈال کر ہلایاجارہا ہے۔ایک بات ذہن میں رہے کہ سفر بے حد پرلطف ہوا‘ یاد گار ہوا‘ شاید کبھی بھولے۔اس قافلے میں ہر مسلک‘ مکتبہ فکر اور مختلف اضلاع و زبانوں کے احباب موجود تھے۔ یہ قافلہ یقینا باہمی یکجہتی ‘ رواداری‘ خلوص اور ہمدردی کا بین ثبوت تھا۔کاش کہ معاشرے کے دوسرے پروفیشنل حضرات بھی اس طرح باہمی شیرو شکر ہو کر رہے تو پھر گلگت بلتستان میں ایک مثالی معاشرہ وجود پذیر میں آسکتا ہے۔ اے کاش کہ ایسا ہوجائے۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے شامِ غم مگر شام ہی تو ہے
acha safar nama hay Haqqani saab!
keep it up kaka….