محمدجان رحمت جان
روئے زمین پر انسان کی آمد کے متنازعہ نظریات اور مختلف خیالات کے باوجود انسان ہمیشہ اپنی عقل و خرد سے اس عظیم بھید کو سمجھنے سے قاصر رہا ہے۔ سائنسی تحقیقات اور انسانی کاوشیں جاری ہے۔ انسان محض اپنی عقلی کوشش سے آج اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ وہ صرف اور صرف مادی اور دنیاوی ترقی کو ہی انسان کا مقصد سمجھنے لگا ہے۔ ماضی میں انسان عظیم ہستیوں اور مذہب سے معجزات کی طلب میں بضد رہا اور جس کسی نے معجزہ دیکھایا تسلیم کیا اور جس نے نہیں دیکھایا ماننے سے انکار کیا اور آج اس نہج پر ہے کہ جس نے تجربے سے ثابت کیا ٹھیک بصورت دیگر کوئی کسی کو سننے کو تیار نہیں۔ خیر انسان شروع سے نفسیاتی وسماجی مریض رہا ہے۔ بحرحال ہم آج یہ دیکھنے کی کوشش کرنگے کہ ایک زمانہ تھا کہ لوگ ایمان اور سچائی کی وجہ سے نیک اعمال میں مشہور تھے اور ہر کام صرف اور صرف خالق کی رضا اور ایمان کے تقاضے کی وجہ سے کرتے تھے۔ مذہب نے ہمیشہ یہ بات کی کہ خالق ہر جگہ موجود ہے اور وہی ہر کام کو دیکھتا ہے۔ اللہ ہی خالق ہے اس کی موجودگی میں ہمیں برے اعمال سے اجتناب کرنا چاہئے۔ لیکن مادیت سے بھرپور انسان اس بات کا منکر تھا کہ کوئی ہمیں دیکھتا بھی ہے؟
انسانی کوشش اور جدجہد کے بعد آخرکار کیمرہ نام کا ایک آلہ تیار کیا گیا جس نے انسانی تاریخ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں انقلاب آمیز جوہر دیکھائے۔ صدیوں کی محنت کے بعد اب کیمرہ سازی ایک عام صنعت بن چکی ہے اور نہ جانے کس کس قسم کے کیمرے بن چکے ہیں۔ سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان خالق کی قدرت کا بھی قائل ہوتا جارہا ہے۔ مجھے اس موضوع پر لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب ایک دوست نے اپنے کسی دوست کے بارے میں بتایا کہ کبھی کبھی لوگ کھولے عام رش والی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے تھے اور اب کیمرے کی وجہ
سے وہ اس”ہنر“سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم نے پچپن میں دینی سکول کے نصاب کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ” اللہ ہرجگہ موجود ہے“۔ کہانی یوں تھی،” ایک دفعہ ٹیچر بچوں کو سبق سیکھا رہا تھا ’کہ اللہ ایک ہے اور ہر جگہ موجود ہے‘ ایک دن استاد نے بچوں کو ازمانے کےلئے ایک ایک سیپ دیا اور کہا کہ ایک ایسے جگے پر اس سیپ کو کاٹ کے لاﺅ جہاں اللہ نہیں دیکھتا ہو۔ سب بچے چل پڑے اور ایک دو روز میں سیپ کاٹ کر حاضر ہوئے۔ کچھ نے سیپ الماری کے پیچھے جاکے چھپ کر کاٹی کسی نے بند کمرے میں سیپ کاٹ دی۔ کچھ طالب علم اندھیرے میں سیپ کو کاٹ کے حاضر ہوئے اور کہاکہ ہم نے ایسے ایسے جگہوں پر اپنے اپنے سیپ کاٹ دیئے جہاں اللہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ان میں سے ایک طالب علم بہت ذہن تھا وہ پورے ہفتے چلتا پھرتا رہا لیکن اُس نے دیکھا کہ ہر جگہ اللہ موجود ہے۔ وہ دریا کے کنارے گیا اس نے محسوس کیا کہ اللہ وہاں موجود ہے۔ وہ پہاڑ پر گیا‘ نالوں میں گیا‘ الماری کے پیچھے‘ بند کمرے میں‘ اندھیرے میں‘ غار کے اندر لیکن اُس کے ضمیر نے کہا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اس کی موجودگی میں سیپ کاٹنا ممکن نہیں۔ وہ جب سکول آیا تو سب بچے ہنس پڑے اور کہا ہم نے ایک ہی دن میں ایسی جگہ ڈھونڈ لی جہاں اللہ نہیں دیکھتا ہے آپ کو کیا ہوا؟ وہ بچہ استا د کے سامنے کہنے لگے کہ اللہ ہرجگہ موجود ہے۔ اس وجہ سے میں سیپ نہیں کاٹ سکا۔ استاد نے اُس بچے کو بہت بہت شاباش دی اور دیگر بچوں کو بھی سمجھایا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے لہٰذا اس کی موجودگی میںہم کوئی بُرا کام نہیں کرسکتے ہیں۔ جس کام سے اُس نے منع کیا ہے وہ ہمیں نہیں کرنا چاہئے۔
الغرض اس کہانی سے استاد نے یہ تصور دیا تھا کہ زندگی میں جب بھی کوئی کام کرو گے تو یہ یقین کرلیں کہ اللہ دیکھتا ہے۔ جب آپ ایسا کرینگے تو گناہ نہیں کر سکیں گے“۔ خوف خدا اور ایمان جب کسی کے سینے میں ہے وہ غلط کام نہیں کرسکتا لیکن ہم نے ان تمام اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا اور جب بھی موقع ملا ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ چوری‘ ڈکیتی‘ دھوکہ اور نہ جانے کیا کیا حربے اپنا لیا اور ان کو کمانے کا ذریعہ بنایا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سائنسی ترقی نے بھی ہمیں گھیر لیا اور ایمان کی خوف سے جو نہیں ڈرا اب کیمرے کی زد میں آیا۔ پہلے لوگ احتجاج اور جلسوں میں نہ جانے قومی اور ملکی اثاثے جلاتے گراتے تھے۔ اس موقع پر لوگ اپنے مذموم مقاصد کا حصول کرتے تھے۔ خوف خدا ان کے دل سے نکل چکا تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ اب اللہ تو بہت بڑی ہستی ہے انسان نے ہی اس کا انتظام کرلیا۔ پچھلے دنوں احتجاج کے دوران جاہل لوگ قوم کی جائیدادیں لوٹ رہے تھے‘ گاڑیوں کے شیشے توڈ رہے تھے‘ بجلی کے کھمبے‘ تار‘ بنک‘ دکانیں اور نہ جانے کیا کیا لوٹ لی۔ اگلے دن ٹی وی فوٹج‘ سی سی کمرے‘ موبائل اور دیگر جاجوسی آلات نے اں لوگوں کو گھیر لیا اور جیل پہنچ گئے۔ ان کو خبر بھی نہیں تھی کہ اُن کا ضمیر تو مرا ہوا ہے ان کے دل میںایمان کی نعمت نہیں وہ خوف خدا سے نہیں ڈرتے تھے۔ جب کیمرے میں ان کو ان کے حرکات دیکھائے گئے تو ششدر رہ گئے۔ اب سٹرک کے کنارے‘ بڑے بڑے دکانیں‘ شاپنگ ہال‘ پلازے‘ کمپنیاں‘ ہوٹل‘ جہاز‘ ریل گاڑیاں‘ سرکاری و نیم سرکاری دفاتر اور ذاتی گھروں میں لوگوں نے ایسے نامعلوم کمرے نصب کئے ہیں کہ کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت پکڑا جاسکتا ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے چور ڈاکو پکڑے گئے ہیں چھوٹے چھوٹوں کی بات ہی کیا ہے۔
کہنے کا مطلب سے کہ آج زمانے میں یا تو ایمان داری سے جینا ہوگا یا محنت مزدوری اور کوشش سے چور دروازوں کی زندگی اب پائیدار نہیں۔ پاکستان میں البتہ چند سال اور بھی موقع ہے لیکن جدید ترقی یافتہ ملکوں میں سائنس کے ایجادات نے انسان کا دائرہ تنگ کیا ہوا ہے۔ موبائل اور نٹ آپ جہاں کہیں بھی ہیں اس علاقے کی نشاندہی کرسکتی ہے۔ اب پہاڑ‘ دریا‘ جنگل‘ الماری کے پیچھے‘ اندھیرے میں یا کسی بھی جگہ آپ چھپ نہیں سکتے ہو۔ اب کیا کریں؟ ایمان داری یا کوئی اور راستہ؟؟ سورة توبہ آیت ۴۹ میں اللہ فرماتے ہیںکہ” اور جب تم اس کے پاس جاﺅ گے تو کوئی بہانہ نہیں کرسکوں گے اور نہی ہم آپ پر یقین کرینگے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ہر عمل کی خبر دی ہے‘ اللہ اور رسول آپ کے عمل کو دیکھیں گے۔ جب تم اس کی طرف پلٹ کے جاﺅگے تو وہ آپ کو ایک ایک چیز کے بارے میں بتائے گا جو تم کرتے رہے ہو اللہ ہر چیز سے باخبر ہے“ ایک اور جگہ سورة توبہ آیت ۵۰۱ میں فرماتے ہیں” اور ان سے کہو کہ وہ آپ اور آپ کے اعمال کے بارے میں سب جانتا ہے نہ صرف وہ بلکہ اس کے رسول اور مومن بھی دیکھتے ہیں۔ جب تم پلٹ جاﺅگے تو ہر چیز دیکھو گے اور آپ کے اعمال کا وہی حساب ملے گا“۔ اس طرح سورة بقرہ آیت ۷۷ میں فرماتے ہیں کہ”کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں خدا کو سب معلوم ہے“۔ ان آیات کریمہ اور واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دین اور دنیا میں اب وہی کامیاب ہوگا جو حق کے ساتھ محنت اور کوشش کریگا۔
دوسری طرف سائنسی ایجادات بھی انسان کا دائرہ تنگ کرچکے ہیں۔ کوئی بات اب چھپ نہیں سکتی ہے یہ بڑے بڑے کھمبے اور چھوٹے چھوٹے چپChip‘ میموری کارڈز ہر ایک کی ایک ایک حرکت اور آواز کو ریکارڈ کررہے ہیں۔ ہم نے جو موبائل جیب میں رکھا ہے یہی ہمارے اعمال کا جواب اور گواہ بھی ہے۔ کوئی خوشی یا غم اب محفوظ نہیں۔ اس صورتحال میں ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنے آپ کو سمجھے اور ایمانداری اور خوف خدا کے ساتھ ساتھ ان آلات سے بھی باخبر رہتے ہوئے زندگی گزاریں۔ کیا کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے کہ اب انسان اتنا آزاد نہیں جو کبھی تھا؟ انسانی سائنسی کیمرے اتنا کرسکتے تو اللہ کے کیمرے کتنے بڑے ہونگے؟ بقول اقبال:”امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں‘ اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں سینکڑوں نخل ہیں‘.
کائیدہ بھی‘ بالیدہ بھی ہیں، سینکڑوں بطن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں: نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا‘ پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا“
administrator
Pamir Times is the pioneering community news and views portal of Gilgit – Baltistan, Kohistan, Chitral and the surrounding mountain areas. It is a voluntary, not-for-profit, non-partisan and independent venture initiated by the youth.
Like this:
Like Loading...
Wonderful Jan sb…….like always.
Nature’s interventions would mediate to bring back the humanity on track.
ہاں بالکل وہ تو ہمارا ضمیر ہے جو ہر جگہ ہے۔ الللہ میاں کوئی بڑے بابا نہیں جو داڑھی کے ساتھ ہر جگہ موجود ہوں ۔ خدا تو انسان کے اندر کی اچھائی کا نام ہے اور شیطان انسان کے اندر کی برائی کا نام ہے۔ ویسے بھی جیسے جیسے عقل آرہی ہے ویسے ویسے انسان کا خدا کا کانسیپٹ بھی امپروو ہوتا گیا – ویسے بھی اب سب جانتے ہی ہیں کہ ذہانت اور مزہبیت ایک دوسرے کے متضادم ہیں۔ جیسے جیسے آئی کیو بڑھتا ہے ویسے ویسے ویسے مزہبیت کم ہوتی ہے اور لوگ جتنے مزہبی ہوتے ہی اتنا ہی ان کا آئی کیو کم ہوتا جاتا ہے۔ مزہبی لوگ جرائم بھی زیادہ کرتے ہیں ،جیلوں میں بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ یہ بار بار تحقیق سے ثابت ہے۔ وہ مجھے ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ علم تو موجود ہے ہر اس انسان کے لئیے جو اپنا دماغ اوپن کرے اور اس کو اندر آنے دے۔اور ہمارے کہنے سے آسمان پیلا نہیں ہوجئے گا وہ نیلا دکھتا ہے اور نیلا ہی رہے گا۔ اور سورج مشرق سے نکلتا ہے۔ وہ کیسے پتا ہے؟ آپ صبح اپنی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھ لیں۔