گوشہ اردو

………… میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

 ممتاز حسین گوہر
غذر کے گاؤں داماس کا رہائشی انتہائی شریف تئیس سالہ نوجوان جان تاج،کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ لڑکا ایک دن اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہی ہاتھوں کرے گا۔ شام چھے بجے تک دوستوں کے ساتھ ہستے ہوئے رہتا ہے، اور اورا گلے ہی تیس منٹ بعد جان تاج اپنے دوستوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے چھوڑ کے جاتا ہے۔ ایک غریب مگر اپنے حال پر خوش رہنے والا گھرانہ اچانک کیسے اجھڑ گیا، سوال بہت سارے مگر جواب کسی کے پاس نہیں۔ضلع غذر میں رواں سال ہونے والی خودکشیوں کی تعداد تقریباً پچاس سے تجاوز کر گئی، سرکاری وغیر سرکاری ادارے، سول سوسائٹی،پڑھے لکھے افراد سب اجھڑتے ہوئے گھروں کا تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں، کوئی ادارہ یا انفرادی طور پر کوئی اولاد آدم اصل حقا ئق سامنے لانے کی کوشش تک نہیں کر پاتا۔پولیس آجاتی ہے،ابتدائی تحقیقات ہوتی ہے،پوسٹ مارٹم کی رسم ادا ہوتی ہے،اور جسد خاکی کو لحد میں اتارنے کے بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی کسی الماری میں دبا دی جاتی ہے۔والدین اور گھر والے مزید کسی تحقیقات میں جانے سے بچنے کے لیے اس کیس کو مکمل ختم کرنے کے حق میں ہوتے ہیں، پولیس اپنی کاروائی کے تقاضے پوری کرتی ہے، جبکہ رشتے دار اور علاقے والے کچھ دن اس غمزدہ خاندان کے ساتھ رہنے کے بعد اپنے اپنے کاموں میں ایک دم کھو جاتے ہیں، معاشرے کے پڑھے لکھے طبقوں میں کچھ دن بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کی طرح تبصرے ہوتے ہیں، اور جلد ہی سب ختم ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ اور کچھ دنوں کے بعد اسی طرح کا ایک اور واقعہ دوبارہ پیش آتا ہے،پھر اسی ترتیب سے کاروائی چلتی ہے،اور اسی طرح ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہاں خودکشی حرام ہے،مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حلال کام سے زیادہ تو حرام کام ہی ہوتا ہے، لیکن کیا سب غلط کام ہوتے رہےں اور ہم دیکھتے ہی رہےں… آخر ہمارا ضمیر کب جاگ جائے گا۔ ہمارے ارد گرد بہت کچھ غلط ہو رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔کسی کی اولاد کا جانا،ایک خاندان کا اجڑجانا ہوتا ہے، اور یہ درد وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اس طرح کی درد کو سہا ہو۔شرم اس بات کی ہے کہ آج ہم میں یہ جرات بھی نہیں ہے کہ ہم غلط کام کو ہاتھ سے روکنا تو درکنار دل سے بھی برے کام کو غلط کہنے کی توفیق ہم میں نہیں ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری ادارے مختلف مدوں میں کروڑوں روپے تو خرچ کرتے ہیں، مگر میں ان سے سوال کرتا ہوں، ایک فرد کا انتہائی اقدام اٹھانا یعنی اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا، کیا اس کے پیچھے کچھ وجوہات نہیں ہو سکتی ہیں، کیا بلا وجہ کوئی اپنی زندگی کا چراغ گھل کر دیتا ہے، کیا ایک خاندان کا اجڑنا آپ کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتا، کیا ہوٹلوں میں لاکھوں روپے اچھے اچھے کھانے اور اچھے اچھے کمروں میں رہنے سے ایک زندگی کو بچا نے اور خاندان کی امیدیں ختم ہونے سے افضل ہے، کیا اپ کے سامنے ایک انسان کی جان بچانا سا ری انسانیت کی جان بچا نے کے مترادف نہیں ہے، کیا جب ایک ہی ڈسٹرکٹ میں ہر سال ایک سو کے قریب لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا تو ہوتا ہے، رہنے دیا جائے کوئی مسئلہ نہیں،کبھی ایسا کوئی واقعہ آپ کے اپنے گھر میں ہو آپ کے پیارے کی لاش آپکی آنکھوں کے سامنے ہو، آپ بین کر رہے ہوں، آپکے لیے پوری دنیا ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہو، تب آپکو اندازہ ہو جائے گا کہ ایک جان کی اہمیت کیا ہوتی ہے، ایک ماں باپ کے لیے اسکے جگر گوشے کا اس دنیا سے اچانک چلے جانا کس طرح کا عذاب ہوتا ہے، میری دعا ہے کہ آپ صاحب استطاعت لوگوں پر ایسا قہر کبھی نہیں آئے، مگر اوپر والا کسی کو بھی کسی بھی وقت آزمائش میں ڈال سکتا ہے، جس کے ہاتھ میں خون ناحق روکنے کی گنجائش موجود ہو، اور وو پھر بھی خاموش رہتا ہے، اور ایک اہم کام کے بجے کم اہمیت والے کام کو ترجیح دیتا ہے، تو کسی نہ کسی طرح اس جرم میں وو بھی برابر کا شریک ہے۔ مجھے ان بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھتے ہوئے ان اداروں کے ساتھ معاشرے کے تمام افراد بشمول اپنے آپ پر بھی انتہائی شرم آتی ہے، کہ آیا اس سلسلے میں ہم اپنے حصے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔بحثیت والدین ہم کیا اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر رہے ہیں، کیا ہمارے بچے دینی اور دنیاوی علوم سے اچھی طرح بہرہ ور ہو رہے ہیں، کیا ہم بحثیت بہن بھا ئی، چچا ماموں، دادا دادی، آنٹی، انکل، شوہر، بیوی ان رشتوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں، کیا ہم اسلامی اور اپنی فرقوں کی تعلیمات پر بھی مکمل عمل کر رہے ہیں،کیا ہم بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اپنے آپکو بدل رہے ہیں یا پھر بدلے ہوئے لوگوں سے بھی آگے نکلنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں. ہمیں کم از کم ایک بار اپنی اپنی اقدار اور ان سوالات پرغور کرنا ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ معاشرے ہونے والی بگاڈ کے ذمہ دار کہیں ہم تو نہیں ہیں۔یا کہیں گھر کا بندہ ہی تو چور نہیں ہے. اگر گھر کا بندہ ہی چور ہے تو اس گھر کے چور کو بھی ہم سب مل کر رہ راست پر لا سکتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کہیں جس واقعے کو ہم خودکشی کہہ رہے ہیں، وو کہیں قتل کا واقعہ تو نہیں ہے، یہ نکتہ بظاھر چھوٹا لگ رہا ہے مگر انتہائی اہم ہے، کہا جاتا ہے کہ کئی کیسز جو قتل کے ذمرے میں آجاتی تھی، انکو بھی خودکشی کا رنگ دیا گیا ہے، اور اس کام کے لئے گھر والے اور پولیس والے دونوں ملے ہوتے ہیں،کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوتی ہے جس کی پردہ داری ہوتی ہے۔ پانی اب بھی سر سے نہیں گزر چکا ہے معاشرے کے تمام افراد، کرداروں اور اکائیوں کو باہم مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے،ورنہ اس جان تاج کی طرح کے واقعات ہوتے رہنگے، اور جو کچھ اس تئیس سالہ نوجوان جان تاج کے گھر میں،مےں نے دیکھا ہے، میں یہی دعا کر سکتا ہوں،کہ اللہ تعالی ایسا نظارہ کسی انسان کو دیکھنے نہ دے۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button