گوشہ اردو
گیس بالا پر قیامت صغریٰ، ذمہ دار کون؟
ہاں ! گراری نے ٹوٹنا تھا ٹوٹ گئی، لوگوں نے جاں جان آفریں کے سپر کرنا تھا سو انہوں نے کیا۔ گیس بالا پر کون سی افتاد ہے جو نہیں ٹوٹی۔ ۰۱۰۲ ءکے سیلاب نے کھربوں کی جائیداد کو بہا لے گیا اور رہی سہی کسر آسمانی بجلی نے پوری کردی۔گیس کا اکلوتا پل ۰۱۰۲ ءکے سیلاب میں بہہ گیا۔ متاثرین کے نام پر بیرونی امداد بے شمار آئی مگر ان تک پہنچنے سے پہلے ہڑپ کر لی گئی۔سیدزادہ ملتان نے آسمانی بجلی سے جام شہادت نوش کرنے والوں کے لواحقین سے جھوٹے وعدے کیے جو ابھی تک وفا نہ ہوسکے۔ گیس کا پل بہہ جانے کے بعد پل کے ساتھ ایک انتہائی ناقص گراری (چیئرلفٹ)بنائی گئی تھی۔
جولائی ۱۱۰۲ءکو جب میں اس گراری کے ذریعے دریا کراس کررہا تھا تب ہم صرف تین نفری تھے‘ دو ساتھی گراڑی کا رسہ کھینچ رہے تھے اور میںحالت اضطرار میں آنکھیں بند کر کے کلمہ طیبہ کا ورد کررہاتھا ‘ مجھے نہیں معلوم کہ کیسے پار کیا۔ تب میں نے واپسی پراس ناگفتہ بے حالت پر اخبار کے انہیں صفحات پر لکھا تھا۔ اور کئی نیوز بھی اس حوالے سے اخبارات کی زینت بنی تھی۔۹۰۰۲ ءسے اپریل ۲۱۰۲ءتک میرے گوہرآباد کے دونوں پلوں کے حوالے سے چار کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوئے ہوئے اور کئی نیوز سٹوریز بھی۔دیامر ڈیم کے افتتاحی پروگرام کے حوالے سے چلاس میں جب ارباب اقتدار جھوٹے وعدوں سے عوام کو گمراہ کررہے تھے تو ٹھیک اسی وقت ریڈیو پاکستان سے پروڈیوسر ڈاکٹر شیردل کے ساتھ دیامر ڈیم اور اہل دیامرکے مسائل کے حوالے سے میراایک تفصیلی لائیو انٹرویو نشر ہورہا تھا جس میں ڈیم کے افتتاحی پروگرام کو بھی کوریج دی جارہی تھی۔ ناچیز نے دیامر کے بڑے بڑے مسائل کے علاوہ گوہرآباد کے دونوں ”پلوں“ کا تذکرہ باربار کیا تھا اور اپنے گوہرآبادکے منتخب ممبر جناب بشیراحمد صاحب سے فریاد کی تھی کہ جناب والا آپ کیوں لوگوں کی موت کا انتظار کررہے ہیں۔
قارئین میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے ان دریا برد بھائیوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کروں۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر ۰۱۰۲ءکو آسمانی بجلی گری اور آج ہمار ے وزیرتعمیرات صاحب‘ ایکسیئن صاحب ‘ اسسٹنٹ انجینئر‘ سب انجینئر ‘ ٹھکیداران اور محکمہ کے دوسرے افراد کی ملی بھگت کے نتیجے میں آٹھ قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سانحہ کے جتنے ذمہ دار محکمہ کے لوگ ہیں اس سے زیادہ ذمہ دار وزیراعلی گلگت بلتستان اور جناب وزیرتعمیرات صاحب ہیں۔اپنے ایک گزشتہ کالم میں ان دونوں صاحبان کی توجہ اس نازک صورت حال کی طرف دلایا تھا۔ اس کا لم کا صرف آدھا پیراگراف ملاحظہ ہو، ”کیا وزیر محترم گوہرآباد کے مسائل سے اتنا انجان ہیں کہ انہیں سب ٹھیک ہے، لگتا ہے یا وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں؟کیا گوہرآباد کے تباہ شدہ پل(کسی بھی وقت کوئی جان لیوا حادثہ پیش آ سکتا ہے)، سکولوںکی بربادی، واحد ڈسپنسری کی زبوں حالی،واٹر چینل کی شکستگی، اور روڈ کی تباہی جیسے بڑے بڑے مسائل جو منہ کھولے ہوئے ہیں، ان کی نظر کرم سے عنقاءہیں۔اصل صورت کیا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر ناچیز اس تحریر کے توسط سے وزیر تعمیرات جناب بشیر احمد صاحب سے صرف اتنی گرازش کرتاہے کہ خدارا! گوہرآباد کی حالت زار پر رحم کریں۔ کم سے کم تباہ شدہ دونوں پلوں کی تعمیرکا بندوبست کرکے انسانی جانوں کے ضیاع سے بچائے“ (فروری۲۱۰۲‘روزنامہ صدائے گلگت و ہمالیہ)۔ قارئین جن حادثات کا ذکر گزشتہ کئی سالوں سے میں کررہاہوں ان کی شروعات ہیں، ابھی تو بڑا حادثہ ”گوہرآباپل“ میں ہونا ہے۔ یاد رہے کہ کسی بھی وقت گوہرآبا د کا پل مسافر گاڑی سمیت ٹوٹ کر دریابُرد ہوسکتاہے۔ اس پل سے روزانہ مسافروں سے بھری ۰۴ سے زائد بار گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہر آنے جانے والی گاڑی سے پسنجر اور لوڈ اتاراجاتا ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے مسافروں سے بھری ایک وین بال بال بچ گئی ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ان پرتوجہ دیا جائے۔
دریائے سندھ کابہاو اتنا تیز ہے کہ تادم تحریر کوئی لاش نہیں ملی ہے۔ہمارے وزیرباتدبیر نے تمام ذمہ داری ایکسیئن اور ٹھیکداروں پر ڈال کر اپنے آپ کو بچانے کوشش کی ہے۔ یاد رہے کہ آپ اس علاقے کے منتخب نمائندہ بھی ہیں اور وزیر تعمیر بھی، آپ پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔یہاں تو آپ بچ نکلو گے مگر خداکی عدالت میں آپ کے پاس کیا جواب ہوگا؟۔ آج گیس بالا میں ہر آنکھ پر نم ہے۔ان پرقیامت پر قیامت ٹوٹ رہی ہے۔گلگت بلتستان کے تمام اخبارات میں اس سانحہ کی خبریںتفصیل سے لگی ہیں،سپرلیڈ ہی ہیں۔تمام ٹی وی چینلز اور ملکی اخبارات نے بہترین کوریج دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہلیان گیس پر بار بار آزمائش کر کے انہیں دو باتوں کاپیغام دیا ہے ‘ ایک یہ کہ گوہرآباد کے لوگ بالعموم اور گیس بالا کے لوگ بالخصوص اجتماعی توبہ و استغفار کریں ۔ اللہ سے اپنے گناہوں کو معاف کروائیں اور اپنے ان اعمال سے باز آجائے جو اللہ تعالیٰ کو ہر گز پسند نہیں ، بالخصوص ڈیم سے متاثر ہونے والی بنجر زمینوں ‘ اجتماعی شاملاتی اراضی میں حد سے زیادہ کرپشن اور خرد برد‘ غریبوں کی حق تلفی اور آپس کی ناچاکیاں اور حلال حرام کی تمیز کیے بغیر مال ودولت کا ارتکاز۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ چور ‘ لیٹرے اور ڈاکو قسم کے سیاسی لیڈروں اور سرکاری آفیسروں سے اپنا جائز حق مانگنا نہیں بلکہ چھیننا۔
اب بھی اگر اپنے حق کے لیے ان چوروں کا گریبان نہیں پکڑو گے‘ ان کا دامن تار تار نہیں کروگے تو پھر یہ لٹیرے قسم کے لوگ آپ کے منہ سے لقمہ بھی چھین لیں گے۔یاد رہے جو لوگ اپنے لیے نہیں جیتتے ہیں اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں پر ترس نہیں آتاہے۔میری گوہرآباد کے لوگوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ آپس کی ناچاکیا ں ختم کرکے ان لٹیروں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاو، پھر آپ کے دونوں پل بھی بروقت ٹھیک ہوسکتے ہیں‘ آپ کاروڈ‘ واٹر چینل اور سکول و ہسپتال کے گھمبیر مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کی حالت یہی رہی تو یاد رہے یہ لوگ عنقریب آپ پر زندگی کی تمام سہولیات حرام کردیں گے۔ گوہرآباد والو ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان چوروں نے آپ کے ملکیتی جنگلات میں روڑے اٹکا کرآپ کو اب تک کتنا نقصان پہنچایاہے؟ میں بتاتا ہوں ‘ 1985 سے اب تک چھ(۶) کھرب روپیوں کو نقصان ہوا ہے۔ کیا ہے کوئی عبرت پکڑنے والا؟ فاعتبرو یا اولی الابصار۔بہر صورت میں تمام مرحومین کے پسماندگا ن سے دلی تعزیت کرتا ہوں اور اللہ سے دعاگو ہوں کہ اللہ ان کی اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ اور آپ کو صبر جمیل عطا کریں۔بے شک اللہ رب العزت بڑے رحیم وکریم ہے‘ اپنے بندوں پر خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔اللہ سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اس سانحہ کی اعلی سطحی بنیادوں پر شفاف انکوائری ہونی چاہیے ‘ جو بھی ملوث ہوگا اس کو کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔
No words to describe the grief and feel really sorry for the victims — who will punish the people responsible for this criminal negligence??