وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ ….. حقائق کے آئینے میں
یہ غالباً 2009ءکی بات ہے۔ میں اپنی دوسری کتاب ”فکرونظر“ کی اِشاعت کے سلسلے میں کراچی میں تھا۔ کتاب پرنٹ ہوکے مجھ سے پہلے گلگت پہنچی تھی اور گلگت بلتستان کی اَہم شخصیات کے نام اعزازی کاپیاں بھی موصول ہوچکی تھیں اور مجھے مسلسل مبارک باد کے پیغامات آرہے تھے۔ میں کراچی میں اپنی دیگر نجی مصروفیات کو نمٹاکر اب اِسلام آباد کی طرف محوِ پرواز تھا۔ اِسلام آباد پہنچ کر کسی ادبی شخصیت سے ملنے اکادمی ادبیات کے آفس میں تھا۔ میرے موبائل پر ایک ”اَن نون“ نمبر آیا۔ کوڈ سکرود کا تھا۔ یک دم ذہن کی سکرین روشن ہوئی کیونکہ سکرود میں میرے محسنوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ پروفیسر کمال الہامی، محمد حسن حسرت، فدا ناشاد، قاسم نسیم، احسان دانش، ذیشان مہدی، اسلم سحر، ڈاکٹر مظفر انجم، الغرض وہ تمام نام ایک ایک ہوکے میرے ذہن کے سکرین پر نمودار ہوئے۔ میں نے کال ریسیو کرتے ہوئے السلام علیکم کہا۔ جواب میں نہایت ہی معتبرانہ لہجے میں وعلیکم السلام کے ساتھ ہی پوچھا گیا۔ ”کیا آپ عبدالکریم کریمی صاحب ہیں؟“ میں نے تائید میں جواب دیا اور کہا۔ ”امی ابو نے تو عبدالکریم نام رکھا تھا بس میں نے صرف کریمی کا اِضافہ کیا ہے۔ حکم کرے کون صاحب اور کہاں سے بات کر رہے ہیں۔“ جواب آیا۔ ”میں سید مہدی شاہ جنرل سیکریٹری پی پی پی شمالی علاقہ جات بول رہا ہوں۔ آپ کی کتاب ملی۔ آپ کا شکریہ ادا کرنے اور آپ کو مبارک باد دینے کے لیے فون کیا تھا۔“
جی قارئین! یہ وہی مہدی شاہ صاحب ہیں جو آج کل گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ ہیں۔ شاہ صاحب سے شناسائی کو ایک عرصہ ہورہا ہے۔ آپ کے دوستوں اور ساتھ ساتھ آپ کے حاسدین کی بھی ایک بڑی تعداد پائی پاتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ آپ کے حاسدین بھی آپ کی بردباری اور سیاسی بصیرت کے قائل ہیں۔ جہاں تک میں نے اُن کو سمجھا ہے وہ ایک برد بار، ذہین، معاملے کی تہہ تک پہنچنے والے زیرک سیاستدان، ادب نواز، غریبوں کا دوست اور سیاست کو عبادت سمجھ کر انجام دینے والی شخصیت کے حامل اِنسان ہیں۔
کہتے ہیں اِنسان کی تربیت میں تعلیم سے بھی زیادہ گھر کا ماحول بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اِس وجہ سے شاہ صاحب کی یہ خاصیت سادات خاندان میں پرورش و تربیت کی رہین منت نظر آتی ہے۔ ورنہ اِس نفانفسی کے عالم میں لوگ اِس قدر مادیت پرست ہوچکے ہیں کہ انہیں اگر فکر ہوتی ہے تو صرف پیسہ اور جائیداد کی، باقی دُنیا اور دُنیا والے جائے بھاڑ میں، اُن کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سنا تھا جن لوگوں نے تاریخ رقم کی ہے اُنہوں نے کسی یونیورسٹی میں نہیں بلکہ کسی اچھے خاندان میں ایک باوقار اور عزت دار ماں کی گود میں تربیت پائی اور دُنیا پر چھا گئے۔ شاید اِس لیے کسی مفکر کو کہنا پڑا تھا کہ ”آپ مجھے اچھی مائیں دیں، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔“ شاہ صاحب کی شخصیت میں صبرو تحمل اور برداشت کو دیکھ کر یقینا اُن کی ماں کی تربیت کو داد دیا جاسکتا ہے۔
موصوف کے صبرو تحمل کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا، جب دو سال پہلے اُن کے کسی بیان پر میری ایک کاٹ دار تحریر مقامی اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ مجھے اِحساس ہے وہ تحریر جذباتی انداز میں لکھی گئی تھی۔ وجوہات صاف ظاہر تھیں کہ اُس وقت ہنزہ ڈوب رہا تھا ششکٹ اور آئین آباد میں ہماری مائیں اور بہنیں اپنے معصوم بچوں کے ساتھ ٹینٹوں میں زندگی گزرانے پر مجبور تھیں اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا گلگت جل رہا تھا ٹارگٹ کلنگ اپنی انتہا کو پہنچی تھی، یہاں تک کہ خواتین بھی اِس کی زد میں آرہی تھیں معصوم جانیں ضائع ہو رہی تھیں عوام میں بے چینی بڑھ رہی تھی سکول اساتذہ سے خالی تھے طلباءجو کسی بھی زندہ قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، پریشان حال تھے صحتِ عامہ حکام کی توجہ چاہتی تھی آئے روز بجلی کی لوڈشیڈنگ نے کاروبارِ زندگی کو مفلوج کر رکھا تھا ہر فرد جذباتی اور پریشان تھا۔ جبکہ ایک ایسے وقت میں گلگت بلتستان کی اسمبلی کی طرف سے ایک کھلاڑی کو ہنی مون کی دعوت دینا سمجھ سے بالاتر تھا۔ خیر جو ہوا، سو، ہوا۔ میری تحریر کیا چھپی۔ میرے دوستوں اور خیرخواہوں کی کالوں پہ کالیں آنے لگیں کہ کریمی صاحب گھر میں ہو یا جیل میں؟؟؟ اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس تحریر میں کیا کچھ لکھا گیا تھا۔ مگر شاہ صاحب نے آزادی صحافت کی قدر کرتے ہوئے نہ صرف میری تحریر کو قدر کی نگاہ سے دیکھی بلکہ اُس کھلاڑی کے لیے دی گئی ہنی مون کی دعوت بھی واپس لی اور متاثرین عطاءآباد اور مذکورہ بالا مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے لگے۔ سچ کہا ہے سید مہدی شاہ صاحب نے کہ وہ واقعی سیاست میں پی ایچ ڈی ہیں۔ بڑی شخصیات اور بڑے لوگوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ اُنہوں نے جب بھی کوئی غلطی کی تو نہ صرف برملا اُس کا اِظہار کیا بلکہ آنے والے وقتوں میں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر بہتر سے بہتر کرنے کوشش بھی کی۔ تاریخ کے اوراق ایسی شخصیات سے بھرے پڑے ہیں۔ ایسی شخصیات مخالفت کو اپنے لیے متاعِ زیست سمجھتی ہیں۔ وہ شاید اِس حقیقت کو جانتیں ہیں
سچ لکھنا ایک صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اُس صحافی کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے جس کی تربیت ایک ایسی ماں کی گود میں ہوئی ہو، جس کی رگوں میں آلِ رسول کا خون دوڑتا ہو اور جو سادات خاندان کی صاحبزادی ہو۔ میرے سچ لکھنے کے پیچھے میری عظیم ماں (زیذی) کی تربیت ہے جس کی وجہ سے جب جب زندگی مجھے سمجھوتہ (Compromise) پر مجبور کرتی ہے تو میری ماں میرے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور میرا ہاتھ تھام کر کہتی ہے کہ ”بیٹا زندگی سمجھوتے کا نہیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا نام ہے۔“ اِس لیے میں سچ لکھنے اور کہنے کی کوشش کرتا ہوںکیونکہ میں اپنی ماں کے ساتھ دھوکہ نہیں کرسکتا۔