گوشہ اردو
سیاحت کے فروغ میں ضلعی انتظامیہ کا کردار
سیاحتی علاقوں کی شناخت اور تشہیر سائین بورڈ سے ہوتی ہے۔ آج کل کے زمانے میں گوگل (Google Earth)‘ سیاحتی نقشے اور دیگر جدید ٹیکنالوجی سے لوگ مختلف علاقوں کو گھر بیٹھے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ آن لائین سیاحتی چینلز کی وجہ سے اب کسی علاقے کی فضائی منظر کشی کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا لیکن اس کے باوجود سیر سپاٹے (آف لائین وزٹ) میں سائین بورڈ کی اہمیت بہت اہم ہے۔ آج کل جس ملک میں بھی جائے سیاح کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ روڈاور اہم مقامات پر لگے سائین بورڈ ہی سیر وسیاحت میں اُن کی مدد کرتے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی بڑے بڑے شہروں میں اب ایسے بڑے بڑے سائین بورڈ لگے ہیں کہ سیاحوں کےلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ تھری سٹار سے سیون سٹار تک ہوٹلوں کی سہولیات نے سیر وسیاحت کو اور آسان کردیا ہے۔ سیاحوں کی آمدنی اور شوق اس میدان میں بہت اہم ہے۔
گلگت بلتستان کو اللہ نے قدرتی وسائل سے مالامال کردیا ہے۔ قدرتی مناظر‘ پہاڑی سلسلے‘ برف پوش پہاڑ‘ گلیشیرز‘ جھیل‘ دریا‘ چشمے‘ آبشار‘ سبزہ زار اور جنگلات سیاحت کے لئے کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔ ان تمام کے باوجود اِن کے بارے میں نشرواشاعت اور تشہیر بہت ضروری ہے۔ گلگت بلتستان میں محکمئہ سیاحت ایک عرصے سے محدود جدوجہد میں مصروف ہے۔ صوبائی حکومت نے بھی کئی ایک اقدامات کی ہے۔ اخبار و اشاعت کے دیگر اداروں کے ساتھ لوگ انفرادی کوششوں سے بھی دیگر ممالک کے لوگوں کو یہاں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ضلع گلگت کی ضلعی انتظامیہ نے بہت زبردست کوشش کی ہے۔ گلگت ضلعی انتظامیہ نے تمام ضلع کے حدود میں سڑک کے ساتھ ہر گاﺅں میں ایک سائین بورڈ نسب کی ہے جس پر گاﺅں کا نام‘ سطح سمندر سے بلندی‘ مرکز سے فاصلہ اور دیگر بنیادی معلومات درج ہے۔ گلگت سے غذر کی جانب جاتے ہوئے آپ ان سائین بورڈز کو دیکھ سکتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے اس سیاحتی اقدام کو عوام نے بہت سراہا ہے اور سیاح بھی اس کوشش سے بہت خوش ہیں۔ اس اقدام سے نہ صرف مقامی لوگ اور نئی نسل خوش ہیں بلکہ دیگر علاقوں سے آنے والے لوگ بھی آسانی سے ان علاقوں کے نام اور چند بنیادی معلومات سے اگاہ ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ سفر کے دوران منزل تک کے فاصلے سے بھی لوگ اگاہ رہتے ہیں۔
یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن سے مسافر راستے کے کھانے پینے اور تیل(فیول) وغیرہ کی ضروریات کو یقینی بناتے ہیں۔ شہر میں NHAوالوں نے یہ کام احسن طریقے سے کیا ہے۔ ہم گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے حدود کے سڑکوں پر ایسے ہی سائین بورڈ نسب کر دیں جس طرح ضلع گلگت کی انتظامیہ نے کی ہے۔ ہم اس دور میں بھی یہ نہیں چاہتے کہ لوگ ڈرائیوروں اور مسافروں سے پوچھتے رہے ’بھائی یہ کونسی جگہ ہے‘، یہاں سے گلگت تک کتنا فاصلہ ہے‘ ، یہاں کوئی ہوٹل موجود ہے؟ ‘ آگے کہیں پٹرول پمپ ہے کیا؟یہاں سے شندور تک کتنا فاصلہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ علاقوں میں یہ کوشش تو کی گئی ہے لیکن سائین بورڈ اتنے ناقص ہیں کہ نہ ان کی لکھائی نظر آتی ہے اور نہ ہی ان پر کوئی بنیادی معلومات ہیں۔ محکمئہ سیاحت اور مشیر سیاحت کو بھی اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ چیزیں آج کل بہت اہم ہو گئی ہیں سیاحوں کی آمد تب ہوسکتی ہے جب ان کو اس طرح کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائے۔ سیاحت ہمارے صوبے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاحت وہ پُرکشش میدان ہے جس سے بہت آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہمارے قدرتی وسائل سیاحوں کے انتظار میں ہیں۔ جنگ آزادی سے قبل کے لٹریچر سے یہ بات روز روشن ہے کہ گلگت بلتستان میں لوگ اُس مشکل دور میں سیر سپاٹے کے لئے آتے تھے۔ یہاں کی مہمان نوازی اور امن کی وجہ سے یوروپی ممالک اور دیگر اسلامی ممالک سے لوگ آتے تھے اور ان سے نہ صرف علاقے کی تشہیر ہوتی تھی بلکہ مقامی لوگوں کو بھی بہت فائدہ ہوتا تھا لیکن اب گلگت بلتستان آنے سے پہلے سیاح سو دفعہ سوچتے ہیں۔ جان و مال کی خطرے کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ زوال کی طرف گامزن ہے۔
آج گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ڈھونڈ کے بھی سیاح نظر نہیں آتے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے اورہم ایک بڑے ذریعہ معاش سے محروم ہے۔ صرف تین بڑے گاﺅں میں بد آمنی کی وجہ سے پورے گلگت بلتستان کے علاقے سیاحت کے مواقع سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا نے بھی صحیح ترجمانی نہیں کی ہے۔ رپوٹرز اور کالم نگار سب تین شہروں کی بدآمنی کو ”گلگت بلتستان“ پکار پکار کر یوں لگتا ہے کہ پورے علاقے میں دہشت نظر آتی ہے۔ آج بھی گلگت بلتستان کے دور دراز علاقے بد آمنی کے نام سے بھی واقف نہیں۔ مہمان نوازی‘ سادگی‘ بھائی چارہ‘ برادری اور دیگر اسلامی اقدار ہمارا اثاثہ رہے ہیں اور رہیں گے۔ سات ضلعوں پر مشتمل اس علاقے کو سیاحتی جنت بناکر ہمیں خوشحالی کی سفر میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔ حکومت اور اور دیگر سیاحتی اداروں کو اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کو قلم سے‘ قدم سے‘ فکر سے اور کردار سے اس شعبے کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیر وسیاحت اسلامی ورثہ بھی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس زمین پر چلنے پھرنے اور اللہ کی خلقت پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ سورة یوسف آیت نمبر ۹۰۱ میں فرماتے ہیں؛” اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں میں رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا اُن لوگوں نے ملک میں سیر وسیاحت نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ اُن سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟ اور متقیوں کےلئے آخرت کا گھر سب سے اچھا ہے۔کیا تم سمجھتے نہیں؟“۔ اس طرح سورة الحج آیت نمبر۶۴فرماتے ہیں”کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ اُن کا دل(ایسے) ہوتے کہ وہ اُن سے سمجھ سکتے اور کان (ایسے) ہوتے کہ اُن سے سن سکتے‘ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہے وہ اندھے ہوتے ہیں“۔ ان آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ سیر وسیاحت سے نہ صرف انسان اللہ کی خلقت کا مشاہدہ کرتا ہے بلکہ پہلے دور کے باقیات سے سبق بھی سیکھ لیتا ہے۔ سیر وسیاحت ہی سے لوگو کی طرز زندگی‘ تہذیب اور تمدن سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہمیں نہ صرف خود سیرو سیاحت کی طرف توجہ دینا چاہئے بلکہ دوسروں کو بھی اس معاملے میں مدد اور تعاون فراہم کرنا چاہئے۔ ہم صوبائی حکومت اور محکمئہ سیاحت کے ساتھ تمام ضلعی انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ضلع گلگت کی طرح دیگر اضلاع میں بھی اقدامات کریں اور سٹرک کے کنارے ہرگاﺅں اور اہم مقامات پر سائین بورڈ نسب کریں تاکہ سیاحوں کے لئے بنیادی معلومات مل سکیں۔
آپ کا کیا خیال ہے؟کیا سیروسیاحت ہماری معیشت کیلئے اہم نہیں؟