Pakistan

جشن آزادی گلگت اور عوام

ہدایت اللہ آختر

نومبرکا مہینہ خصوصا یکم نومبر 1947 کا دن گلگت بلتستان کے عوام کے لئے ایک اہم یادگار مہینہ اور دن ہے. چودہ اگست 1947پاکستان کی آزادی کے فورا بعد یہاں کے عوام کے اندر آزادی کی تڑپ،امنگ اور ایک ولولہ پیدا ہوا کہ وہ بھی ہندﺅں اور ڈوگروں کے تسلط سے اپنے آپ کو آزاد کراکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بانہوں میں سمٹ جائیں۔

زندگی کیا ہے ؟کیا زندگی زندہ رہنے کا نام ہے ؟کیا سانس لینا ہی زندگی ہے ؟نہیں زندگی تو آزادی کے ساتھ سانس لینے کا نام ہے آزادی زندگی ہے اور غلامی موت ایک زندہ قوم اور پائیندہ قوم کا ثبوت دیتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام نے بھی اسی جذبے اور آپس کے اتحاد و اتفاق کی بدولت نہایت ہی بے سرو سامانی کے باجود وہ کارنامہ کر دکھایا کہ دنیا دنگ رہ گئی. یہاں کے لوگوں کی دلیری بہادری اور شجاعت کے قصے کہانیاں دھرا کرخود میاں مٹھو بننا نہیں چاہتے صرف اتنا مقصود ہے کہ کہ قوموں کی زندگی میں تہوار اور جشن منانے کے مقاصد ہوتے ہیں اور یہ تہوار اور جشن ہم کس لئے اور کیوں مناتے ہیں اس کی روح کو آج ہمیں سمجھنا ہے آزادی کے پینسٹھ سال بعد جب ہم اپنے آپ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے اسلاف کو تو یاد کرتے ہیں ان کے کارنامے بیان کرتے ہوئے ہماری زبانیں نہیں تھکتی ہم گفتار کے غازی تو کہلا سکتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ کردار ادا نہیں کرسکے ہیں جس کا تقاضا یہ چمن ہم سے کر رہا ہے اس وقت ہم انتشار کا شکار ہیں،

 نومبر 1947کا گلگت بلتستان اور نومبر 2011 کاگلگت بلتستان جس کے اب سات اضلاع بن چکے ہیں اور اس علاقے کواب اس کے پرانے نام گلگت بلتستان سے پکارا اور جانا جاتا ہے ہے جو یہاں کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ بھی تھا کہ اس کو شناخت دی جائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ حکومت نے اب اس علاقے کے لوگوں کو خوداپنی حکومت بنانے کا موقع بھی فراہم کیا ہے اب یہاں کی مقامی حکومت اس علاقے کی ترقی میں اپنا کردار کیسے ادا کر رہی ہے وہ بھی یہاں کے عوام بخوبی جانتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں یہاں حکومت کی کارکردی اور کارناموں کا ذکر مقصود نہیں گلگت بلتستان کی آزادی کی کہانی بھی بڑی مظلوم کہانی ہے یہاں کے باسیوں نے ایک لمبا سفر غلامی سے آزادی کا سفر طے کیا تھا لیکن ان باسیوں کو پھر آزادی سے غلامی کا سفر طے کرا یا ا جا رہا ہے پہلے یہاں کے عوام سکھوں اور ڈوگروں کے غلام تھے لیکن آج ہم اس غلامی سے بھی زیادہ اور خطرناک فرقہ پرستی اور تعصب کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں جو ہمارے لئے نہ صرف خطرات کا پتہ دے رہی ہے بلکہ ہمیں اپنی موت آپ مرنے کی طرف لے کے جا رہی ہے۔یہ سب کیوں ہے صرف اس لئے کہ وہ مقصد اور وہ جذبہ جس کے تحت ہمارے اسلاف نے ڈوگروں کی غلامی سے ہمیں آزادی دلائی تھی اسے ہم نے فراموش کر دیا ہے ۔ہم نے اپنی آزادی کی ابھی تک صحیح قدر اور قیمت جاننے کی کوشش نہیں کی ہے ہم نے اپنی آزادی کے دن کو ایک رسم بنایا ہے ایک ایسی رسم کہ بس چنار باغ میں جمع ہونا ہے شہیدوں کی یادگار پر پھول چڑھانا اور ایک لمبی تقریرجھاڑنے کو ہی اپنافرض سمجھا ہوا ہے ۔ہمیں یہ بھی گلہ ہوتا ہے کہ دشمن ہمیں ایک ہونے نہیں دیتا کیا ہم نے خود کبھی ایک ہونے کی کوشش کی ہے؟ کیاکبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم نے اپنے عمل سے اس علاقے کو جو حق تھا وہ ادا کیا ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے ۔ہاں ہم نے ایک کام جس کی مثال پیش کرتے ہوئے ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں وہ کام اور کارنامہ یہ ہے کہ ہم نے اس علاقے کو نفرتوں کے سوا دیا کیا ہے؟۔ اس علاقے کو لوٹنے کے سوا کیا کیا ہے؟ ۔ اس علاقے کی بدخواہی کرنے کے علاوہ کیا کیا ہے؟ ۔

علاقے میں موجود ہر سہولت سے فائدہ اٹھانے کے باوجود گن کسی اور کے گاتے ہیں ۔ہمیں اپنا احتساب کرتے ہوئے اس روش کو ختم کرنا ہوگا اب اتحاد اور اتفاق کی کہانیاں سنانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ عمل کا وقت شروع ہوناچاہئے صرف آزادی کا دن منا کر یا چند الفاظ کسی کی شان میں کہہ کر یا کوئی اچھا مضمون لکھکر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنا فرض نبھایا ہے ہمیں اتحاد و اتفاق کی جس قدرضرورت آج ہے شاہد پہلے کبھی نہ تھی گلگت بلتستان اور اس کے دوسرے اضلاع اس وقت تک معاشی و معاشرتی اعتبار سے مضبوط نہیں ہوسکتے جب تک ہم سب اپنے باہمی اختلافات کو مٹا کر اپنے اسلاف کی طرح یک جان نہ ہو جائیں ہمیں دو محاذوں کے لئے یک جان ہونا ہے ایک اندرون دشمن جو ہمین فرقہ پرستی میں مبتلا کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لئے بیرونی دشمن کا آلہ کار بنا ہوا ہے دوسرا یہ کہ بیرون دشمن جن چالوں سے ہمیںکمزور کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہے ان کو سمجھ کر ناکام بنانا ہے ۔ آزادی گلگت بلتستان کی یاد تازہ کرنے ،ان جذبوں کو اپنے اندرسمونے، اپنے آپ کو دنیا میں سر بلند رکھنے ،اور اتفاق و ا تحاد کی قوت کو بڑھاوا دینے کے لئے ایک مرکز پر جمع ہونا پڑیگا کیا گلگت بلتستان کی آزادی کو متنازعہ بنا کر ہم اپنے اس علاقے سے غداری نہین کر رہے کبھی اسے الحاق پاکستان کا نام دیا جا رہا ہے کبھی اسے یوم یکجہتی پاکستان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کبھی کچھ غرض گلگت بلتستان کی آزادی کی اہمیت اور یہاں کے لوگوں کی قربانیوں کو سبوتاز کرنے کی مذموم سازش کی جارہی ہے.

کیا یہ جشن ہے کہ چوری چھپے چنارباغ میں قابض صوبائی حکومت چند پولیس کی سرکردگی میں پھولوں کی چادر چڑھا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکتی ہے۔ آج کی نوجوان نسل اور اس علاقے کی نئی پود اپنے اسلاف کے کارناموں سے نابلد ہے انہیں تو چنار باغ میں موجود شہیدوں کی یاد گار کا بھی علم نہیں پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنی آزادی کا جشن منایا ہ ہمیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو اس اہم دن کی اہمیت سے جان بوجھ کر دور رکھا جا رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ یکم نومبر کو عوامی سظح پر منانے کے بھرپور انتظامات ہونے چاہئے اور چنار باغ کو آزاد کرکے اسے عوام کے لئے کھول دیا جائے تاکہ عوام جان سکے کہ اس دن ہمارے آبا و اجداد نے اپنے جانوں کا نذرانہ دے کر ہمیں آزادی کی نعمت سے روشناش کرایا تھا اور جب تک ایسا نہیں ہوگا اس علاقے میں کبھی مذہبی اور کبھی قومیت پرستی، اور کبھی لسانی بنیادوں پر علاقے کے دشمن اور موجودہ صوبائی حکومت کے ارکان جن کو صرف وزارت اور پیسہ بنانے سے غرض ہے ہندوﺅں کی طرح ہمیں اپنے غلام بناکر پاکستانی حکومت کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہینگے ہم پہلے بھی پاکستانی تھے اب بھی ہیں اور ہمارا مستقبل پاکستان ہے لیکن ایک غلام کی طرح نہیں بلکہ ایک باوقار قوم کی طرح یہاں کے لوگوں کو اپنی آزادی کا دن شاہان شان طریقے سے منانے کی اجازت ہونی چاہئے یہاں موجود ہر این جی اوز اور اداروں کو چنار باغ میں جاکر اپنے شہیدوں کو سلام اور خراج عقیدت پیش کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے عوام کو شامل کئے بغیر جشن آزادی گلگت بلتستان کا حق صحیح معنوں میں ادا نہیں ہوگا اور جب ایسا نہیں ہوگا تو جس طرح آج چنار باغ میں شہیدوں کی یاد گار نظربند اور قید ہے اسی طرح چند سالوں کے بعد گلگت بلتستان کی آزادی کی کہانی صرف کتابوں تک محدود رہ جائینگی جو ہمارے لئے کسی المیہ سے کم نہ ہوگا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت اس بارے اپنا فرض پہچانے اور اسکے لئے دور رس اقدامات اٹھانے کی کوشش کرے ورنہ تمھاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں.

Related Articles

One Comment

  1. I do agree with the views of the author. I have a suggest for the members of GB Assembly that they should show thier courage and prepare a GB FLAG as other nations have their own flags which influence and get their people united. A GB FLAG will unite the people.

Back to top button