علی گل جی(علی احمد جان)
(آغاخان سوئم سر سلطان محمد شاہ نے بر صغیر کے مسلمانوں کی گراں قدر خدمات انجام دی اوران کا شمار تحریک پاکستان کے قائدین میں ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے نئی نسل کی زیادہ تعداد اس ہستی کے نام تک سے اشنا نہیں ہے۔
نئی نسل اس ہستی کے نام سے واقف ہوگی بھی کیسے؟ کیونکہ course and curriculum کی کسی کتاب میں ان کا نام نظر نہیں آتا۔
ہماری ناکا می کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ نئی نسل کو سکولوں،کالجوں حتی کہ یونیورسٹی سطح پر بھی مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ سر سلطان محمد شا ہ کی تاریخ ولادت ۲نومبر کو خاموشی سے گزر گئی۔
درجہ بالا مضمون کا انتخاب سہ ماہی فکرو نظر(۶۸۹۱) سے کیا ہے جسے پروفیسر نسیم انصاری نے تحریر کیا تھا۔)
_____________________________________________________________________
اورنگ زیب کے بعدہندوستان میں مغلیہ حکومت کو ختم ہونے میں ڈیڑھ سو برسوں میں حالات کچھ اسے رہے کہ ہندوستان والے اس سلطنت کے بدلے دوسری سلطنت نہ بنا سکے اور اقتدار مکمل طور سے انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ لیکن انگریز اِس ملک میں اجنبی رہے۔ ۷۵۸۱ئ کی بغاوت کے بعد خود انگریز اور اُن کے ماتحت بہت سے ہندوستانی بھی آہستہ آہستہ یہ سمجھنے لگے کہ اجنبیوں کی حکومت اتنے بڑے ملک پر ہمیشہ نہیں رہ سکتی اس کا احساس سب سے پہلے بنگال، بمبئی اور مدراس کے انگرےزی پڑھے ہوئے لوگوں کو ہوااور اِس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ سوچنا شروع کےا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندوستان میں کیا ہو گا؟ اُن کے سامنے لندن کی حکومت کا نقشہ موجود تھا۔ انہیں خیال ہوا کہ اگر اِسی طرح کی حکومت ہمارے یہاں بھی بن جائے تو کیا اچھا ہو۔انگریزوں کے بادشاہ کی جیسی حیثیت ولایت میں ہے ویسی ہی ہندوستان میں بھی رہے لیکن ملک کا بندوبست ہندوستانی پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہو۔ اِس خیال کا آنا تھا کہ دِلوں میں جیسے شمعیں جلنے لگیں، سارے ملک میں بس یہی چرچے شروع ہوگیے.
۔مسلمان ڈیڑھ سو برس سے اپنا زوال دیکھ رہے تھے اور اب ہار کر بالکل بے بس ہو گے تھے۔. حالت یہ تھی کہ انگریز اُن پر شک کرتے تھے اور اُن کے ہندو ساتھیوں میں جو بیدار ہو چکے تھے وہ ویسٹ منسٹر جیسی حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔سرسیّد اور اُن کے ساتھیوں نے اپنے ہم مذہب لوگوں کو جھنجھوڑا کہ دیکھو دنیا بدل رہی ہے، شکست کا رونا کب تک روو گے۔ اب آنے والے زمانے کا فکر کرو۔سب نے آنکھیں ملنا شروع کیں اور کچھ سرسیّدکی آواز پر لپکے بھی،آہستہ آہستہ ایک قافلہ بنتا گیا جس میں حالی،شبلی،محسن الملک علی گڑھ تحریک کے ذریعہ شامل ہوئے، دوسری طرف بمبئی سے بدرالدین طیب جی اور بنگال سے جسٹس سرسیّدامیر علی نے بھی بات کو سمجھنے کی کوشش کی، زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ تھی کہ مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ انگریز ابھی ہندوستان میںرہیں کیونکہ وہ اگر ابھی چلے گئے تو ہندوستان کے تھکے ہارے،لُٹےہوئے غافل مسلمانوںکا کیا ہو گا جنھیں نہ تو انگیریزی زبان آتی ہے اور نہ وہ ویسٹ منسٹر کے طور طریق سے واقف ہیں اور نہ ہی اس لائق ہیں کہ جلدی سے اپنے برادرانِ وطن کے برابر لیاقت پیدا کر کے اس جدوجہد میں حصہ لے سکیں جو جمہوری نظام کے لئے ضروری ہے اگر جمہوریت کے لئے دوڑ شروع ہوئی تو یہ زخم خوردہ اِس میں بھی شامل نہ ہو سکیں گے۔سب چاہتے تھے کہ زخم بھر جائیں بدن میں کچھ طاقت آجائے تب ہی مقابلہ میں شرکت کا خیال کیا جائے اس لیئے یہی طے ہوا کہ ابھی میدان میں نہ اتریں۔ لیکن زمانہ اُن کا انتظار کیوں کرتا۔ کھیل شروع ہو گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھنا شروع کر دئے۔
سر سیّد کا زمانہ ختم ہوا تھا لیکن اُن کی آنکھیں بند ہونے سے پہلے ایران کا ایک شہزادہ علی گڑھ آیا جس ے گھر والوں نے اپنا وطن چھوڑ کر ہندوستان میں رہنا شروع کر دیا تھا اور اس کی پیدائش اسی ملک کے ایک شہر کراچی میں ۲نومبر۷۷۸۱ءمیں ہوئی تھی۔ نام سلطان محمد شاہ رکھا گیا تھا۔ جب ان کے والد آغا علی شاہ آغا خان ثانی کا ۵۸۸۱ء میں انتقال ہو گیا تو ایشا، افریقہ اور یورپ کے اسماعیلیوں نے اس آٹھ برس کے خوبصورت شاہزادہ کو آغا خان کا لقب دیکر اپنا امیر بنالیا۔آغا خان ۶١۹۸۱ میں علی گڑھ آئے اُس وقت وہ اُنیس برس کے تھے۔ سر سیّد نے اسٹریچی ہال میں ان کا شاہانہ استقبال کیا اور ایک ایڈریس کیا جس میں کہا گیا تھا کہ انگریزی تسلط کے بعد جب مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہوئی تو؛
”گروہے از مسلمانان را رگ حمیّت بجنبد دل بہ درد
آمد و خواستند کہ مدرسئہ عظمیٰ برپا کنند“
شہزادہ نے مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
”بسیار از ملاقاتِ شما و دیدنِ ایں مدرسہ مشہور
خوش وقت و خوش حال گشتم فی الحقیقت ایں مدرسہ
از مدارسِ بسیار معروفِ ہندوستان است وبرائے
طلابِمسلمانان ازیں بہتر درہندوستان دارالعلمی نیست
بلکہ درسائر ملکہائے ملل کہ من دیدہ ام مدرسہ شد
ایں دیدہ نہ شد“۔
اس ملاقات کے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں آغاخان کا تعلق علی گڑھ تحریک سے بڑھتا ہی رہا۔ سر سیّد کے انتقال کے بعد نواب محسن الملک نے قافلہ کی رہنمائی کی۔ انڈین نیشنل کانگریس اگرچہ انگریزوں کے ایما سے بنی تھی لیکن جب اس نے انگلستان کے حزب مخالف کا ایسا رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حکومت نے سوچا کہ انھیںقابو میں رکھنے کے لئے مسلمانوں کو اپنی ایک پارٹی بنانے پر آمادہ کیا جائے۔تاکہ بات حد سے نہ گزر نے پائے۔ یہ تحریک مسلمانوں کے مفاد میں بھی تھی کہ انھیں چلنے کے لئے بھی بیساکھیوں کی ضرورت تھی۔علی گڑھ کالج کے پرنسپل آرجی بالڑنے شملہ میں وائسرائے کے پاس ایک ڈیپوٹیشن کا انتظام کر کے وہ بیساکھی مہیا کر دی۔یہ دیپوٹیشن ۶۰۹۱ئمیں نوجوان آغاخان کی سربراہی میں وائسرائے سے ملا اور اس نے ایک عرضداشت پیش کی۔اس میں کہا گیا تھا کہ اگر ہندوستان کو جمہوریت کی طرف بڑھنا ہے تو اس جمہوریت کی وہ صورت نہیں ہو سکتی جو انگلستان میں ہے جہاں کے رہے والے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں اور جن کی تاریخ ، زبان، مذہب اور دوسری سب روایات مشترک ہیں۔ ہندوستان میں یہ صورت نہیں ہے اس لئے یہاں کی جمہوریت کا انداز بھی مختلف ہونا چاہیے اور ایسا انتظام ہو کہ جس میں مسلمان جو آج پس ماندہ ہیں ہمیشہ پس ماندہ نہ رہیں۔ عرض داشت میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ۔
(۱)حکومت کے اداروں میں انتخاب کی صورت میں مسلمان اپنے نمائندے خود منتخب کریں
(۲) ان اداروں میں مسلمانوں کی تعداد ملک میں ان کے مرتبہ کا لحاظ رکھکر مقرر کی جائے نہ کہ محض ان کی آبادی کے تناسب سے۔
(۳) مسلمانوں کو حکومت کی ملازمتیں بغیر کسی روک ٹوک کے دی جائیں۔
(۴) یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ اور سینٹ میں مسلمانوں کو بھی رکھا جائے۔
(۵) مسلم یونیورسٹیوں کے قیام میں مدد دی جائے۔
یہ ڈیپوٹیشن ہندوستان کی تحریک آزادی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ہندوستانی جمہوریت کا انداز یوروپین وضع کا نہ ہو گا بلکہ اس کی وضع خالص ہندوستانی ہو گی۔ کانگریس والوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور یہیں سے اختلافات کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کا خاتمہ ہندوستان کی تقسیم پر ہوا۔
ہندوستانی جمہوریت کے متعلق آغا خان کا ذہن بالکل صاف تھا۔ وہ جداگانہ انتخابات کے علمبردار تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے بیشتر مسائل تو ایسے ہیں جن میں ہندو اور مسلمانوں کا مفاد مشترک ہے، کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا خاص تعلق مسلمانوں سے ہے۔یہ دونوں طرح کے مسائل صرف ہندو اور مسلمان آپس میں مل کر ہی حل کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مسلم لیگ کے تیسرے اجلاس میں جو ۰۱۹۱ئ میںنواب صاحب ارکاٹ کی صدارت میں دہلی میں ہوا آغاخان نے ارئے دی۔
”ہمارے نمائندے جو کونسلوں میں ہیں وہ سب سے پہلے وفادار ہندوستانی ہیں اس کے بعد وہ مسلمانوں کے حقوق کے خاص محافظ ہیں۔انھیں ان کونسلوں میں تین طرح کے کام کرنے ہیں، اوّل ملک کے عام فائدے کے کام مثلاً تعلیم کا انتظام جس میں لازمی بِلا فیس کے پرائمری تعلیم بھی شامل ہے۔ تجارت وزراعت کی ترقی جس میں کوآپرٹیو سوسائٹیوں اور تقسیم کرنے والی انجمنوںکا قیام بھی شامل ہے اور ملک کے قدرتی وسائل کا استعمال یہ کام ایسے ہیں جو ہیں جو ہندو اور مسلمان نمائندوں کو ہندو اور دوسرے فرقوں کے ساتھ مل کر وہ تمام فوائد حاصل کرنا چاہیں جو ان کی اجتماعی بہبودی کے کام میں مدد دیں۔
تیسرے ہمارے نمائندوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کی تمدنی بہتری کی تجاویز بھی ہندو ممبران کی مدد سے منظور کرانا اور ان کے خاص مسائل کی بھی فکر کرنا چاہیے کیوں کہ ہمارے خاص ضرورتیں ایسی بھی ہیں جن سے وہ نا واقف ہیں اور جنھیںہم ہی سمجھتے ہیں“۔
آغاخان کی ساتھیوں نے اُن کی اس پالیسی سے اتفاق کیا اور اُسی بنیاد پر انھیں آئندہ دو برسوں کے لئے مسلم لیگ کا صدر منتخب کر دیا۔اس کے بعد سے ہندوستانی سیاست آہستہ آہستہ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی جس کی خصوصیت یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان دونوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ انگریزوں سے آزادی ہی میں دونوں کی بھلائی ہے۔اب تحریک آزادی نے عوامی جدوجہد کا رخ اختیار کر لیا اور بین الاقوامی حالات ایسے تھے کہ مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ انگریز ساری دنیا کے مسلمانوں کو محکوم بنانا چاہتے ہیں۔چنانچہ خلافت تحریک شروع ہوئی اور کانگریس نے اس کی موافقت کی اور سارے ہندوستان میں جیسے آگ لگ کئی تھی لیکن جب ترکوں نے خود اس ادارے کو ختم کر دیا تو تحریک بھی بے جان ہو گئی۔
خلافت تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں میں ایسا جوش پیدا ہوا کہ ان کے ہم وطن خا ئف ہو گئے۔ ایک طرف تو خود مسلمانوں کے ذہن میں نئے ہندوستان کا کوئی نقشہ نہیں تھا اور دوسری طرف یہاں کے ہندﺅسں ہیں قدرتی طور پر یہ خدشہ پیدا ہوس کہ کہیں یہ لوگ دوبارہ تو مغل یا پٹھان طرز کی حکومت ہندوستان پر نہیں تھوپنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپس کے اختلافات بڑھنے لگے اور ان کا سب سے افسوس ناک اظہارہندو مسلم فساد کی شکل میں شرہع ہوا۔آغاخان کا رجحان اس قسم کی سیاست سے بالکل مختلف تھا، ان کا یقین تھا کہ ہندو اور مسلمان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ آپس ہیں میل ملاپ سے وہیں۔ اس کا اظہار انھوں نے کئی بار کیا۔ ۸۲۹۱ئ ۔ ۹۲۹۱ئمیں آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں گائے کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بابر کا قول دوہرایا کہ ہمیں نہ صرف ہندوﺅں کے مذہب کا لحاظ رکھنا چاہئے بلکہ ان کے رجحانات کا بھی احترام کرنا چاہئے۔ انھوں نے مسلمانوں کو رائے دی کہ اگر ہندﺅوں کا دل جیتنے کے لیے گائے کی قربانی بند کرنا پڑے تو اسے ضرور بند کیا جائے۔
وہ صحیح معنوں میں لبرل تھے اور اسی لیے ملک کے شرفاءمیں ان کی بڑی عزت تھی۔۰۳۹۱ئمیں جب راوئنڈٹیبل کانفرنس لندن میں ہوئی تو وہ برٹش انڈین ڈیلیگیشن کے لیڈر تھے۔ اس کانفرنس میں اُن کی کوشش یہ رہی کہ ہندوستان کے اقلیتی مسئلہ کو ہندو مسلم سوال کے بجائے ایک مخصوس سیاسی سوال سمجھا جائے۔چنانچہ ان کی تحریک پر ہندوستان کی سب اقلیتوں کے نمائندوں نے ایک مشترکہ تحریر ہندوستان کے دستور کے لیے پیش کی بد قسمتی سے یہ تجویز کانگریس کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ بہر حال ہزہائی نس کی ان کوششوں کاسب نے اعتراف کیا۔ کانفرنس کے بعد لندن میں ریاستی اور برٹش انڈیا کے نمائندوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں سرتیج بہادر سپرو اور سر اکبر حیدری وغیرہ شامل تھے۔اس جلسہ میں آغا خان کے طرز عمل کی بہت تعریف کی گئی۔ہندو مسلم مسئلہ حل کرنے میں آغاخان کی ناکامی در اصل ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی ناکامی تھی۔کانگریس کے لیڈر سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں صرف دو فریق ہیںایک کانگریس اور دوسرے انگریزی حکومت، غیر کانگریسی خصوصاً مسلم لیگ کے نمائندوں کو وہ انگریزوں کے خفیہ ایجینٹ سمجھتے تھے اسکا جوان آخر میں مسلم لیگ کی طرف سے یہ دیا جانے لگا کہ کانگریس ہندوﺅں کی جماعت ہے جسے مسلمانوں کے حقوق کے معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے اور مسلمانون کے صحیح نمائندے تو صرف مسلم لیگ والے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب دلوں میں اس طرح کی باتیں بیٹھ جائیں تو اتحاد ناممکن ہو جاتا ہے۔چنانچہ آپس کی اس لڑائی میں ملک کے ٹکڑے ہو گئے۔اگرچہ آغاخان اپنے اتحاد کے مشن میں ناکام رہے لیکن اپنی زندگی میں انھوں نے جس دوسرے کام کا بیڑا اٹھایا تھا اس میں وہ کامیاب ہو گئے۔ یہ کام تھا علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کا قیام۔
۸۹۸۱ئمیں سر سیّد کے انتقال لے بعد بواب محسن الملک آغاخان کے پان بمبئی گئے اور ان سے تمام ہمدردان محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی اُس تمنّا کا اظہار کیا کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے ہزہائی نس نے اس سے پورا اتفاق کیا اور اپنے پان سے ایک کثیر رقم پیش کی کہ اس کے سہارے ملک میںدورے کر کے یونیورسٹی کی ضرورت کا احساس لوگوں کو دلایا جائے اور اس کے علاوہ بھی ہر قسم کی مدد کا وعدہ کیا۔
چنانچہ نواب محسن الملک اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوںکے دِلوں میں یہ تمنّا جگا دی کہ ان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ میں ایک یونیورسٹی بنائی جائے۔اس کے لئے ۲۰۹۱ئمیں جب ایدورتھ ہفتم کی تاج پوشی پر دلّی میں دربار کا انتظام ہو رہا تھا تو نواب محسن الملک اور ان کے ساتھیوں نے اس موقع پر ایک تعلیمی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا اور سر آغا خان کو اس کی صدارت کے لیے آمادہ کیا۔
یہ جلسہ دہلی میں بڑی شان سے ہوا۔ ڈپٹی نذیر احمد جب صدارت کی تحریک پیش کرنے کھڑے ہوئے توجواں سال آغاخان کی طرف دیکھکر پہلے تو یہ کہا۔
آفاقہا گردیدہ ام، مہر بتان ورزیدہ ام
بسیار خوباںدیدہ ام، امّا تو چیزے دیگری
اس کے بعد اُن سے صدارت کی درخواست کی۔ جناب امین زبیری صاحب(جو اس جلسہ میں شریک تھے اور جن کی کتاب ”پرنس آغاخان“پر اس مضمون کی بنیاد ہے) کا بیان ہے کہ مجمع پر ایک کیفیت سی طاری ہو گئی تھی۔ نو عمر آغاخان نے اپنی تقریرمیں کہا؛
”جو گریہ و زاری ہم قوم کی تباہی پر کرتے ہیں اگر وہ صدقِ دل سے ہے تو ہم کو چاہیے کہ سن کو اس حالت سے نکالنے کے واسطے متفق ہو کے کوشش کریں اور اس سلسلہ میں پہلا اور سب سے مقدم کام یہ ہے کہ اب ایک یونیورسٹی قائم کی جائے۔یہ یونیورسٹی ایسی ہو کہ علاوہ علوم جدیدئہ کے نوجوانوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ ان کا گزشتہ زمانہ کیسا باعظمت تھا اور ان کا مذہب کیسا ہے اور وہ یونیورسٹی ایسی جگہ ہو کہ جہاں طلبہ رہیںاورجہاں مثل آکسفورڈ کے کیرکٹر پر بہ نسبت امتحانات کے زیادہ توجہ دی جائے۔ علاوہ ازیں یہ بھی خیال رہے کہ مسلمانانِ ہند کو اس بات کا جوازاً حق حاصل ہے کہ ان کے ہم مذہب جو ترکی ،پرشیا، افغانستان اور دیگر ممالک میں ہیں وہ ان کی ذہنی نشونما کی طرف متوجہ ہوں اور ان کو مدد دینے کا بہترین طریقہ ہے کہ علی گڑھ کو ہی مسلمانوں کاآکسفورڈ بنا دیا جائے کہ جہاں لائق ترین مسلمان طلبا بھیجے جائیںاور نہ صرف اس غرض سے کہ علوم جدیدہ حاصل کریں بلکہ دیانت اور ایثار بھی سیکھیں جو پہلی صدی کے مسلمانوں سے ان کو ورثہ میں ملا ہے۔
اپنے خطبہ میں آغاخان نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ایک کروڑ روپیہ یونیورسٹی فنڈ میں جمع کریں۔ یہ تحریک منظور ہوئی اور سارے ملک میںیونیورسٹی بنانے کے کوششیں شروع ہوگیں۔ ۶۰۹۱ئمیں انگلستان کے ولی عہد کے ہندوستان آنے کا پروگرام بنا۔ اس زمانہ میں وہ پرنس آف ویلز کہلاتے تھے اور بعد میں جارج پنجم کے نام سے انگلستان کے بادشاہ ہوئے۔نواب محسن الملک نے گورنمنٹ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ پرنس آف ویلز علی گڑھ بھی آئیں لیکن حکومت نے یہ کہ کر ان کی درخوست مسترد کر دی کہ پروگرام پہلے سے بن چکا ہے اور بادشاہ نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے اس لئے اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے محسن الملک نے آغاخان سے درخواست کی کہ وہ کچھ مدد کریں آغاخان راضی ہو گئے اور اپنے ذاتی رسوخ اور شاہی خاندان سے تعلقات کو کام میں لا کر پرنس آف ویلز کے علی گڑھ آنے کا انتظام کر وا دیا۔
۸مارچ۶۰۹۱ئکو پرنس آف ویلز علی گڑھ کالج دیکھنے آئے۔ اس تقریب سے سارے ملک میں کالج کا وقار بہت بڑھ گیاسر آغاخان نے سائنس کے تمام شعبوں کو ملا کر ایک سائنس اسکول کھولنے کی اسکیم بنائی اور پرنس آف ویلز کو بمبئی کے ایک مشہور تاجر سیٹھ آدم جی کا ایک تار دکھایا کہ جس میں سیٹھ صاحب نے سائنس کالج کے لیے ایک لاکھ دس ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ پرنس نے اسکول کو اپنے نام سے بنانے کی اجازت دے دی۔ جب پچیس تیس برس کے بعد سر راس مسعود کی وائس چانسلری کے زمانہ میں کیمسٹری، زولوجی اور سائنس کی تعلیم کے لیے نئی عمارتیں تیار ہوئیں تو ان عمارتوں کے نام پرنس آف ویلزلیبارٹیزرکھا گیا اور ان کے کتبوں پر آج بھی یہ نام لکھا ہوا ہے۔
یونیورسٹی کے لیے رقم مہیا کرنے کی مہم برابر تیز ہوتی گئی ۱۱۹۱ئ میں جب مسلم یونیورسٹی کے لیے چندہ جمع کرنے اور یونیورسٹی کے قوائد مرتب کرنے کے لیے علی گڑھ میں ایک سنٹرل فاﺅنڈیشن کمیٹی بنائی گئی تو آغاخان سے اس کی صدارت کی درخواست کی گئی۔جو انھوں نے قبول فرمائی۔اس کمیٹی نے سارے ملک میں اپنی نمائندے بھج کر روپیہ اکھٹا کرنا شروع کیا ایک وفد کی قیادت خود سر آغاخان نے کی اور وہ سلطان جہان بیگم والیہ بھوپال کے پاس تشریف لے کئے ، بیگم نے ایک لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا اس پر آغاخان نے بڑے جوش وخروش سے فرمایا۔
”دل بندہ را ذندہ کر دی، دلِ اسلام را ذندہ کر دی
دل قوم را ذندہ کر دی، خدائے تعلی بطفیل رسول اجرش دہد“۔
اسی سال یعنی فروری ۱۱۹۱ئ میں آغاخان ایک وفد کو لے کر اسی غرض سے لاہور پہنچے، وہاں ایک شاہانہ استقبال ہوا۔ جوش وخروش کا یہ حال تھا کہ ایک اخبار نے سعدی کی گلستان کا ایک نعتیہ شعر آغاخان کے لئے لکھ دیا۔
”چہ غم دیوارِامت را کہ باشد چوں توپشتی باں
چہ باک از موج بحراں را کہ باشد نوح کشتی باں“
مولانا شبلیبھی اس وفد میں شریک تھے۔ انھوں نے جلسہ میں ایک نظم پڑھی جس کے چند اشعار یہ تھے۔
”ولے آساں نباشد درس گاہے را بنا کردن
کہ خود ہر گو نہ گوں رنجوری مار اشفا باشد
دریں بو دیم ما کز پردہ گاہ غیب برسر زد
ہمایوں طلعتی کیں عقدہ را مشکل کشا باشد
سر آغاخان کہ خود خوابست ایں تعبیر نوشیں را
چہ خوش باشد کہ خواب از ما وتعبیر ازخدا با شد
بکیش شیعہ و سنّی سر آغاخان خداانبود
ولیکن کشتی اسلامیاں را ناخدا باشد
کنوں بینی کہ زود آں گلشن رنگیں بپا گر دد
کہ شبلی ہم درو یک بلبل رنگیں نوا باشد“
ادھر چندہ کی مہم جاری تھی اُدھر جب مسلم یونیورسٹی کا مجوزہ قانوں گورنمنٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو گورنمنٹ نے یونیورسٹی کو ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں کے الحاق کا حق منظور نہیں کیا۔اُس زمانے میں عام مسلمان اسے بہت اہمیت دیتے تھے۔ لیکن باوجود ہر کوشش کے حکومت اس معاملہ میں ٹس سے مس نہ ہوئی۔ یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ دہلی کی کوئی بھی حکومت کبھی اس کو گوارہ نہیں کر سکتی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کا سیاسی مرکز بنے۔ الحاق کی تجویز سے حکومت کو یہ اندیشہ تھا کہ اس طرح یہ یونیورسٹی سارے ہندوستان کے مسلمانوں کا سیاسی مرکز بن جائے گی۔ ظاہر ہے کہ وہ یہ بات کبھی گوارہ نہیں کر سکتی تھی۔ آئندہ بھی کوئی حکومت کسی یونیورسٹی کو اس قسم کا سیاسی مرکز بننے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
ظاہر ہے کہ اس سے بہت سے لوگوں کو مایوسی ہوئی جن میں آغاخان بھی تھے۔ لیکن وہ معاملہ کی نوعیت کو جلد سمجھ گئے۔ اس عرصہ میں یورپ میں جنگ عظیم چھڑ گئی اور یونیورسٹی کا معاملہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ جنگ بلقان اور ترکی کی حمایت میں خود مسلمان اتنا مشتعل ہو گئے تھے کہ وہ یونیورسٹی کی اہمیت کو بھول سے گئے۔ لیکن آغاخان کبھی اسے نہ بھولے، پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر انھوں نے پھر تحریک شروع کی۔ پہلے تو مسلمان ان شرائط پر یونیورسٹی قبول کرنے کو تیار نہ تھے جو حکومت کی طرف سے پیش کی جا رہی تھیں لیکن بعد میں سر آغا©خان اور مہاراجا محمود آباد کی کوششوں سے با لآخر مسلمانوں نے یونیورسٹی کی تجویز منظور کر لی اور ۰۲۹۱ئمیں یونیورسٹی قائم ہو گئی، بیگم بھوپال چانسلر، سر آغاخان پرو چانسلر اور مہا راجا محمود آباد وائس چانسلر منتخب کیے گئے۔
آغاخان یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے علی گڑھ کے معاملات میں اور زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ ۶۳۹۱ئمیں جب ڈاکٹر ضیاءالدیں پہلی مرتبہ وائس چانسلر بنے تو سر آغاخان نے انھیں انجنیرنگ کالج کے قیام کا مشورہ دیا وہ علی گڑہ آئے اور اگریکلچر کالج کے قیام کی تجویز پیش کی۔اس کے بعد انھوں نے پرو چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دیکر نواب صاحب رامپور کو اپنا جانشیں تجویز کیا جس کو کورٹ نے منظور کر لیا اور آغاخان کو یونیورسٹی کا ریکٹر بنا دیا۔
۸۳۹۱ئمیں وہ ایک بار پھر نواب صاحب رام پور کے ساتھ علی گڑھ تشریف لائے اور انجینرنگ کالج کے لئے اپنی طرف سے ایک لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا اسی قدر رقم کا وعدہ نئے چانسلر نظام آف حیدر آباد نے بھی کیا اور نواب صاحب رام پور نے ایک لاکھ دو ہزار روپے دیے۔
جب ۱۴۹۱ئمیں ڈاکٹر ضیاءالدین دوسری دفعہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے تو آغاخان نے انھیں میڈیکل کالج کے قیام کا مشورہ دیا اور اس کالج کے لیے ایک لاکھ روپیہ چندہ دیا۔
غرض ہزہائی نس سر آغاخان نے سر سیّد کے زمانہ سے دوسری جنگ عظیم تک کے طویل عرصہ میں علی گڑھ سے اپنا تعلق قائم رکھا اور جو محبت انھیں اس اِدارے سے رہی اس کا حق برابر ادا کرتے رہے۔
آغاخان دنیا کے ریئس ترین لوگوں میں سے تھے اور انھیں دنیا برتنے کا سلیقہ بھی تھا۔ شاید دیکھنے والوں کی نگاہیں ان کی دولت سے ایسی چکناچوند ہوئیں کہ ان کے قومی کارنامے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ وہ ہندوستان کے ایک بہت روشن خیال اور دانشمند رہنما تھے جنھوں نے جمہوریت کو ہندوستانی پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ساری عمر وہ کوشاں رہے کہ ہندوستان کے لوگوں اور خصوصاً مسلمانوں کو بیسویں صدی میں باعزت زندگی بسر کرنے کا سلیقہ آ جائے۔
۷۵۹۱ئمیں یہ شمع فروزاں گل ہو گئی۔ان کے بعد ان کے پوتے پرنس کریم الحسینی آغاخان چہارم ان کے جانشین ہوے۔
administrator
Pamir Times is the pioneering community news and views portal of Gilgit – Baltistan, Kohistan, Chitral and the surrounding mountain areas. It is a voluntary, not-for-profit, non-partisan and independent venture initiated by the youth.
Like this:
Like Loading...