قاضی اُستاد بونی (چترال) کی حلیمیت سے بھر پور شخصیت
تحریر :۔ شمس الحق قمر ؔ بونی حال :گلگت
ہم انہیں قاضی استاد ہی کہتے ہیں لیکن بونی سے باہر کے باسی ان کو’’بونیو قاضی‘‘، بونی کا قاضی، کے نام سے یاد کرتے ہیں قاضی استاد کے اصل اسم مبارک کامجھے بھی علم نہیں کیوں کہ ہمارے زمانے میں بڑ ں کا ذکر جب کبھی گفتگو میں آتا تو نام لیکر پکارنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں آج تک قاضی استاد کے اصل نام سے وا قف نہیں ۔
قاضی استاد کے جسمانی خدو خال اور قد کاٹھ دیکھ کر یہ مصرع برسجستہ و بے ساختہ نکل جاتا ہے کھنڈر بتا رہی ہے عمارت نفیس تھی ۔
ذولفقاری بھوؤں کے زیر سایۂ نیم وا طوفانی آنکھیوں میں قلزم کی سی گہرائی اُ س پر آپ کے خوب صورت پیکرکی وہ نازنین مورت کہ جس پر سنگِ مر مر کے تراشے ہوئے شوخ بدن کا عین گماں ہوجائے۔ چہرے پر ہمیشہ مسکان ، سفیدپوش ،سفیدریش اورسفید بالوں پر سفید ٹوپی۔ اللہ کے گھر کی جانب کچھ اس عجز و انکسار کے ساتھ جاتے ہیں کہ مجھ جیسے گمراہ خیال آدمی کو بھی رشک آجاتا ہے کہ کاش میرے اندر بھی قاضی استاد کی حلیمیت ہوتی ، باقی تمام مسلمان بھی آپ کے مقلد ہوتے اور سب آپ کے نقشِ قدم پر چلتے۔ لیکن قاضی استاد جیسے درست معنوں میں مسلمان ہونے کے لئے شایدایک عمر کی ریاضت درکار ہوگی ۔قاضی استاد کی عمر اِس وقت نوّے سال ہے لیکن آپ کی طبیعت ، آپ کی شخصیت اور آپ کے معمولات و معاملات اب بھی وہی ہیں جو آج سے تیس سال قبل تھے ۔آج سے تیس سال قبل جب ہم ہائی سکول بونی میں پرائمری جماعت میں پڑھ رہے ہوتے تھے تب سے اب تک قاضی اُستاد وہی ہیں جو اُس وقت تھے ۔آپ کے رحم و کرم اور شفقت و محبت میں زرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔آپ ہمیں قرآن شریف پڑھاتے تھے ۔
آج کی طرح اُس وقت بھی چترال میں مسلمانوں کے دو ہی گروہ بسا کرتے تھے سنی مسلمان اور اسماعیلی مسلمان ۔ قاضی استاد کو ہمیں قرآن شریف پڑھانے ،نماز سکھانے اور دینی معاملات سکھانے کی زمہ داری تفویض تھی ، ہماری اور صاحب موصوف کی، استاد اور شاگرد، کی رفاقت پانچ سالوں پر محیط ہے ، مجھے یاد نہیں کہ آپ نے مسلمانوں کے کسی دوسرے فرقے کے لئے کبھی تُند زبان یا لہجہ استعمال کیا ہو ( جیسے آج کل آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ ایک ہی خدا ایک ہی رسول صلم اور ایک ہی کتاب کے ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں) مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ صاحب موصوف ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’دیکھو بچو ! ہم سب کی قبریں الگ الگ ہیں اور آخرت کے لئے تمہارے پاس اچھے اعمال کے زادِ راہ کے سوا کسی اور چیز کا ہونا لازمی نہیں ‘‘ آپ ہمیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نیعمتوں کے شکر کی تلقین کیا کرتا تھے ۔ آپ جب بھی کمرہ جماعت میں داخل ہوتے تھے تو ہم سب پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہوا کرتی تھی یہ آپ کی روحانی شان تھی اور ہے ۔ آپ کسی بھی جرم پر طالبِ علم کو مارتے نہ تھے تھوڑی بہت کان مروڑتے اوپھر آپ کو رحم بھی اتنا اتا کہ جس کا کان مروڑا اُس کو پیار بھرا بوسہ بھی دیا ۔
آپ آج تک جامع مسجد بونی کے خطیب اور امام ہیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گھر بونی میں اپنے ابا حضور محترمولانا عبدللہ جی سے حاصل کی، دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں کا بے حد شوق تھا لیکن معاشی بدحالی کی وجہ سے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے اگرچہدینی تعلم کا حصول بھی آسان نہ تھا تاہم علم کی پیاس بجھانے کے لئے محترم قاضی اُستاد نے پشاور کا رخ کیا بیس دن کی پیدل انتہائی طویل مسافت کے بعد علم کا پیاسا نوجواں سرحد دارلعلوم پشار پہنچ گیا اور دینی علم کی ابتدا کی ۔ سرحد دارلعلوم پشاور سے دینی علم کی سند لینے کے بعد دوبارہ اپنے آبائی گاؤں بونی تشریف لے آئے ۔اور سن 1955 میں جا مع مسجد بونی میں معلم دینیات کے طور پر اپنے پیشے کا آغاز کیا ۔ میں نے ایک مرتبہ قاضی استاد سے پوچھا کہ زندگی میں کوئی ایسا واقعہ جو کہ ہمیشہ آپ کو یاد آئے ؟ آپ کے چہرے پر غم ، غصہ اور افسوس کے ملے جُلے شدیداحساسات کامجھے ادراک ہوا ۔ ایک لمبی سانس لینے کے بعد فرمانے لگے ہائے مہ بلبل ،مہ ژانو قوت ژاؤ ! جس وقت میں پشاور سے واپس آیا اُس وقت میرے والد بزرگوار بڑھاپے کی جانب رو بہ سفر تھے۔، لہذا میں نے اسکی جگہ معلم دینیات کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا یہ دینی سکول نہیں تھا بلکہ یہاں اور مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے۔ میرا دینیات اور قرآن شریف پڑھانا میرے ایک معلم بھائی کو شاید اچھا نہ لگا لہذا اُس نے مجھے اَن پڑھ گردان کر بچوں کو پڑھانے سے روکے رکھا یوں میں نے گھر میں آرام کیا اس کے علاوہ اور میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ لیکن عجیب معاملہ یہ ہوا کہ دوسرے دن سے تمام طلبأ اپنے اپنے قرآن شریف لیکر میرے گھر حاضر ہونے لگے اور مجھی سے سیکھنے کا تقاصا کرتے رہے یوں جب مکتب کے تمام طلبہ نے میرے گھر آکر پڑھنا شروع کیا تو مدرسہ گویا خالی خالی ہوگیا لہذا مجھے دوبارہ مکتب سکول بلایا گیا اور میں نے دوبارہ پڑھانا شروع کیا ۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے قاضی استاد کی آنکھیں اب بھی پرنم ہوتیہیں لیکن وہ اُس حاسد معلم کی بے جا بے انصافی پر مکدّر نہیں ہوتے ۔ یہی قاضی صاحب کی سب سے بڑٰ ی خصوصیت ہے ۔ مجھے ذاتی طور پر صاحب موصوف کے کئی ایک خطبات سننے کا موقع ملا ہے ۔ محترم کے خطاب سے ہر ایک کو یہ محسوس ہوتا کہ آپ کسی مخصوس طبقے کی نہیں بلکہ پوری بنی نوع انسانیت سے محبت کی تلقین کرتے ہیں۔صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ کرہ ارض پرزندگی گزارنے والی تمام مخلوق سے محبت کی باتیں کرتے ہیں۔
قاضی اُستاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سلام کرنے اور آداب بجا لانے میں کوئی بھی آپ سے سبقت نہیں پا سکتا ۔قاضی استاد اپنے ملنے والوں اور مہمانوں کو اتنی عزت دیتے ہیں کہ سامنے والا اپنے آپ کو دنیا کا اہم ترین شخص خیال کرتا ہے ۔یہی سوال جب میں نے قاضی صاحب سے کیا کہ وہ لوگوں کو اتنی غیر معمولی عزت کیوں دیتے ہیں ؟ آپ نے نبی کریم ؐ کی حیات مبارکہ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہمارے نبی پاکؐ کی اہم تعلیمات میں سے ایک ہے کہ ہم تمام انسانوں کی بلا تفرقۂ مذہب ، نسل، زبان ، علاقہ اور رنگ کے عزت کریں ۔ نبی کریمؐ کے ہاں جب کوئی مہمان آتا ،چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہو ، آپؐ ان کا بڑا خیال رکھا کرتے تھے ۔اچھی خوراک سے تواضع مدارت فرماتے ، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنے مہمان کو دیکھا کرتے کہ کہیں اُسے تکلیف تو نہیں ہو پا رہی ۔ اسی طرح سلام ا آداب میں پہل کرنا بھی آپ ؐ کا اصول حیات تھا ۔محبت ، رواداری ،دوسروں کی عزت و آبرو کا خیال ہماری بنیادی دینی تعلمات ہیں ۔اِن تعلیمات کے علاوہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے ۔
میں کھبی کھبار بڑوں سے بے تکلف بھی ہوجایا کرتا ہوں لہذا قاضی استاد کو بھی نہیں بخشا ۔ از راہ تفنن چھیڑ تے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ محترم آپ نوے سال کی عمر میں بھی اتنے ترو تازہ نظر آتے ہیں آپ کھاتے کیا ہیں اور خاص کر یہ کہ جوانی میں کیا کیا شوق رکھتے تھے جیسے مختلف کھیلوں میں حصہ لینا ، کوئی عشق معاشقہ کوئی نشہ وغیرہ ۔قاضی استاد کھلکھلاتے ہوئے ہنسنے لگے ۔ اُسے یہ معلوم تھا کہ سوال ہوچکا ہے اب کوئی نہ کوئی جواب دینا ہی پڑے گا اور وہ بھی ہمیشہ کی طرح سچ۔ فرمانے لگے ، کھانوں میں چاول جو ہمارے اپنے علاقے کی مشہور فصل ہے ، شوق سے کھاتا ہوں ۔ اس کے علاوہ سناباچی مجھے بہت پسند ہے ۔ قاضی استاد کہتے ہیں کہ نوجوانی میں فٹ بال کھیلنے کا بڑا شوق تھا ۔ اپنے فٹ بال کھیلنے کے زمانے کے یاروں کاذکر کرتے ہوئے تین چار ہستیوں کا نام لیتے ہیں جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اُن میں بُلی، حیدر آحمد، خلیفہ صوبیدار اور بلبل تاج شامل ہیں۔ محترم قاضی استاد جب بہت چھوٹے تھے تو اُسے سگریٹ پینے کا بڑا شوق تھا قسمت اچھی تھی ایک دفعہ راستے سے گزرتے ہوئے سگریٹ کا ایک ٹکڑا استاد کو مل گیا موقعے کو غنیمت جان کر کسی پڑوسی بڑھیا کے گھر میں جا کر سلگایا ہی تھا کہ سگریٹ کے نشے میں چور چور قاضی پر طویل عنودگی طاری ہو گئی یوں اُس وقت سے آج تک ایسی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا ۔نشہ کرنے والوں ، نشہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے والوں اور نشے کے کاروبار کرنے والوں سے قاضی اُستاد کی سخت نفرت ہے ۔آپ فرماتے ہیں ایک سگریٹ کے دانے کی قیمت اگر ایک روپیہ ہے تو ایک آدمی ایک دن میں اگر ایک سگریٹ پیتا ہے تو گویا وہ ایک سال میں تین سو ساٹھ روپے کا نقصان کرتا ہے ۔معاشی نقصات تو ایک طرف وہ شخص دھیرے دھیرے اپنے آپ کو اپنے خاندان کو اور اپنے آس پاس ولوں کو گویا آگ میں جھونک کر جلا رہا ہوتا ہے ۔آپ تمام نشوں کی شروعات سگریٹ کو سمجھتے ہیں اور اپنے علاقے کے نوجوانوں کے حوالے سے بڑے فکر مند ہیں فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے کے مقابلے میں آج کل سگریٹ پینے کی عادت نوجوانوں میں عام ہو گئی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اس عادت بد کو معیوب سمجھے کے بجائے شوق اور فخر سے کرتے ہیں ۔
آپ جدید مشینی دور کے خلاف نہیں ہیں لیکن جدید مشینوں کے غیر ضروری استعمال کے بہت سخت خلاف ہیں ۔اپ کہتے ہیں کہ گانا سننا اچھا عمل ہے شرط یہ ہے کہ موسیقی میں اخلاقی پستی نہ ہواور ساتھ یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کو اس سے نقصان نہ پہنچے ۔البتہ موبائیل فون کے استعمال کے حوالے سے صاحب موصوف رائے قابل غور ہے ۔ آپ کافرمانا ہے کہ ہمارے علاقے میں موبائی فون کے استعمال کے حوالے سے کوئی قانون وضع ہونا چاہئے جس کے تحت پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کو موبائل فون استعمال کرنے کی ممانعت ہو ۔ قاضی استاد کی گفتگو کی حلاوت کون چھوڑ سکتا تھا اگرمؤذن فلاح اور عبادت و بندگی کی طرف نہ بلالیتا ۔
it is a graeat effort that u have done i salute u to make us know about muhtaram Qazi ustad sahib…. otherwise he very well known person every one knows him…..
Sir! You are doing a great job by bringing up these real achievers to public. Every small sentence is full of great lessons and advises. May Allah Paak guide us to the best out of your great article about the icon of greatness…
captin mujeeb and Dinar Murad ! thank you very much for encouragement