گوشہ اردو

بارہ روپے کی کرپشن

۔صفدر علی صفدر

یہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے پہلے کاایک دلچسپ اور انوکھا واقعہ ہے۔ جب گلگت بلتستان میں ڈوگرہ راج قائم تھی۔ اُس زمانے میں علاقے کی آبادی بھی کم تھی ،شرح خواندگی بھی نہ ہونے کے برابر تھی ،علاقائی ومسلکی بنیادوں پرتعصبات کاتصورہی نہیں تھا اور لوگ میڈیا کے نام تک نہیں جانتے تھے ۔ اُس دوران ایک دن محکمہ مال میں دانستہ یانادانستہ طورپر بارہ روپے کی کرپشن کاانکشاف ہوا۔ جب یہ بات ڈوگرہ حکمرانوں تک پہنچی توانہوں نے اس کاسخت نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے لاہور سے ایک خصوصی ٹیم منگوائی ۔ ٹیم لاہور سے گلگت پہنچ کر نہ صرف محکمہ مال میںہونے والی اس کرپشن میں ملوث افرادکوبے نقاب کیا بلکہ کرپشن کی نذرہونے والی بارہ روپے کی رقم بھی ریکورکرکے قومی خزانے میں جمع کرادی گئی۔

اس کے باوجود ہمارے اسلاف نے ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کرکے علاقے میں اپنی حکومت قائم کردی جوابتداہی سے کرپشن،لاقانونیت اوربدعنوانیوں کاشکار ہوتی رہی اور ٹھیک 16دن بعدعلاقے کا نظم ونسق دوبارہ بیرونی ہاتھوں میں چلاگیا۔ جس کے نتیجے میں علاقہ گزشتہ 65سالوں سے بنیادی انسانی وآئینی حقوق سے محروم رہنے کے ساتھ ساتھ علاقے میںکرپشن ،لوٹ مار،اقرباپروری ،رشوت ستانی اورلاقانونیت کاماحول بھی تیزی سے پروان چڑھتا گیا اور بارہ روپے کی کرپشن 48ارب تک جاپہنچی ہے جبکہ لوٹ مار،اقرباپروری،رشوت ستانی اور لاقانونیت کابازاربھی گرم ہوتا جارہا ہے۔

دو ہفتے قبل قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی طرف سے گلگت بلتستان میں گزشتہ دس سال کے دوران ہونے والی کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق 2001سے 2009تک گلگت بلتستان میں 32ارب جبکہ 2010اور2011کے دوران موجودہ حکومت کے ابتدائی دوسالوں کے دوران 16ارب روپے کی کرپشن کاانکشاف کیاگیا ہے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی طرف سے ان انکشافات کے سامنے آنے پر گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین سیدرضی الدین رضوی نے سابقہ ادوار میں گلگت بلتستان میں مبینہ طورپر ہونے والی کرپشن کے مرتکب افرادکے خلاف سخت کارروائی عمل میں لاکرقومی خزانے سے لوٹی جانے والی رقم کی پائی پائی کاحساب لینے کاتواعادہ کرلیا ہے لیکن دوسری طرف حکمران اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے اس سلسلے میں متفقہ ردعمل سامنے آیا ہے ۔جس میں دونوں کاموقف یہ ہے کہ گلگت بلتستان کواب تک 48ارب روپے ہی نہیں ملے ہیں تو 48ارب کی کرپشن کیسے ہوئی ہے؟لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کوان دس سالوں میں مجموعی طورپر 48ارب روپے نہیں ملے ہوں تو سالانہ ترقیاتی بجٹ کے ذریعے ان دس سالوں میں گلگت بلتستان کو مجموعی طورپر ملنے والے ایک کھرب سے زائدکی رقم آخرکہاں خرچ ہوئی؟کیایہ خطیررقم آسمان کھاگیایازمین نگل گئی ؟افسوس کی بات ہے کہ جہاں مفادات اور نام کمانے کی بات آجاتی ہے تووہاں ہمارے حکمران کھربوں روپے کی ترقیاتی سکیموں کی فہرست بناتے ہیں اورعلاقے میں سابقہ ادوار میں ہونے والا کام بھی اپنے کریڈٹ میں لیتے ہیں جب کرپشن کے حوالے سے خبریں گردش کررہی ہوتی ہیں توسبھی پاک دامنی کادعویٰ کرکے قسمیں کھانے پراترآتے ہیں

۔یہ بات میں اپنے پہلے کالموں میں بھی ذکرکرچکا ہوں کہ سابقہ دورحکومت میں پھیلائی جانے والی گندکاصفایا کرنا اوراس دورکے تمام معاملات کا احتساب آنے والی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے مگرہمارے حکمرانوں کواقتدار سنبھالنے کے بعدیہ خیال نہ آیا اورخود بھی سابقہ نظام پرعمل پیراہوئے جس کی وجہ سے ابتدائی تین سال کے دوران ہی صوبائی حکومت ہرطرف سے مسائل کے گرداب میں پھنس گئی۔ صوبائی حکومت کے سربراہ اور اس کی کابینہ اقتدارکے نشے میں مست ہوکر عیاشیوں میں لگے رہے جبکہ عوام ہرلحاظ سے استحصال کاشکار ہوتے جارہے ہیں ۔حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں کاجمود کاشکار ہونا ،سرکاری محکموں میں لوٹ کھسوٹ،اقرباءپروری اور رشوت ستانی عروج کوپہنچ چکی ہے اور صوبائی حکومت ہرطرف سے تنقیدکانشانہ بنتی جارہی ہے ۔آج صوبائی وزراءخودعلاقے کودرپیش سنگین مالی مشکلات کااعتراف کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے 7ارب کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان راجہ پرویزاشرف کی طرف سے گلگت بلتستان کیلئے اعلان کردہ دو ارب روپے کی گرانٹ کے اجراءمیں غیرمعمولی تاخیر ہونے کی صورت میں نئے سال کے آغاز سے ریگولربجٹ سے تنخواہیں وصول کرنے والے ہزاروں سرکاری ملازمین کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑجانے کے امکانات ہیں۔

لہٰذا حکمرانوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ جس طرح ڈوگرہ راج نے گلگت بلتستان میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات کرائی اس طرح یہ بھی اُسے اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہوئے فوری طورپرعلاقے میں گزشتہ دس سال کے دوران ہونے والی 48ارب کی کرپشن کی تحقیقات کاعمل شروع کریں اور اس سلسلے میں کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے کیونکہ صوبائی حکومت قومی خزانے سے لٹائی جانے والی اس خطیررقم کاایک چوتھائی حصہ بھی ریکورکرنے میں کامیاب ہوتی ہے تواس سے کسی حدتک علاقائی سطح پر پیداہونے والی مالیاتی بحران پرقابوپایاجاسکتا ہے۔ بصورت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی اس کرپشن کے احتساب کیلئے کمرکس رہے ہیں کئی ایسانہ ہوکہ وہ حکومت کاتختہ ہی الٹ دیں۔

Related Articles

2 Comments

  1. For self analysis and be concious in future list should be display regardless of party, cast ,colour and ethnic. We expect with Public account committee to handle this issue fairly and transparently in order to avoid such irregularities and corruption in future and save to GB from corrupt individuals.

Check Also
Close
Back to top button