گوشہ اردو
مولانا عطااللہ شہاب کی تصنیف “شیخ الہند کے دیس میں سات دن” شائع ہو گئی
اسلام آباد (پریس ریلیز)شیخ الہند کے دیس میں سات دن کے عنوان سے مولانا عطاءاللہ شہاب کی کتاب کی تقریب رونمائی میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے سینیٹرمولانا غفور حیدری سیکریٹری جنرل جمیعت علمائے اسلام پاکستان نے کہا ہے کہ حضرت شیخ الہند صرف مسلمانوں کے لیڈر نہیں بلکہ برصغیر میں بسنے والے تمام افراد کے لیڈر تھے۔ شیخ الہند کی جدوجہد کا بنیادی مقصد اس خطے کی آزادی تھی۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جناح صاحب کا خواب سیکولر بنانے کا تھا مولوی حضرات غلط کہ رہے ہیں ۔کیا علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر علماءنے کس نظرئیے کے تحت جناغ کا ساتھ دیا تھا۔کراچی میں 20 افراد کو روزانہ قتل کیا جاتا ہے جناح نے کیا اس طرح کے پاکستان بنانے کا تصور پیش کیا تھا۔کراچی میں جو کچھ ہوتا ہے اس میں طالبان نہیں وہ جماعتیں شامل ہیں جو حکومت میں ہیں اور حکومت کا حصہ ہیں۔ دارالعلوم کراچی اور دیگر مدرسوں میں بغیر پوچھے رینجرز کا داخل ہونا اور تقدص کو پامال کرنا ایک سازش ہے۔بوری بند لاشوں اور بھتہ خوری کا سلسلہ طالبان کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر قوتوں کی وجہ سے ہوا۔مدرسوں میں 30 لاکھ طلبہ مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔انکو سرپرستی کے بجائے انہیں تعلیم سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے ہم اسے اسلامی فلاحی ریاست بنا کر دم لینگے ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عطاءالرحمن سابق وزیر سیاحت نے کہا کہ مولانا عطاءاللہ شہاب کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ وہ قلم کتاب سے واقفیت رکھتے ہیں لیکن کیمرے سے وابستگی کے بارے میں اس سفر میں معلوم ہوا۔کئی مرتبہ ہندوستان کے سفر ہوئے لیکن اس سفر میںعلمائے دیوبند کے ساتھ گفتگو اس سفر کی ناقابل فراموش باتیں تھیں۔جمیعت علمائے اسلام نے پورے 2012 کو شیخ الہند کا نام دیا ہے ۔ہر صوبے میں سینکڑوں پروگرام شیخ الہند کے نام سے منعقد کیا ہے۔2013 کے اوائل میں حضرت شیخ الہند کے نام سے نیشنل سطح پر پروگرام منعقد کیا جائے گا۔آج ہمارے نوجوانوں کو جو پڑھائی جاتی ہے انمییں صرف دو شخصیات کا تزکرہ کیا جاتا ہے جس میں ایک نے خواب دیکھا اور دوسرے سے ملک بنایا جبکہ شیخ الہند چاہتے تھے کہ پورے ہندوستان کو آزاد کرائے جائے۔صرف پاکستان کی حد تک نہیں ۔ہمارے اکابر کے مطابق کہا جاتا ہیکہ ہمارے اکابر نے پاکستان کی مخالفت کی بلکہ ہمارے اقابر نے تقسیم کی مخالفت کی تھی۔65 سالوں میں ایک دن بھی اسلامی نظام آجاتا تو میں قوم سے مافی مانگتا۔ہم نے دو قومی نظرئے کے تحت حاصل کیا لیکن اسلامی ملک نہیں بنا سکے۔ضرورت اس بات کی ہے ہم پورے برصغیر کو ایک قوم نہیں بنا سکے تو ہم اس ملک کے شہریوں کو پاکستانی قوم بنا سکیں ۔ داد دیتا ہوں مولانا عطاءاللہ شہاب صاحب کو مختصر دورے کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے شیخ الہند کے دور کی یاد تازہ کی۔
اپنی کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا عطاءاللہ شہاب مصنف و مشیر برائے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان اور گلگت بلتستان کی اہم شخصیات کی تقریب میں شرکت کر کے ہمارے لئے قابل صد افتخار ہے۔ شیخ الہند اور دارالعلوم دیوبند سے انتہائی محبت اور رغبت شروع دن تھی۔تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے یہ خواہش تھی کہ اس دیس کا جائزہ لوں۔روز و شب لکھے اور کتاب کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کیا۔13 سفرناموں میں قابل مشترک بات یہ تھی کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے۔ شیخ الہند کا تعلق اس دور سے تھا جو دور متنازعہ نہیں تھا۔منزل کی تلاش ،گلگت سے اڈیالہ تک کے نام سے کتاب لکھی۔ہندوستان کی رنگینیوں میں گم ہونے کے بجائے وہاں کے فکر انگیز پہلو کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے ۔ پاکستانی ہونے پر آج تک کسی پاکستانی نے فخر نہیں کیا۔جبکہ ہندوستان میں لوگ ہندوستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔کتاب کا رشتہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔جدید دور کی ٹیکنالوجی نے انسان کو کتاب سے دور کیا ہے۔مولانا فضل الرحمن صاحب بیمار تھے ان سے ملاقات ہوئی لیکن انکی طبیعت ایسی نہیں تھی کہ وہ اس پروگرام میں شرکت کر سکیں۔ہمیں چائیے کہ اجتماعی مسائل کو طاقت کے بجائے اتحاد و اتفاق سے حل کریں
۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورخورشید احمد ندیم نے کہا کہ شیخ الہند کا دیس صرف بھارت نہیں بلکہ پورا بر صغیر انکا دیس ہے۔انکی جدوجہد کا ہم آج بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ آج ملا اور مسٹر کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والاشیخ الہند کا جانشین ہوسکتا ہے۔مولانا عطاءاللہ شہاب کی کوشش سے استتفادہ حاصل کر سکتے ہیں ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاوید صدیق سنئیر صحافی نے کہا کہ مولانا عطاءاللہ شہاب صاحب علم ،پرکشش شخصیت کے طور پر پایا ہے۔فکر انگیز سفر نامہ ہے۔شہاب نے کمال ہنر مندی سے سات دنوں کے مشاہدات کو اس طرح سے قلم بند کیا ہیکہ قاری انکو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کے بارے میں پر اثر تصویر کشی کی ہے۔
تقریب سے اپنے خطاب میں پارلیمانی سیکریٹری محبوب اللہ جان نے کہا کہ مولانا عطاءاللہ شہاب کو مبارک باد پیش کرتاہوں کہ انہوں نے وقت کو کھویا نہیں اس موقع سے بھر پور استفادہ کیا۔اپنے خطاب میںمہ تاب احمد خان چیف ایڈیٹر روزنامہ اوصاف نے کہا کہ کتاب کا مطالعہ کرنے سے یہ محسوس ہوتا ہیکہ آپ خود ہندستان میں موجود ہوں۔بہت اچھی کوشش ہے ۔مولانا فضل الرحمن صاحب تیسری قوت کے بارے میں وضاحت کی جائے تو یہ قوم کیلئے بہتر ہوگا۔آپس میں تقسیم سے پاکستان میں امن سے رہنا ناممکن ہے۔تقریب میں ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان جمیل احمد،چئیرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی رضی الدین رضوی ،وزیر صحت حا جی گلبر خان ،ممبر قانون ساز اسیمبلی رحمت خالق،پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان ،سیاسی ،سماجی اور عوامی نمائندوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔