دیامر بھاشہ ڈیم: بیش بہا آثار قدیمہ کی حفاظت کون کرے گا؟ ناصر اللہ بیگ
گلگت بلتستان ميں ديامر بھاشا ڈيم,سدپارہ ڈيم اور جگلوٹ ڈيم بنائے جارہے ہيں ان سب ڈيموں پر عوام کو اعتماد ميں لئے بغير کام ہورہا ہے. بالخصوص ديامر بھاشا ڈيم کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کو نظر انداذ کيا جارہا ہے.
سنگى فاونڈيشن کے ايک سروے کے مطابق مجوزہ ڈيم سے گلگت بلتستان لوگوں کو بہت نقصان ہوگا جن کى مختصر تفصيل ذيل ہے؛
– ڈيم کی ذد ميں گلگت بلتستان کے 88 آثار قديمہ کے مقامات آئیں گے، جن ميں68 کندہ چٹانوں کے کمپلکسس بھى شامل ہيں. کل 5157 پھتروں اور چٹانوں پر 187 ,36 عبارتيں اور نقشے کنندہ ہيں. جن ميں 3610 ناياب زبانوں کي لکھائى شامل ہے. جو کہ پچاس ہزار سال پرانى ہيں. ان کے نيست و نابود ہونے کو ماہرين نے گلگت بلتستان کے لئے بہت بڑا الميہ قرار ديا ہے.
– ڈيم مکمل طور پر دريائے گلگت بلتستان پر بنايا جارہا ہے. جس سے ضلع ديامر کے 72 گاوں مکمل طور پر صفحہ ہستى سے مٹ جائيں گے. اور28 ہزار لوگ بے گھر ہو جائيں گے.
– 52.1 بلين امريکن ڈالر سے بننے والا ديامر بھاشا ڈيم دنيا کا سب سے مہنگا ڈيم ہوگا جو 00 45 ميگا واٹ فراہم کرے گا.
– ڈيم مکمل طور پر گلگت بلتستان ميں بن رہا ہے صرف پاور ہاؤس صوبہ خيبر پختنخواہ ميں نصب ہونگے. ان سب کے بعد بھى حکومت گلگت بلتستان کو پچاس فيصد رائلٹى دينے کوبھى تيار نہيں ہے. يہ ظلم نہيں تو اور کيا ہے. جب حقوق کے لئے پر امن احتجاج ہوا توبے گناہ لوگوں پر گولياں برسائيں گئے. يہ دہشت گردى نہيں تو اور کيا ہے.
کالا باغ ڈيم کا مسلہ کہیں دہائيوں سے ايونوں ميں لٹک رہا ہے لیکن اسلئے نہيں بنايا جارہا ہے کہ عوام راضى نہيں ہے. مگر ديامر ڈيم بناتے وقت گلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد ميں نہ لينا اس بات کى عکاسى کرتى ہے کہ پاکستانى سياست دان گلگت بلتستان کے عوام کو کچھ سمجتے ہى نہيں ہيں.