گوشہ اردو
ابن الوقت لیڈر کی ضرورت
تحریر:محمد جان رحمت جان
mohdjan21@hotmail.com
وقت ایک قیمتی شے ہے جو قومیںوقت کی قدر کرتے ہیں وہ وقت پر اپنے منزل مقصود پر پہنچتی ہیں۔ دنیا کی سیاسی ، سماجی، معاشی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جن قوموں نے وقت پرنظریات، منصوبے تشکیل دیئے وہی انجام تک پہنچے۔ ماضی کے عالمی سیاق میں بادشاہتوں، ریاستوں اور ممالک میں ترقی اور زوال کا اہم ترین سبب وقت ہی تھا۔ جن لوگوں نے وقت پر کام کیا، منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا وہی کامیابی سے ہمکنار ہو ئے باالفاظ دیگر وقت ضائع کرنے والے لوگ پچھتاوے کا مرثیہ گاتے رہے؛
وہ وقت بھی دیکھا تاریخ کی گھڑیوں میں
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
جب ہم وقت کی بات کرتے ہیں تو وقت بذات خود کو ئی شے نہیں ہے یہ دنیا پہلے سے تھی اب ہے اور رہے گی لیکن وقت کا موثر استعمال لوگ کرتے ہیں ، لوگوں میں بھی سب نہیں بلکہ ان کے رہنما ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ابن الوقت ہوتے ہے۔ جس قوم کے رہنما ابن الوقت نہیں ہوتے وہ قوم زندوں کی طرح نہیں بلکہ وقت گزارنے کے لئے زندہ رہتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہتیں ، ریا ستیں اور ممالک اس لئے زوال پذیر ہوئے کہ انہیں ابن الوقت لیڈر نہ ملا۔ روایتی قبیلوں اور خاندانوں کی وراثتی لیڈرز میسر آنے کی وجہ سے ان لوگوں میں وہ خاصیتیں نہ تھی جو ان کے آباﺅاجداد میں تھی۔ مثال کے طور پر برصغیر میں مغلیہ حکمرانوں کی باقیات ان کے وارث۔ اس طرح چنگیز خان ہو یا اسکندراعظم، ہٹلر ہو یااور کوئی لیڈر وہ اپنے زمانے میں اپنی خاص صلاحیتوں کی وجہ سے لیڈر تھے۔ وہ ابن الوقت لیڈر تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے دور کے مشکلات کا سامنا آسانی سے کرسکے۔وہ اپنے زمانے کے سیاق وسباق سے واقف تھے۔مگر ان کے بچے یا وارث ان کے نسبت لیڈر کم اور بادشاہ زیادہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زوال پذیر ممالک کے لوگ اس لئے زوال کا شکار ہو گئے کہ ان کو ایسے لیڈر ملے جنہوں نے محض اپنے القابات اور ناموں سے مسند سنبھال لیا ۔ اگرچہ ان میں وہ خاصیتیں نہ تھی جو ان کے آباﺅ اجداد میں تھی وہ کردار یہ گفتارکے غازی ہیں۔ وہ اپنی محنت کوشش اور جہد مسلسل سے لیڈر بنے تھے اور یہ ریڑی میڈ لیڈر ہیں جو صرف صرف مزے اڑانے اور کھوٹیاں تعمیر کرتے ہیں۔ وہ نظریات اور منصوبے کے تحت کام کرتے تھے اور یہ لوگ بغیر وژن اور منصوبے کے عمل پیرا ہیں۔
ذات پات اور رنگ نسل کے لیڈر انقلابی نہیں ہوا کرتے انقلابی لیڈر اپنے نظریے اور منصوبے سے منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ رنگ نسل کی بنیاد پر لیڈر شب معاشرتی تعمیر کے لئے بہتر نہیں۔ غریب ملکوں اور تیسری دنیا کے معاشرے اس لئے خود کو نہیں سنبھال سکے کہ ان کے پاس لیڈر شب کی کمی ہے۔” پدرم سلطان بود“ کا نعرہ ہر صورت لیڈر شب کا باعث نہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹا باپ سے بھی آچھا ہو تا ہے لیکن یہ ہزاروں میں چند کی بات ہے۔ پاکستان میں قبائل، وڑیرے، چودھری، راجے، اور وراثتی سیاست کی وجہ سے اس ملک کو ابن الوقت لیڈر میسر نہیں۔نام نہاد لیڈرز کی وجہ سے پاکستان اس رفتار سے ترقی کی راہ میں گامزن نہیں جس رفتار سے اس کے ہمسایہ ممالک ہیں۔ ابن لوقت لیڈر کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے قوم ملک اور علاقے کی تعمیر وترقی میں اپنے اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کی زندگی آسان بنانے کے لئے انکی ضرورت کا کام کرتے ہیں۔ ان کے لئے سکول، ہسپتال،سڑک اور بنیادی ضروریات کی وہ تمام چیزیں کرتے ہیں جن کی ایک معاشرے کو ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہاں کی لیڈر شب بھی اپنے اغراض ومقاصد سے بھرپورہے۔ اکثر لیڈر شب پر وہ لوگ فائز ہیں جن کے آباﺅاجداد بھی اس مسند پر جلوہ افروز تھے۔ انہی کے گھروں سے لیڈر شب برآمد ہوتے ہیں جو کم وبیش ریڑی میڈ ہوتے ہیں اس لئے ان کو لیڈر شب پراسس(Process)کا بھی علم نہیں۔ ان کے والدین کو ایسا لیڈر بننے میں کئی صدیاں بھید گئی لیکن وہ راتوں رات اس مسند پر آئے ۔ وہ لیڈر خود اپنی محنت اور کوشش سے بنے تھے اور ان کو لیڈر بنایا گیا ہے۔ وہ اپنی مسند اور پوزیشن کی قدر کرتے تھے اور اپنے رعایا کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا جینا مرنا قوم کے لئے تھا مگران کا جینا مرنا اپنی حد تک محدود ہے۔ وہ اپنی رعایا کی طرح جیتے تھے۔
بحثییت مسلمان جب ہم انحضور کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں لیڈر شب کا اعلیٰ نمونہ نظر آتے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی اپنے قوم کی فلاح وبہبود کے لئے ہی وقف کی تھی آپ نے نہ صرف دینی اور روحانی راہنمائی کی بلکہ ہر معاملہ زندگی میں اپنی قوم کی راہنمائی کی۔ وہ اپنے رعایا کی طرح جیتے تھے۔ ان کا کھانا، پینا، رہن سہن، گھر، مکان، جائیداد اور دیگر ضروریات زندگی ان کی رعایا سے مختلف نہیں بلکہ ان جیسی تھی۔ جو چیز ان میں مختلف تھی وہ ان کی اخلاق، تمیز، کردار، سچائی، امانتداری، سخاوت، حلیمی، برداشت، صبر، بہترین رویہ اور دور اندیشی جیسی صفات تھیں۔ اس لئے قرآن میں ارشاد ہوتاہے کہ ” اور ہم نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایاتاکہ وہ ان کو انکی زبان میں کتاب وحکمت کی تعلیم دے ان کو پاک کردے۔۔۔ان کے فیصلے کریں اور ان کی کامیابی وکامرانی کا سبب بنے۔۔۔ان کو سیدھی راہ کی ہدایت دے ۔۔۔جس سے ان کی دنیا اور قیامت سنور جائے“۔ آپ نے عین اسی طرح اپنے قوم کی راہنمائی کی۔ آج ہم اپنے پیارے محبوب رسول کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اعمال ایسی کرتے ہیں کہ ان کا اس دین اور اس دین کی تعلیمات سے دور کابھی تعلق نہیں۔ آج جب ہم اپنے سیاق میں دیکھتے ہیں تو ہمارے لیڈر کی لباس ، ان کی رہن سہن ، ان کا گھر ، محل ، ان کی گاڑی ، ان کی کھانے پینے ، ان کے سکول ، ان کی ہسپتال ، ان کی جائیداد یں سب انکے ووٹر سے مختلف ہیں۔ دیکھنے میں وہ یورپ کے لگتے ہیں لیکن وہ ہیں اس علاقے کے جس کی سڑک، سکول، ہسپتال اور دیگر سہولیات کی حالت ایف۔ سی۔ار کے زمانے سے بہتر نہیں۔ یہ تمام سہولیات آخر کیوں؟؟ اور کہاں سے آئی؟ ہم ہمدردی کیساتھ اگر ایک لیڈر سے پوچھیں کہ جناب آخر یہ تمام جائیدادیں آپ نے کہاں سے پیدا کی ہے؟ آپ کی تنخواہ اور دیگر مراعات سے ہم واقف ہیں ۔۔۔ لیکن پھر راتوں رات یہ گاڑیاں یہ محلات اور ذیر زمین جائیدادیں کہاں سے آئی؟؟ یقیناََ ہمارے لیڈر ہمیں اس کا جواب نہ دے کیوں کہ وہ ہمارے لیڈر ہیں ہم میں سے نہیں وہ عوام کو جواب دہ بھی نہیں؟؟
شمع کی مانند ہم اس بذم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے
گلگت بلتستان کے بعض حلقوں کی لیڈر وںکی پارلیمانی عمر کم وبیش چالیس سال ہو چکی ہے پھر بھی صاحبان پنے تیئے نوجوان دکھتے ہیں اور مسند اقتدار سے اترنے کانام ہی نہیں لیتے۔ ان کی اس علاقے میں مہربانی کا سایہ طویل ہونے کی وجہ سے اکیسوی صدی کے پہلے عشرے کی زندگی بھی ایف ۔سی ۔ار سے کم نہیں۔ آپ انتہائی صبرمزاح اور اخلاق کے اعلیٰ پائے کے مالک ہو نے کی وجہ سے پچھلے چالیس سال میں کسی سرکاری آفس کا چکر نہیں لگایا جس کی وجہ سے ان کے حلقے کے عوام کی حالت صرف اُن کے دعاﺅں سے ہی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ کوئی اس طرح کی رائے کا اظہار کرے تو اس زمانے بھی ملازمت اور طرح طرح دھمکیوں سے ذد کوف کیا جاتاہے وغیرہ۔ میر ے ذہین میں یہ خیال آتا ہے آخر اس طرح کے لیڈر پیسہ، جائیداد ہونے کے باوجود لوگوں کا خادم ہو نے کو اعزاز کیوں سمجھتے ہیں؟ اپنی آمدن میں مزید اضافہ یا خدمت خلق میں اپنی جائیداد کا تصرف؟؟ اس معاشر ے میں دیکھتے ہیں کہ ہر چیز میں تبدیلی آتی ہے۔ کمپیوٹر کی مثال لیجیئے پنٹیعم ون سے اب پنٹیعم فور آگیا۔ موبائیل کی دنیا میں نہ جانے کیا کیا تبدیلیاں آگئی۔ ٹریفک اور رہن سہن کی دنیا میں تبدیلیاں بھی آتی رہتی ہیں لیکن لیڈر شب کی شکل اور سوچ میں تبدیلی نہ آئی اور نہ ہی اس حلقے کی عوام کی سوچ میں تندیلی آرہی ہے۔ گزارش یہ ہے کہ لیڈر کوئی بھی ہو مگر خدا کے لئے اپنی سوچ اور عمل میں تھوڑی سی تبدیلی کا مظاہرہ کرے تاکہ یہ لوگ بھی پختہ سرک، ار سی سی پلوں اور قریبی علاقوں میں سکول اور ہسپتال کا خواب دیکھ سکیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتی ہے چمن میں دیدہ ور پیدا