گلگت بلتستان اورعالمی گریٹ گیم
تحریر:صفدرعلی صفدر
گلگت بلتستان اس وقت عالمی منظرنامے پرایک انتہائی اہمیت کاحامل خطہ کی حیثیت سے ابھرتا جارہاہے اور خطے کی تاریخی ،جغرافیائی ،سیاسی اور دفاعی اہمیت عالمی تجزیہ کاروں کے لئے آج ایک نیاموضوع بن چکا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا خطے کی افادیت واہمیت اورمتنازعہ حیثیت کواجاگرکرکے عالمی قوتوں کے درمیان مفادات کی ایک نئی جنگ کوہوادینے میں سرگرم عمل ہے جس کے باعث خطے پرداخلی وخارجی انتشار، دہشتگردی ،فرقہ وارانہ فسادات ،فروعی ولسانی اختلافات ،نفرتوں اور طرح طرح کے بحرانوں کی شکل میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے جارہے ہیں جبکہ حکومت وقت اوردھرتی کے باسی ان تمام سازشوں کوسمجھنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات اورتنقید کے سواکچھ نہیں کرتے جوعالمی مفاداتی طاقتوں کے سامنے ہماری بہت بڑی کمزوری ثابت ہوتی جارہی ہے۔ آج کی اس تحریرمیں گلگت بلتستان کی تاریخی،جغرافیائی،سیاسی اوردفاعی حیثیت پرروشنی ڈالے بغیر خطے پرعالمی طاقتوں کے درمیان چھڑجانے والی سردجنگ کاتذکرہ کرنامناسب نہیں ہوگا۔
تاریخی حقائق کی روشنی میں برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے قبل خطہ گلگت بلتستان مختلف ادوارمیں مختلف طاقتوں کے زیرتسلط رہاتاہم بیسویں صدی کی ابتداء سے اس علاقے میں انگریز ،ڈوگرہ راج اور مہاراجہ کشمیرکی حکومت رہی اور یہ سلسلہ 1947ء تک چلاآتارہا۔ 14اگست 1947ء کوبرصغیر کی تقسیم کے بعدایک طرف پاکستان اوربھارت اپنی نئی ریاستوں کے حصول میں کامیابی کاجشن منارہے تھے تودوسری طرف گلگت بلتستان کے مجاہدین اپنی قوم کو خطے پرقابض غیر مقامی حکمرانوں سے آزادکرانے کی جنگ کے آخری منازل طے کررہے تھے اور کچھ عرصہ بعد یعنی یکم نومبر1947ء کو گلگت بلتستان کے عوام نے بھی ایک خودمختارریاست کے حصول کے خواب کوحقیقت میں تبدیل کردیا۔جس کے نتیجے میں ’’آزاد جموریہ گلگت‘‘کے نام سے دنیا کے نقشے پرایک نئی ریاست کااضافہ ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے جغرافیائی حساسیت اور قدرتی وسائل سے مالامال خطہ کی علیحدگی دشمنوں سے ہضم نہیں ہوئی اور ایک سازش کے تحت حکمران خطے کو غیرمشروط طورپر مملکت پاکستان میں ضم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس سلسلے ملک کے آئینی تقاضوں کوبھی یکسرنظراندازکیاگیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے خطے میں غیرمقامی افسرشاہی کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں اور دھرتی کے باسیوں کواپنے جائز حقوق کے مطالبات پر نام نہاد پیکیجز اور گورننس آرڈرز کے نام پرلولی پاپ دیکر ٹوپیاں پہنانے کی کوششیں کی گئیں۔ جس سے ایک مخصوص طبقے کے علاوہ عوام الناس کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اور عوام آئے روزمسائل کے گرداب میں پھنستے رہے۔
دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ ،کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے سنگم پرواقع 28ہزارمربع میل پرمحیط علاقہ سینکڑوں چھوٹے بڑے پہاڑ،گلیشئرز،بلندوبالا وادیوں ،وسیع میدانوں ،قدرتی جھیلوں،دریاؤں اورندی نالوں کے علاوہ بے شماراقسام کے قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے جبکہ خطہ اپنی جیوسٹریٹجک اہمیت کے حوالے سے جنوبی، مغربی اورسنٹرل ایشیاء کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے چین اور بھارت کے لئے ایشیاء کاگیٹ وے جبکہ مجموعی طورپرعالمی سطح پر دنیاکی چھت بھی کہلاتا ہے۔جبکہ محل وقوع کے لحاظ سے خطے کی سرحدیں مغرب میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے علاقے دیر،سوات،کوہستان اورکاغان ویلی سے ملتی ہیں ۔شمال مغرب میں واخان کی پٹی،شمال مشرق میں چین کاصوبہ سنکیانگ ،جنوب مغرب میں مقبوضہ کشمیر اور جنوب مشرق میں بھارت واقع ہے۔ خطے کے لوگ اپنی قدیم آبائی وعلاقائی روایات،رسم ورواج اور تہذیب وتمدن کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں اور خطے میں مذہبی اعتبارسے اسلام کے چاراہم فرقے،اہلسنت والجماعت،ملت جعفریہ،شیعہ امامی اسماعیلی اور نوربخشیہ مکتب سے تعلق رکھنے والے لوگ صدیوں سے بغیرکسی علاقائی ،فروعی،لسانی اور مذہبی تعصب کے ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات رکھتے آرہے ہیں تاہم 1988ء کی دھائی میں پاکستان میں آمریت کے دورمیں ایک منظم سازش کے تحت خطے میں فرقہ واریت کی بیج بوئی گئی اورفرقہ وارانہ تعصبات کے نام پر لوگوں کوآپس میں تقسیم کردیاگیا۔ جسکی سزاآج تک عوام بھگت رہے ہیں ۔خطے کے اندر مذہبی ہم آہنگی ،رواداری،استقامت اورصبروتحمل کے فقدان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی صدی کے آغازسے بیرونی طاقتیں بھی خفیہ طریقے سے دھرتی کے باسیوں کوفرقہ وارانہ فسادات اور علاقائی وفروعی تعصبات کے نام پرتقسیم کرنے کے لئے سرگرم ہوگئیں اور خطے میں دہشتگرد ی اورانتشار پھیلاکر عوام میں پھوٹ ڈالنے میں کامیابی حاصل کرلیں۔
آج پاکستانی حکومت اور اس کے خفیہ کارندوں نے بھی مکمل اعتراف کرلیا ہے کہ بعض طاغوتی قوتیں گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر فسادات پھیلاکر ملک کوداخلی وخارجی اعتبار سے کمزورکرنے کے درپے ہیں اور خفیہ اداروں نے ان میں سے چند عناصر کی نشاندہی بھی کی ہے اوریہ بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ نئے سال کے دوران گلگت بلتستان میں ایک خطرناک قسم کی دہشتگردی کامنصوبہ بنایاجارہا ہے جس کے ذریعے علاقے میں خون کی ہولی کھیلنے کے خدشات ہیں۔ ریاستی اداروں نے اس بات کابھی انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے مختلف نالہ جات کے راستے غیرمقامی شدت پسندوں کاعلاقے میں گھس جانے کے رجحان میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ ان راستوں سے علاقے میں اسلحہ کی سپلائی بھی کی جارہی ہے جو پاک چین اورپاک ایران تعلقات کوخراب کرنے کی سازش ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ ،بات اُس گریٹ گیم کی کریں جس کے لئے گزشتہ تین سال سے عالمی میڈیا مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کی سالمیت کوبھی متاثر کرنے اور پاک چین دوستی کوسبوتاژ کرنے میں مصروف ہے اوریہ بھی عین اس وقت جب چین پاکستان کے ساتھ اپنی دیرینہ دوستی نبھانے کی خاطر پاکستان کے زیرانتظام علاقہ گلگت بلتستان اورراولپنڈی کوملانے والی واحدشاہراہ قراقرم ہائی وے سمیت متعدد تعمیراتی اورمواصلاتی نظام کے منصوبوں پرکام کررہا ہے تواسی اثناء امریکی اور بھارتی میڈیانے گلگت بلتستان میں چینی فوج کی موجودگی کا پروپیگنڈ ہ کرکے پوری دنیا کوحیرت میں ڈال دیا ۔ 26اگست 2010ء کوایک معتبر امریکی اخبارنیویارک ٹائمزمیں سے سلیگ ایس ہریسن نامی تجزیہ کارنے اپنے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا کہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع علاقوں میں پاکستانی نظام کے خلاف بغاوت کوہوادینے کے لئے چین کی پیپلزلبریشن آرمی کے 7000اور 11000اہلکار موجودہیں جونہ صرف پاکستان بلکہ متنازعہ علاقے میں چینی فوج کی موجودگی بھارت سمیت پوری دنیا کے لئے ایک تشویشناک امرہے جس سے مستقبل میں بھارت اورپاکستان کے درمیان جاری مذاکرات بھی کمزور ہونے کااندیشہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیاتھا کہ چین کاپاکستان کے ساتھ کوئی تعاؤن نہیں ہے بلکہ شاہراہ قراقرم کی کشادگی اور ریلوے پٹڑی بچھانے کے بہانے بیجنگ پاکستان کوبحیرہ عرب تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے اور اس مقصد کے لئے بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ تک رسائی حاصل کرکے وہاں سے باآسانی بحیرہ عرب کے گرم پانی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان کاکہناتھا کہ چین بظاہر پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیرپرکام کررہا ہے لیکن یہ صرف اور صرف ایک سازش ہے ۔اگرپاکستان کواپنی سرزمین پر امریکی فوج کی موجودگی پراعتراض ہے توچینی فوج کی موجودگی سے خوشی کیوں؟
اسی دوران 28اگست 2010کومعروف بھارتی اخبار’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ نے بھی نیویارک ٹائمز کے اس مضمون کوبے پناہ اہمیت دے کرخوب اچھالا اورکہاکہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھارت اورپاکستان کیلئے اہمیت کاحامل خطہ گلگت بلتستان پرچینی فوج کاقبضہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس علاقے میں آہستہ آہستہ سے عوام پاکستانی حکومت کے خلاف بغاوت کی راہ اختیار کررہے ہیں ۔گلگت بلتستان میں چینی فوج کی موجودگی کے حوالے سے یہ پروپیگنڈہ ابھی کچھ کم ہواتھا کہ اس دوران 13دسمبر 2011کو گلگت بلتستان سے شائع ہونے والا معروف اخبارروزنامہ بانگ سحر نے حکومت پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو 50سال کے لئے لیزپر چین کے حوالے کرنے پرغور کرنے کاانکشاف کیا۔ یہ خبرعالمی میڈیااور پاکستان مخالف قوتوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اوریک دم سے عالمی طاقتوں نے ایک بارپھر گلگت بلتستان پراپنی نظریں جمالیں اورانٹرنیشنل میڈیا نے اس خبرکو خوب اچھالا۔ اسی اثناء’’ڈیفنس اینڈ سکیورٹی الرٹ‘‘نامی ایک بھارتی جریدے میں ڈاکٹر آروند گوتیا(Dr.Arvind Gupta) اور ڈاکٹر آشکوک بہوریہ (Dr. Ashok Behura) کی طرف سے ایک تجزیاتی رپورٹ میں گلگت بلتستان میں بتدریج واضح ہونے والے گریٹ گیم کے تناظر میں بھارت کواپنی دفاعی دلچسپی کوتحفظ دینے پرزوردیا گیا ۔ ان کاکہناتھا کہ مشرقی،مغربی، جنوبی اور سنٹرل ایشیاء کے سنگم میں واقع دفاعی اعتبارسے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ گلگت بلتستان میں ایک نیاگریٹ گیم کھیلنے جارہا ہے جوچین کی طرف سے بحیرہ عرب اور بھارت کے خلاف ایک فیصلہ کن اقدام ہے ۔ ان کامزیدکہنا تھاکہ ایک متنازعہ خطے میں چین کی اس قدر گہری دلچسپی کے حوالے سے عالمی طاقتوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔اسی طرح حال ہی میں 10دسمبر2012کو ’’انڈین ڈیفنس ریویو‘‘ نامی جریدے میں بھارتی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل کمال داور اپنے ایک مضمون’’گلگت بلتستان،دی نیوگریٹ گیم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان جیسے دنیاکی چھت بھی کہاجاتا ہے آزادی سے قبل ریاست جموں کشمیرکاحصہ رہا ہے اور 1947ء سے اب تک غیرقانونی طورپرپاکستان کے قبضے میں ہے۔ خطہ تاریخی اور جیوسٹریٹجک حوالے سے عالمی سطح پربہت بڑی اہمیت کاحامل ہے جبکہ وسائل کے اعتبار سے بھی یہ ایک امیرخطہ ہے جہاں پریورینیم ،سونا ،کاپر اورقیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجودہیں۔ اس کے علاوہ خطہ زبردست قسم کی بجلی پیداکرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں پر چین ایک تیزرفتار ریلوے پٹڑی اور شاہراہ تعمیرکرکے قراقرم ہائی وے کے ذریعے 72گھنٹے میں گوادر تک رسائی چاہتا ہے۔ جوکہ عام طورپر اس کیلئے 16سے 25دن لگ جاتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ پچھلے سال سے چین کاجموں کشمیر کے علاقے کی طرف رجحان بڑھتا جارہا ہے جہاں پرچین اورپاکستان کی طرف سے مشترکہ طورپر بھارت پرحملے کی منصوبہ بندی بھی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح یورپی پارلیمنٹ کی ایک رکن کرسٹیانہ اوجولینڈ (Kristina Ojuland) نے بھی ’’نیو یورپ‘‘نامی ایک آن لائن میگزین میں اس موضوع پراپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔
ایک طرف عالمی طاقتیں گلگت بلتستان میں چینی مداخلت کاپروپیگنڈہ کررہی ہیں تو دوسری طرف پاک چین دوستی کوسبوتاژ کرنے کے لئے امریکہ بھی اپنے خفیہ ایجنڈے کے تحت گلگت بلتستان میں اپنااثرورسوخ بڑھانے میں مصروف عمل ہے اور اس مقصد کے لئے امریکی جاسوس وفدکی طرف سے علاقے کا غیرقانونی دورہ اور یوایس ایڈ نامی ادارے کے ذریعے غربت اور پسماندگی کے خاتمے کے نا م پر امریکہ نے گلگت بلتستان کے کونے کونے تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔گزشتہ سال جون کے مہینے میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے ایک تین رکنی وفدکاپاکستانی حکام کواعتمادمیں لئے بغیر گلگت بلتستان کے دورے کے حوالے سے حکومت پاکستان اور خفیہ اداروں نے گہری تشویش کااظہار کرتے ہوئے خوب واویلا مچادیا لیکن اس کے باوجود جاسوس وفد زبردستی علاقے کادورہ کرکے مخصوص لوگوں سے خفیہ ملاقاتوں میں کامیاب ہوگیا ۔حالانکہ امریکی جاسوس وفدکے اس غیرقانونی دورے پرعلاقائی وقومی میڈیانے بھی گہری تشویش کااظہار کیا لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان حکومت اور ریاست کے وفادار اداروں نے امریکی وفد کے اعزازمیں دئیے گئے پرائیویٹ اعشائیہ کی پاداش میں ایک خاتون پولیس آفیسر کوملازمت سے معطل کرنے کے سواکچھ نہیں کیا۔ اسی دوران صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک معروف کالم نگار کے امریکی سفارت خانے کے وفد کے گلگت بلتستان کے دورے کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے گلگت بلتستان میں چین مخالف سرگرمیوں کوفروغ دینے اور اس حوالے سے قوم پرست جماعتوں ،چیمبرآف کامرس اور دیگر بااثر شخصیات کی حمایت حاصل کرنے کابھی انکشاف کیاتھا۔
بہرحال علاقے کی موجودہ صورتحال کے تناظرمیں دیکھاجائے تو واقع یہاں پرایک انٹرنیشنل گریٹ گیم کے آثار نظرآتے جارہے ہیں۔ جس کے لئے ایک طرف عوامی جمہوریہ چین کی معروف تعمیراتی کمپنی CRBCسڑکوں ،پلوں اور ٹنلز کی تعمیرپرزوروشور سے کام کررہی ہے تودوسری طرف امریکہ یوایس ایڈ نامی ادارے کے ذریعے غربت اور پسماندگی کے خاتمے کے نام پرعلاقے میں ڈالر کی بارش برسانے پرتلا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود علاقے کے عوام کی معاشی ومعاشرتی حالات میں کوئی بہتری نظرنہیں آرہی ہے بلکہ عوام پہلے سے بھی ابترزندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ حکومتی سطح پر آئے روز کی بحرانی کیفیت نے عوام کوشدید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے جبکہ دہشتگردی،انتشار ،فرقہ واریت جیسے ناخوشگوار واقعات میں بھی کوئی خاطرخواہ کمی نہیں آئی ہے جبکہ ایسے میں ریاستی اداروں کی طرف سے علاقے میں فسادات کی پیش گوئیوں نے عوام کو مزیدخوف وہراس کے عالم میں مبتلاکردیا ہے لیکن ہرکوئی اس عالمی گریٹ گیم کوسمجھنے سے قاصر ہے۔
ان تمام حقائق سے یہ بات کھل کرسامنے آئی ہے کہ عالمی طاقتیں گلگت بلتستان میں کسی نہ کسی بہانے سے اپنا دائرہ کار پھیلا کرعلاقے میں انتشار اوربدامنی کوہوادینے میں مصروف ہیں۔ایسے میں حکومت پاکستان کوخرگوش کی نیندسونے کی بجائے خطے پر تھوڑی سی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کودرپیش تمام تراندرونی وبیرونی خطرات کاسدباب کیاجاسکے۔اس کے لئے حکومت علاقے سے غربت اوربے روزگاری کے خاتمے کیلئے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت روزگار کے وسیع مواقع پیداکرسکتی ہے اورصوبائی سطح پر پیداہونے والے تمام بحرانوں کے خاتمے کیلئے دل کھول کر رقوم دے سکتی ہے۔ علاقے میں بدامنی ،انتشار اور فسادات کوہوادینے والے عناصر اور منصوبہ سازوں کی ریاستی اداروں کے ذریعے نشاندہی کرسکتی ہے اور صوبائی حکومت کو ایسے عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لانے کی ہدایت دے سکتی ہے۔ جبکہ عوام الناس کوان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اتحادواتفاق ،رواداری ،استقامت ،غیرت ،ایمانداری،سچائی اوراتحادبین المسلمین کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بات کابھی شدید خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ 2014ء کوافغان مشن مکمل کرنے کے بعدامریکہ کادوسرا ہدف گلگت بلتستان ہوگا جہاں پردو سپرپاور یعنی امریکہ اور چین کے درمیان ایک نئی مفاداتی جنگ چھڑ جائیگی ۔جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان افغانستان ،جنوبی یاشمالی وزیرستان بن جائیگا یاپھر مشرقی پاکستان کی طرح شمالی پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پرایک نئی ریاست بن کرسامنے آئے گا توتب قوم کس کارونا روئے گی؟اللہ خیرکرے امریکہ نے نئی پالیسی کے تحت سی آئی اے کوڈرون حملوں کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔