گوشہ اردو

انداز گفتگو

تحریر: محمدجان رحمت جان
mohdjan21@gmail.com
انداز بیان کے دو پہلو ہیں. ایک مثالوں اور کنایوں میں بیان کیا جاتا ہے دوسرا سیدھا سادا اور صاف صاف۔ اِن دونوں کے استعمال کا انحصار معاشرتی رویوں پر ہے۔ کچھ معاشرے ایسے ہوتے ہیں جن میں سادگی پنبتی ہے اور کچھ میں ہمیشہ اشارے کناریے مستعمل ہوتے ہے۔ احکامات‘ نصیحتیں‘ کہانیاں اس کے علاوہ ہے۔ ان ہی اداﺅں کو بعض لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ گفتگو کہتے ہیں۔ وقت اور حالات سماجی رویوں کو متاثر کرتے ہیں اور اِس وجہ سے گفتگو کا انداز بھی بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے طورپر سرد علاقوں کے لوگ عموماََ یہ دعا دیتے ہیں کہ’اللہ آپ کو گرمی نصیب کریں‘جبکہ یہ دُعا گرم علاقوں میں مناسب نہیں۔ گرم علاقوں لوگوں کا رویہ گرمی کی نسبت سردی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ کسی اچھے کام پر کہتے تھے کہ’اللہ آپ کو درجن سے زیادہ اولاد عطاکریں ‘جبکہ آج کل مناسب نہیں سمجھاجاتا۔
پہلے زمانے میں کسی غلط کام پر سیدھے ہی تنقید کی جاتی تھی لیکن آج کل ایسا کرنا ٹھیک نہیں۔ اس لئے تعلیمی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک خوبی کاذکر کرنے کے بعد خامی بتائی جائے۔ اولاد کی تربیت سخت نظم وضبط سے کی جاتی تھی آج کل سخت روّےے کی بجائے دوستانہ ماحول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قدیم شعراءاور ادیب مشکل الفاظ کے استعمال کو ادب کی خوبی سمجھتے تھے جدید معاشرے میں سادہ اور معنی خیز جملے پسند کئے جاتے ہیں۔ یہ کہانی ساس بہو کی طرح ہے اکثر ساس اپنی بہو کو کچھ کہنا ہو تو بیٹی سے مخاطب ہوکر کہا کرتی ہیں۔ دانا بہو نہ ہو تو ساس کی نصیحتیں ضائع ہوجاتی ہے۔ یہی سلسلہ

محمد جان رحمت جان

استاد سے عالم دین تک جاتا ہے۔ کچھ اساتذہ اور عالم دین ہمیشہ اشارے اور کنایوں میں باتیں کرتے ہیں۔ مشکل کلمات اور استعارے وعظ ونصیحت کے لئے پسند کئے جاتے تھے ۔ جس کی وجہ سے وعظ کا چوتھا حصہ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ استاد کی لکچر کا ساٹھ فیصد اشعار اور فارسی مثالوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ عالم کی فصاحت اور بلاغت کا انحصار مشکل سے مشکل کلمات پر مبنی تھا۔ دور حاضر کے تقاضے کچھ مختلف ہیں۔

گفتگوکی حکمت اور دانائی کا معیار پیغمبر آخرزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا” کلم الناسُ علیٰ القدرِ عقولہ “ یعنی لوگوں سے اُن کی  عقلی میعار کے مطابق بات چیت کیا کرو‘۔ آج جدید دور کے ماہرین بھی اِسی بات پر زور دیتے ہیں کہ سامعین کو ان کی عقلی میعار کے مطابق گفتگوکیا جائے۔دور افتادہ دیہاتوں کے سادہ لوح لوگوں کے سامنے کوئی فلسفی انداز اور عالمی سیاسی و سماجی حالات پر تبصرہ شروع کریں تو اس انداز بیان کا کیا اثر ہوگا؟اس طرح فلسفہ جھاڑنے سے اصل حقائق مسخ ہوتے ہیں۔ لوگوں کو اُن کی ضرورت کی باتیں بتائی جانی چاہئے۔ جہاں دکاندار ہے وہاں تجارت کی باتیں ہوں اور اُسی تناظر میں دینی ہدایات مناسب ہے۔ جہاں زمیندار ہیں اُن کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کا اپنا تقطہ نظر ہوتا ہے۔ الغرض اعلیٰ تعلیم یافتہ اور وسیع النظر لوگوں کے بیج گفتگو کا انداز مخصوص ہوگا۔ یہی نہیں ہمارے ملک میں تو عجیب صورت حال ہے سیاسی و سماجی شخصیات عوامی اجتماعات میں جو دوردراز علاقوں میں ہو یا مرکزی علاقوں میں انگریزی زبان یا اردو انگریزی میں گفتگو کیا کرتے ہیں حلانکہ عوام میں بہت کم اِن زبانوں سے واقف ہوتے ہیں۔ گفتگو ہی انسان کی پہچان ہے۔ آمنے سامنے گفتگو سے پچاس فیصد مسائل خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے کوئی غلط فہمی ہو تو اُس کا ایک ہی حل ہے کہ مل کر ان کے بارے میں بات چیت کی جائے۔
شیرین زبانی انسانیت کا علمبرداد ہے۔ جو شخص زبان کے استعمال میں محتاط رویہ اپناتے ہیں یا اُن کی زبان پر دوسروں کے لئے صحیح برتاﺅ کا عنصر ہے تو اُسی سے سب محبت کرتے ہیں۔ خوش اخلاقی کی بنیادوں میں سے ایک اچھی گفتگو بھی ہے۔اس لئے قرآن پاک نے حکم دیا ہے کہ”لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آﺅ“ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمارے معاشرے میں امن کی بنیادیں فراہم کر سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال کے بعد جب ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو یہی صورتحال ہے۔ تم شہر محبت کہتے ہو‘ ہم جان بچا کر آئے ہیں۔ ایک دوسرے خلاف بولنا تقریروں میں عجیب وغریب الفاظ کا استعمال ہمارے معاشرے میں فساد پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔ دینی مجالس ہو یا سماجی تقریب بولنے والے اجتماعی بات کرنے کی بجائے گروہی گفتگو کرتے ہیں۔ مخالفین اور دوسروں پر جتنا زیاد کھچڑ اچھالتا ہے اُسی تقریر کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔ نعرے اور کلمات کا مناسب استعمال ہمارے معاشرے کی امن میں کردار ادا کرسکتا ہے اس لئے گفتگو کرتے وقت ہر ایک کی ضرورت اور معاشرتی امن کا خیال رکھنا چاہئے۔اپنوں کی خوشی کی خاطر دوسروں پر جملے کسنا دانائی نہیں۔ بعض مقریرین ماضی کے اُن واقعات ہی کو اچھالتے رہتے ہیں جو کبھی گروہی تقسیم کا سبب بنے ہیں۔ کوئی بھی ماضی کے اچھے واقعات کی یاد نہیں دلاتے ہیں یہ ہمارے عالموں اور سیاسی مقریرین کی عادت بن گئی ہے جس کی وجہ سے امن کی بجائے شر کو تقویت ملتی ہے۔ زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنے رویے کو بدلنا چاہئے۔
انداز بیان گرچہ میراسوخ نہیں ہے‘  …….. شاہد کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات۔

Related Articles

Back to top button