گوشہ اردو
عشق رسول کی اہمیت
تحریر: محمدجان رحمت جان
صحرائے عرب کے تنگ و تاریک اور جہالت کے گٹھاٹوپ اندھرے کو شمع ہدایت سے روشن کرنے والے نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسانیت کو معراج انسانیت دیکھائی۔ جہالت و افلاس میں پھیلے سماج کو اس طرح منور کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے چراخ ہدایت کی روشنی عرب سے عجم تک جا پہنچی۔ مختصر عرصے کی یہ نشر واشاعت دشمنوں اور کفار کو راس نہ آئی جس کی وجہ سے روز اوّل سے ہی انہوں نے اسلام کے سامنے طرح طرح روڑے اڑکائے اور نبی اکرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنگ کرنا شروع کیا۔ کفار نے آپ پر کوڈا کرکٹ پھنکا‘ گھر سے شب ابی طالب میں پناہ لینے پر مجبور کیا دین اسلام کی تبلیغ سے دستبردار ہونے پر دولت و شہرت کی پیش کش کی لیکن سرور کونین کے سامنے ایک مقصد تھا اور وہ مقصد ایک اللہ کا پیغام انسانیت کے نام۔ آپ نے تمام مسائل اور مصیبتوں کے باوجود دین حق کے پیغام کو دن رات کی محنت سے پوری دنیا میں پھیلایا۔ آپ نے اپنی زندگی میں کفار سے درجنوں جنگیں کی دین کی خاطر مکہ سے مدینہ ہجرت کیا۔ تیئس سال کی تکالیف اور مصیبتوں کے باوجود دین اسلام کا پرچم اس طرح بلند کیا کہ آج پوری دنیا میں اسلام کا پرچم روز بہ روز بلند ہوتا جارہا ہے۔
اس کامیابی پر کفار کو شروع ہی سے ہی دکھ ہے جس کا اظہار وہ طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے کرتے آرہے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ اور آئمہ اطہار ؒ کے زمانوں میں بھی اسلام کو اس نوعیت کے مسائل درپیش ہوئے لیکن سب نے احسن طریقے سے ان کا مقابلہ کیا۔ کفارنے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کےلئے کیا کیا نہیں کیا اور آج تک کررہے ہیں۔ یہی نہیں وہ ہمیشہ مسلمانوں کی جذبات سے کھیلتے رہے ہیں کبھی پاک رسول کے کاٹون بناکر اپنے ناپاک عزائم کی نمائندگی کرتے ہیں کبھی فلمیں بناکر۔ ان کی غلاظت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے آزادی کے نام پر خود اپنے عقائد کا بھی تمسخر کیا ہے۔ نام نہاد آزادی کو وہ پوری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اور بعض مغربی نجی ادارے ان کی پر چار میں پیش پیش ہے۔ انسانی حقوق کے نام سے اپنے پوشیدہ عزائم کے حصول میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ عناصر ہر طرح سے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش میں ہے اور ہر زمانے میں مختلف انداز میں اسلام کے خلاف مختلف مہم چلاتے رہے ہیں۔ خلفائے راشدین سے لیکر مسلم حکمرانوں تک سب نے ان کا مقابلہ بھی کیا اور علماءکرام نے ایسے مواقع میں اپنی قلم سے دین کی اس طرح خدمت کی کہ اسلام کے اصل چہرے کو اُن کے سامنے پیش کیا۔ موجودہ حالات میں بھی کفار دین اسلام کی عظمت سے خوف زدہ ہوکر اوچھے ہتکھنڈے کرتے رہتے ہیں۔ گستاخانہ خاکے اور موجودہ فلم کے ذریعے بھی وہ اپنے ان شیطانی کرتوتوں کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے کہ جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کی ذکر کرنے سے منع کرتے ہیں اور ان کی ویرانی میںساعی ہو؟ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہو مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور اخرت میں بڑا عذاب ہے“(البقرہ :۴۱۱)۔
پورپ سے مانوس چند لوگ آزادی کے نام سے کیا کیا چاہتے ہیں لیکن آزادی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ میڈیا کو اپنے حد میں آزادی ملنی چاہئے۔ ایک دوسرے کی عقائد کا احترام ہر ایک مذہب کا اصول ہے لیکن بدبخت آدمی کو اپنے دین کا بھی علم نہیں۔ ملعون اور شیطانی ذہنیت والے پادری نے جوکام کیا ہے اِس کے خیالات سے ہی ملعونیت اور شیطانیت ٹپک رہی ہے۔ بے دین لوگوں کا یہی کام ہوتا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جب موسیٰ ؑ نے ہدایت اُن کو دے دی تو پھر بھی شرک کرتے رہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”اور موسیٰ علیہ سلام تمہارے پاس کھلے معجزے لیکر آئے تو تم ان کے(کوہ طور پر جانے کے بعد) بچھڑے کو معبود بنابیٹھے اور تم اپنے ہی حق میں ظلم کر بیٹھتے ہو“(البقرہ:۲۹)۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کی یہ عادت بہت قدیم سے چلی آرہی ہے کہ وہ حق کو ہمیشہ باطل بنانے کی ناپاک سازش کرتے رہے ہیں۔ ملعون شخص نے گستانہ فلم میں جو جسارت کی ہے وہ ناقابل برداشت اور ناقابل رحم ہے۔ کسی کے عقیدے کے ساتھ یوں مذاق کرنا انسانیت ہی کی توہین ہے۔ ایسے شخصیت کی سزا موت اور جہنم ہے بھلے وہ جس قوم‘ رنگ یا مذہب کا بھی ہو۔ عالمی اداروں کو مذاہبی ہم آہنگی کےلئے قوانین وضع کرنا چاہئے۔ تمام مذاہب کے بانیوں اور راہنماﺅں کی تذلیل کرنے والے کو کڑی سزا دینی چاہئے۔ تمام پیغامبروں اور مذہبی ہستیوں کی توہین کرنے والے کو عبرت ناک سزا ملنی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کا سوچ بھی نہ سکیں۔
اس موقع پر تمام مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ انتہائی نظم وضبط کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح احتجاج کریں کہ ان کی احتجاج رنگ لے آئے۔اپنے املاک اور سرکاری اثاثوں کا جلاﺅ گھیراﺅ سے دشمن اور مضبوط ہوگا۔ پرامن اور معنی خیز احتجاج اور علم و عمل سے بنی کریم کی تعلیمات کی عکاسی کرنا چاہئے تاکہ ملعونوں پر ثابت ہو کہ کہ وہ باطل اور ناحق ہیں۔ مسلمانوں پر ایسے مواقع امتحان سے کم نہیں۔ ہمیں اپنے صفوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہئے۔ یوم عشق رسول کے موقع پر بھی ہم ایک نہ ہوسکیں ہر ایک اپنے جھنڈے تلے روڑ پر آئے جس سے اسلام کی کمزوری نظر آئی گی۔ اس مبارک نام پر تو ہمیں ایک ہونا چاہئے ایک پاکستانی علم تلے ہمیں یہ احتجاج کرنا چاہئے تھا۔ اپنے نبی کی عشق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک ہوجائیں۔ فروعاتی چند اختلافات کو بھول کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ اپنے صفوں میں اتحاد قائم کریں۔ استین کے سانپوں کو موقع نہ دے کہ وہ اچھے برے وقت میں اپنے کرتوت دیکھائے۔ علماءاور زعماءکے ساتھ ساتھ سیاسی راہنما بھی یکجہتی کے ساتھ ایک پاکستانی علم تلے ایک مذہب اور ایک قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ ” اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو اور متفرق نہ ہوجاﺅ اور اللہ کی اس مہربانی کا یاد کرو جب آپ ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اس پہلے تم آگ کے گڑھے تک پہنچ چکے تھے اللہ نے تم کو بچا لیا اس طرح اللہ تم پر اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاﺅ“(آل عمران ۳۰۱)۔ ہمیں ایسے عالمی احتجاجی موقعوں پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ دشمن پر واضح ہو کہ ہم ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے اس پورے احسان کا صرف ایک ہی بدلہ مانگتا ہے کہ ہم آپ اور آپ کی آل و سنت سے محبت رکھیں۔ فرماتے ہیں” قُل لا اسئلُکم عَلیہ اَجراََ اِلا المود ة فی القربا ط ومن یتقرف حسنةُ نذد فیھا حسناََ ط ان اللہ غفور شکورُ۔ (۳۲:۲۴) ”(اے رسول )کہہ دو کہ میں اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا ،سوائے اس کے کہ میرے اقرباءسے محبت رکھو۔ اور جو کو ئی نیکی کمائے گا ہم اس کیلئے اس میں نیکی زیادہ کرینگے یقینا اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑا قدر دان ہے“۔
اس حقیقت کی جانب علامہ اقبال ؒ نے اشار ہ کیا ہے؛ ”کی محمد سے و فا تو ہم تیرے ہیں ‘یہ جہاں چیز ہی کیا لوح قلم تیرے ہیں“۔ اس پیغام کے ساتھ کہ رسول کریم نے ہمیں ایسے موقع پر جس طرح کے روّے کا حکم دیا ہے ہمیں ایسا کردار ادا کرنا چاہئے۔ جیساکہ فرماتے ہیں” وَ مَا اٰ تٰکُمُ الرَلُ فَخُذُ ہ ق وَمَا نھٰکُم عَنہُ فَا نتَھُو ج (۹۵/۷) ”اور جو کچھ تمہیں رسول نے دیا اسے لے لو اور جس سے اس نے منع کیا اسے رک جاﺅ “۔ آج ہمیں اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا ہم اپنے دین سے مخلص ہیں؟کیا ہم اپنے عبادات و تعلیمات کے پابند ہیں؟ کیا ہم عشق رسول کا حق ادا کررہے ہیں؟