گوشہ اردو

اشکومن ڈوک پُل یا پُل صراط

پُل صراط کے عنوان سے آپ کو اگلی دنیا کے بارے میں نہیں بلکہ اشکومن خاص میں واقع ڈوک پُل کے بارے میں بتانے کی کوشش کررہا ہوں جو پُل صراط سے کم نہیں۔ آج کل اس پل کی شکل اور ساخت بیسویں صدی کی آخری عجائب میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ یہ وہ پُل ہے جو اشکومن پراپر کی تقریباََ دس ہزار کی آبادی کو باقی علاقوں سے ملاتی ہے۔ آج کل اشکومن کا انحصار اس پُل پر ہے۔ مقامی گاڑیاں اس پُل سے گزرتی ہے تو گاڑیوں میں موجود مسافر صلواتیں پڑھنے لگتے ہیں۔ کمزور دل کے لوگ یا تو پُل کے اس پار گاڑی سے اترتے ہیں یا انکھیں بند کرکے پُل پار کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے اس پُل پر اس حادثہ بھی ہوا جس کی وجہ سے ایک قمیتی جان ضائع ہوگئی جس پر حکومت وقت حرکت میں آئی اور ایک سربند کا اضافہ کرکے عوام کو مطمعین کرایا۔ اس پُل کی لمبائی اسی(80) فٹ سے زیادہ نہیں ہوگی یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر کے کسی چھوٹے کلوٹ کے برابر ہے۔ اس پُل کی تاریخ کافی لمبی ہے۔ اشکومن خاص کے لوگوں نے اس پُل کی خوشخبری پر چار دفعہ پی پی پی کو اور اب ناجی صاحب کو جیتایا۔ اب تک اس پُل کے بارے میں کئی متضاد خبریں آتے رہے ہیں ہم اس اُمید سے ہیں کہ اب اگلے کچھ مہینے میں پُل بنے گی لیکن اب سننے میں آیا کہ ہمارے نئے قائد بھی اس معاملے میں بے بس ہو گئے ہیں۔ پالوف کے نظریہ توجہ(motivation) کو آپ نے سنا ہوگا کہ جب ایک چیز ایک مدت تک جھوٹا ثابت ہوتو رویے اور ارادے بدل جاتے ہیں۔اس پُل کی موجودہ حالت دیکھ کر کوئی بھی اشکومن آنے کو تیار نہیں ۔ بعض ہمارے دوستوں نے ہمیں کہہ دیا کہ پُل اس قدر قدیم ہے تو اُس پار لوگ کیسے ہونگے؟ میرے ایک دوست لاہور سے ایک سیاحتی گروپ لیکر اشکومن آرہے تھے صرف اس پُل کی وجہ سے وہ وہاں نہیں آئے۔ وہ آثار قدیمہ اور مقامی تاریخ پر ریسریچ کرنا چاہتے تھے۔ یہی نہیں کئی ایک سیاح اس پُل کی وجہ سے اشکومن آنے سے کتراتے ہیں۔ ٹرک اور بڑی گاڑیاں اس علاقے میں اس پُل کی وجہ سے نہیں آسکتے جس کی وجہ سے عوام کو چھوٹے چھوٹے ٹریکٹروں پر ہفتوں تک گندم ‘ آلو اور دیگر ضروریات بہت مہنگے داموں لے جانا پڑتا ہے۔ اب آپ سوچیں کہ اس دور میں بھی کسی علاقے میں ٹرک یا بڑی گاڑیاں نہ جائے تو وہاں کے لوگوں کی معاشی حالت کیا ہوگی؟ کسی بھی خوشی کے موقع پر اس پُل سے گزرتے ہوئے پیر وجوان اترتے ہیں اور صلواتیں پڑھ کرپار نکلتے ہیں۔ یہی نہیں اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی بھی دن کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد موٹروے پرلاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ راستے میں سینکڑوں آر۔سی۔سی پُل دیکھ کر حسرت کی انتہا نہ رہی۔ ہر پُل پر اشکومن پُل یاد آتی رہی۔ دریائے جہلم‘ دریائے چیناب اور دیگر چھوٹے بڑے دریاﺅں پر پُل دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ میں کسی اور ملک میں ہو۔ ہر دس منٹ بعد بڑے بڑے فلائی اورز اپنی قدآور زینت سے شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں اور دل چاہتا ہے کہ سفر اور لمبا ہوجائے۔ سوچا تو یہ بھی پاکستان ہے اور وہ بھی پاکستان! یا یہ پاکستان نہیں یا وہ پاکستان نہیں!۔ خیر شک وشبہ کے بغیر موٹروے بھی پاکستان میں ہے اور اشکومن بھی پاکستان میں لیکن یہاں موٹر وے وہاں ایک پُل کی تعمیر کے لئے پچھلے بیس سال سے التجا جاری ہے۔ ہمارے ممبر چیف ایگزیٹو بھی بنے اور اب گورنر بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہم نے قیادت بدل بھی دی ہے لیکن پھر بھی یہ پُل بننے والی نہیں۔ اب آپ بتائیں کہ نئے نسل کی اس ملک کے بارے میں کیا سوچ ہوگی؟ ایک حصے میں ایک کلوٹ کے لئے بیس سال لگتے ہیں اور ایک حصے میں سڑکوں اور پُلوں کی کوئی کمی نہیں۔ بحرحال جناب نواز شریف کے اعمال کچھ بھی صحیح اُن کی یہ(موٹروے) خدمت عوام نہیں بھولیں نگے۔ جس کسی حکمران نے اچھا کام کیا قوم اُس کو یاد رکھتی ہے یہی وجہ ہے کسی بزرگ نے کہا کہ’لوگوں کو ان کے اعمال سے پہچانا جاتا ہے‘۔ خیر ہم اپنے پہاڑی علاقے کو ملک کے کسی امیر حصے سے کیوں تشبہ دیں؟ ہمیں ابھی تک ووٹ کا حق نہیں پُل کہاں سے بنے گی۔ گلگت بلتستان حکومت کے پاس وسائل نہیں وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے پیسہ نہیں پا سکے ہیں پُل اور سڑک کہاں سے بنائیں گے؟ گزشتہ دنوں ہمارے اسمبلی ممبر نے بے بس ہوکر استعفیٰ دینے کی بات کی ہے۔ شاید اس اسمبلی میں مخصوص لوگ رہ سکتے ہیں عام آدمی کی بس کی بات نہیں۔ عوامی نمائندوں کی یہ حالت ہوئی تو ہم عوام کیا کرینگے۔ اشکومن خاص کے عوام نے چالیس سال تک پی پی پی کوووٹ دیا۔ ہمارے ممبر اسمبلی کے سب سے بڑے عہدے پر بھی فائز ہوئے لیکن ہمیں ایک پُل اور پکی سٹرک کی خواب دیکھاتے رہے۔ نہ جانے اب اس خواب کی تعبیر کب ہوگی؟
اشکومن خاص کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک جاری رہنے کی وجہ سے اب وہاں کے عوام جاگنے لگے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں وہاں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئی ہے۔ اب بجلی اور دیگر مسائل پر وادی اشکومن کی آواز ایک ہونے لگی ہے۔ جہاں عمران خان صاحب کی سونامی آسکتی ہے تو وہاں ملک کے دیگر حصوں میں بھی حالات بدل سکتے ہیں۔ پہلے ہم نے موٹرویز اور بڑے بڑے شاہراہیں نہیں دیکھا تھا لیکن اب سینکڑوں جوانوں کو ان چیزوں کا پتہ ہے بلکہ وہ شہر میں رہنے لگے ہیں وہ شعور رکھتے ہیں۔ اب اُن سے بھی اُن کے آباﺅاجداد کی طرح سلوک نہیں کیا جاسکتا ہے۔قصے کہانی اور جذباتی تقریروں سے اب لوگ متاثر نہیں ہونگے۔ خدمت اور کام کی بنیادپرمستقبل میں لیڈرشب کی گنجائش ہے۔ یہی ایک پُل نہیں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ کوئی آواز اٹھائے تو اس کی آواز کو شک کی نظر سے دیکھا جاتاہے۔ گلگت بلتستان حکومت کے پاس واقعی پیسہ نہیں تو ہمیں کیوں نہیں بتایا جاتا ہے۔ ہم کب تک وفاق سے بھیک مانگیں گے۔ ہمارے معززوزیر اعلیٰ اور ممبران کے پاس ایک کلوٹ بنانے کی سکت نہیں تو ہم کیوں نہیں ان کےلئے وسائل کا سوچیں۔ دنیا میں ہر قوم ٹیکس دے سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں کسی اور کے پیسوں سے جیتے ہیں؟ ہم پاکستان بھر کے ہوٹلوں میں‘ ملازمتوں میں ٹیکس دے سکتے ہیں تو اپنے علاقے کی حکومت کو کیوں نہیں؟کل لاہور میں ایک لطیفہ ہوگئی۔ وہ یوں کہ لاہور کے ایک ہوٹل میں قیام کے بعد بِل دیکھا تو وہاں ٹیکس بھی لگی تھی سوچا کہ گلگت کا ہوں تو یہ ٹیکس کیوں؟ تو وہ صاحب بولے جناب ٹیکس نہیں دو گے تو اس ملک کا انتظام کیسے ہوگا؟ اُن کی یہ بات مجھے سوچنے پر مجبور کرتی رہی۔ خیر ہمارے اور بھی مسائل ہیں۔ ہم ٹیکس تو دیں گے لیکن طریقہ کار کیا ہوگا؟ ٹیکس کا یہ پیسہ کہاں جائے گا؟ اس کا حساب کتاب کون کریگا؟ اس پیسے کے صحیح استعمال کی گارنٹی کیا ہوگی؟ کیا ہمارے ٹیکس کے پیسے سے ہمارے علاقے میں ہی ترقیاتی کام ہونگے؟ ہمارے معزز ممبران ڈوک پل جیسے پلوں اور دیگر ضروریات کو وقت پر کرسکیں گے؟ اگرہاں تو دیر کس بات کی؟ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے منتظمین کو اس بارے میں اگاہی شروع کرنا چاہئے تاکہ ہم بھی دینے والی قوم میں سے ہونگے!اگرچہ کالم میں ذاتی رائے ہوتی ہے لیکن رائے اگر اچھی ہے تو ہمارے حکمرانوں کو اس بارے میں سوچناچائیے۔ امید ہے ہمارے حلقے کے ممبر صاحب اور گورنرصاحب ایک بار پھر اس پل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں گے۔ وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی سے بھی ہم اپیل کرتے ہیں کہ اشکومن ڈوک پل کے بارے میں احکامات دے کر اس خطرناک پُل سے نجات دلائیں۔
’ہوا جو تیر نظر نیم کش تو کیا حاصل
مزہ تو تب ہے کہ سینے کے آرپار چلے‘

Related Articles

One Comment

Back to top button