گوشہ اردو

خیرات نہیں، مہارت چاہیے

کہاجاتاہے کہ کسی گاﺅں میں ایک غریب آدمی رہتا تھا. اُس کے گھر میں ہمیشہ غربت و افلاس کی کہانی ہوتی رہتی تھی۔ بیوی اور بچے ہمیشہ انتظار میں رہتے تھے کہ وہ کہیں سے مانگ کر لائے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔آہستہ آہستہ اُس کے بچے بڑے ہوتے گئے اور تعداد میں بھی اضافہ ہوتاگیا یہاں تک کہ دو بڑے بیٹوں کی شادی کرادی گئی۔ اچانک اُن کے باپ کی وفات ہوگئی جس کی وجہ سے وہ مصیبتوں کا شکار ہوگئے۔ سب کے سب بچے بھی باپ کی طرح ہمیشہ خیرات اور صدقات پر جیتے تھے۔ اُن کے ایک بیٹے کا نام اسد تھا۔ وہ بچپن سے بڑا ہوشیار تھا۔ جوں جوں بڑا ہوتا گیابیکاری کی خاندانی روایت اس کےلئے عذاب بنتی گئی۔ ہر ایک کے سامنے کشکول پھیلانا اس کے ضمیرکی موت ہوتی تھی۔ وہ سوچتاتھا کہ ہم کب کسی کو کچھ دینے کے اہل ہونگے؟ کیا ہماری قسمت میں مانگنا ہی ہے ؟ اس دوران اُس نے دیکھا کہ ہمسائے کے بچے ہمیشہ محنت سے کماتے ہیں۔ سب قریبی سکول میں پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ملازمتیں لیکر اپنے اور اپنے والدین کےلئے ذریعہ معاش کے ساتھ عزت کی زندگی بھی گزارتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمسائے کے اپنے ہم عمر دوستوں کے سامنے کشکول لئے جاتا تو اُس کا ضمیر بھی اُس کو غیرت دلاتا تھا۔ ایک دن وہ بھاک کر سکول گیا۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر بہت دیندار آدمی تھے۔ وہ خیرات میں پیسے اور چیزیں دینے کے سخت خلاف تھے۔ اُس نے اُس غریب بچے کو پیسے اور خیرات دینے کے بجائے سکول میں داخلہ دے دیا اور اُس کی فیس خود ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسد کو سکول جانے کا پچپن سے شوق تھا۔ وہ سکول جاتارہا اور دیکھتے ہی دیکھتے پڑھائی میں کئی منزلیں طے پاگیا۔ ایک دن سکول سے گھر آیا بہت بھوک لگی تھی۔ گھر پہنچتے ہی اُس کی امی نے ایک برتن(تھالی) میں کتابیں ڈال کر لایااور اسد سے کہاکہ’ ان کتابوں کو کھاﺅ‘۔اسد اپنی امی کے سامنے بے بس تھاکیونکہ وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھی۔ اُس کی امی بولی’سب بھائی بہنیں مانگ کر لاتے ہیں تم کون سے بڑے لارڈ صاحب کے بیٹے ہو جو سکول پڑھنے لگے ہیں۔ نکل جاﺅ اس گھر سے اور اپنے سکول میں جاکر بیٹھ جاﺅ‘۔ اسد وہاں سے نکلا اورسکول کے قریب رہنے لگا۔محنت مزدوری (Job)اور پڑھائی کے ساتھ وہاں کے اساتذہ نے اسکی رہائش کا انتظام بھی کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکا ایک دن ایف ایس سی پاس کرگیا۔ ٹسٹ وغیرہ کے بعد وہ ملک کے انتظامی ادارے میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ وقت گزرتا گیا اُس کی ملازمت میں ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ ایک علاقے کا انتظامی سربراہ بن گیا۔ اُدھر اُس کی والدہ اور بہن بھائی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے تھے وہ ابھی تک خیرات کے پیسوں سے زندہ تھے لیکن خود کچھ نہ کرسکے تھے۔ اسد ایک دن اپنے عملہ کےساتھ بڑے پروٹکول میں اپنے والدین کے پاس گیا۔ اسد نے اپنی امی کو ایک بڑے تھالی میں بھرکر پیسے(نوٹ) دے دئیے۔ اُس کی امی بولی یہ کیا ہے؟ اسد بولا یہ وہ کاغذ ہیں جن کو اب ہم سب کھا بھی سکتے ہیں! اُن کے امی نے اسد کو گلے لگایا اور بولی’ کاش! کہ امیر لوگ خیرات کے ناشتے‘پراٹے اور (باسی) کھانے دینے کی بجائے
میرے دوسرے بچوں کو بھی تعلیم اور ہنر دیتے تو آج وہ سب اس جیسے ہوتے‘ شاید امیر لوگ غیربیوں کو غریب ہی رکھنا چاہتے ہیں اس لئے صرف کھانا پینا دیتے ہیں‘۔
یہ صرف ایک کہانی ہی نہیں ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے۔ یہاں بڑے بڑے امیر لوگ غریبوں کی مدد کے آڈ میں اُن کو اور غریب بنارہے ہیں۔ کھانا‘ پینا اور کپڑوں کو زندگی کی انمول چیزوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ اور ادارے ہیں جو غریبوں کو کھانے پینے کی بجائے ان کو مہارتیں اور ہنر سیکھاتے ہیں۔ ہمارے سامنے ماڈل بھی موجود ہے لیکن پھر بھی غریب اور مسکین کے ساتھ ہمدردی کے طورپر کھانے پینے کے چیزوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں‘ مثال کے طورپر پنڈی‘ اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ پشاور اور دیگر شہروں میں صبح شام کو غریبوں کو مفت کھانا دیا جاتاہے اور اُس کھانے کی وجہ سے ہزاروں لوگ زندہ تو ہے لیکن اُس کھانے کے لئے زندہ ہے اور کچھ نہیں۔ پشاور موٹ ہو یا صدر پنڈی بڑے بڑے ہوٹل والے ان کو غلط عادی کرارہے ہیں۔ صحت مند اور اچھے خاصے لوگ بھی دن بھر خالی بیٹھ کر اُسی کھانے کی انتظار میں ہوتے ہیں۔یہ صحیح ہے یا غلط؟ اس بارے میں آپ بہتر سوچ سکتے ہیں۔ مجھے زمانہ سکول کی اسلامیات کا ایک واقعہ یاد ہے جس میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کہا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک غریب آدمی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ میں غریب ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس شخص سے پوچھا ’آپ کے پاس کچھ تو ہوگا؟‘ وہ شخص بولے گلہاڑی ہے۔ رسول اللہ نے گلہاڑی آپ کے ہاتھ میں تھمادی اور کہا”جاﺅ قریبی جنگل سے لکڑی کاٹ کر لاﺅ اور روزی کماﺅ“۔ وہ آدمی روزانہ لکڑی بیج کر کمانے لگا اور عزت سے اپنے خاندان کی کفالت شروع کی۔ یہی اسلامی تعلیمات ہیں۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی بھیک مانگنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی آپ ہمیشہ محنت کی تلقین کرتے تھے۔ اسلام میں کوئی کشکول اُٹھانے کی کنجائش نہیں۔ محنت اور مزدوری نیک اعمال میں سے ایک ہے۔ اس لئے رسول نے فرمایا ”محنت سے کمانے والا اللہ کا دوست ہے“۔ ان تمام فرامین مبارکہ کے باوجود ہمارے لوگ دن بھر سٹرکوں اور چوراہوں پر اللہ اور رسول کے نام سے بھیک مانگتے رہتے ہیں جبکہ اللہ اور رسول نے محنت اور مشقت‘ اور کوشش کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے”اللہ تعالیٰ اتنا ہی دیتا ہے جتنا کہ انسان محنت کرتا ہے“۔ دوسرے قوموں کے پاس اس طرح کی ہداہت بھی نہیں لیکن وہ آج دنیا میں سپر پاورہے۔ ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے بھی محنت اور جدوجہد کی تلقین کے ساتھ عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔
خیرات کو انگریزی میں(Charity) کہتے ہیں اس کی بنیاد دنیا کے ہر ایک دین میں اہم رہی ہے اور اہم رہے گی۔ عیسائی‘ یہودی‘ فارسی‘ ہندﺅ‘ بت مت سمیت تمام الہامی وغیرالہامی ادیان میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ دین اسلام نے خیرات کی بہت تفصیل بتادی ہے۔ خیرات کو صدقہ بھی کہتے ہیں۔ صدقات اور خیرات کو ذاتی استعمال کی بجائے اداروں کو دینا چاہئے اور اداروں کو چاہئے کہ وہ غریب اور ضرورت مندوں کو تعلیم اور تربیت کے ساتھ ہنر سیکھائے تاکہ وہ خود کماکر ملک قوم کے لئے فخر کا باعث ہو۔ ”قوم کو مچھلی کھلانے کے بجائے مچھلی پکڑنا سیکھانا چاہئے تاکہ وہ خود مچھلی پکڑ کر ہمیشہ کےلئے کھا سکے“۔بقول اقبال
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من

Related Articles

Back to top button