گوشہ اردو
ایم آئی ای ڈی‘ پاکستان
سرزمین پاکستان انسانی اور مادی وسائل سے مالامال ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک اپنے نامسائد حالات‘ معاشی مشکلات اور دیگر انتظامی معاملات کی وجہ سے اکثر مصائب کا شکار ہوتارہاہے۔ ان حالات میں حکومت کی مدد اور تعاون کے لئے نجی اداروں نے بھی حکومت کے شانہ بشانہ مل کرکام کیا۔ اب تک ہزاروں نجی ادارے اس ملک کی آئین اور قانوں کے مطابق ملک و قوم کی خدمت پر معمور ہیں۔ تعلیم ‘صحت اور معیشت کے ساتھ ساتھ ثقافتی میدان میں بھی نجی اداروں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اب پوری دنیا میں نجی اداروں اور سول سوسائٹی کا جمہوری حکومتوں میں بہت بڑا ترقیاتی کردار ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں نجی ادارے ہی انسانی خدمت میں ملکی سرحدات سے باہر انسانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ایم آئی ای ڈی یعنی Mountain Institute for Educational Development, Pakistan بھی انہی نجی اداروں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر اپنی خدمات کا آغاز کر چکا ہے۔یہ ادارہ ہمارے لئے اب ترقی کی علامت بنتا جارہاہے۔ گلگت بلتستان کی سرزمین سے ایک سپوت اور عظیم شخصیت نے اس کارواں کی ستمبر 2003ءکوبنیاد رکھی ۔ یہ ادرہ Societies Act 1860 کی تحت رجسٹرڈ ہے۔ گلگت بلتستان ضلع غذر کی خوبصورت وادی پھنڈرسے تعلق رکھنے والے عبدالجہان صاحب کی دن رات کی محنت اور کاﺅش کا نتیجہ ہے۔ 2004ءمیں مانسرہ سے اس ادارے نے تعلیمی میدان میں سرگرمیاں شروع کی۔ صوبہ خیبرپختون خواہ میں بٹگرام‘ مانسرہ‘ ایبٹ آباد اور ہری پور، صوبہ پنجاب میں چکوال‘ میانوالی‘ لیہ‘مظفرگڑھ اورراجنپور،صوبہ سندھ میں گوٹکی‘خیرپور اور ٹھٹھ کے ساتھ ساتھ اب گلگت بلتستان میں بھی اپنے خدمات کا دائرہ کار بڑھایا ہے۔ اس ادارے کے تحت سکولوں کی بہتری کا پروگرامSchool Improvement Program – SIP‘ ابتدائی تعلیم کا پروگرامEarly Childhood and Development Program – ECCD‘ بچوں کے حقوق کا فارم‘Inclusive Education‘ انسانی وسائل کی تربیتCapacity Building Programs‘ لوگوں کی شعوری تربیتCommunity Mobilization تعلیمی تحقیق اور مطالعہConducting Educational Research and Evaluation Studies پر کام جاری ہے۔ اس ادارے نے پلان پاکستان‘Care International ‘ AKDN‘یو این او کے کئی ادارےUNICEFکے علاوہ دیگر مقامی اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ ملکر بہت ساے سرگرمیاں شروع کی ہے۔ اس ادارے نے NPO certification by Pakistan Centre of Philanthropy (PCP).ایواڈ بھی حاصل کرلیا ہے۔ موجودہ وقت میں چھے سو (600)سکولوں اور ایک سو پچاس (150)ابتدائی تعلمی اداروں میں کام کیا جارہا ہے۔ اب تک چار ہزار دو سو سے زائد اساتذہ اور ہیڈ ٹیچرز کی تربیت کی گئی ہے۔ان کے ساتھ چھے سو سے زائد والدین کو بھی تربیت دی گئی ہے۔طلباءکونسل کا قیام بھی عمل میں لایا گیاہے۔ جہاں وہ اپنے صلاحتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔2008ءمیں زلزلے سے ہونے والی تباہی میں اس ادارے نے بھرپور خدمات دی ہے۔ سکولوں کی تعمیر‘ اساتذہ کی تربیت‘ والدین کے لئے شعوری پروگرام کے ساتھ جدید وسائل سے آراستہ یہ ادارہ لوگوں کی خدمت کیلئے بلا رنگ و نسل جاری ہے۔ ایم آئی ای ڈی ویب سائیڈ کے 2009ءتک کے رپورٹ کے مطابق پانچ سو سے زائد ملازمین ہیں جو اب تک ہزار سے زائد ہوچکے ہونگے۔ ( ایم آئی ویب سائیڈ www.mied.org)۔
گلگت بلتستان میں بھی اس ادرے نے خدمات کا آغاز کیاہے۔ ضلع غذر کے طول و عرض میں سرکاری و غیرسرکاری سکولوں کے ساتھ اشتراکی کام کے ساتھ اس ادارے نے کئی ایک سکول قائم کر رکھے ہیں جو بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت مفید ثابت ہورہے ہیں۔ ضلع غذرجیسے دور افتادہ علاقے میں اس ادارے کی خدمات قابل تحسین ہے۔ اس سے نہ صرف ہزاروں طلبہ کو فائدہ ملے گا بلکہ سینکڑوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گی۔ یہی سول سوسائٹی کا کمال ہے۔ضلع غذر میں ایم آئی ای ڈی کی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت سارے خستہ حال سکولوں کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ اساتذہ کرام کو تربیت کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ سکولوں میں فرنیچر اور تدریسی مواد فراہم ہوا ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی ادارے کی بہتری کے لئے ضروری ہے۔مستقبل میں یہ ادارہ گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بھی تعلمی خدمات کا خواہشمند ہے۔ ایسے نومولود اداروں کی مدد ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہماری مدد اور تعاون سے اس قسم کے ادارے علاقے کے لئے نعمت سے کم نہیں۔ ہمیں اعلیٰ ذوق اور وسیع القلبی کے ساتھ نئے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے ادادے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس ادارے کے سربراہ اوران کے رفقاءاور شراکتی ادارے قابل تعریف ہیں۔ ان کی خدمات پر ہم فخرکرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آنے والے سالوں یہ اداہ مزید ترقی کریں۔اس ادارے کی سرگرمیاں بہت نیک اور وسیع النظر ہیں اس لئے درجہ ذیل تجاویز پر بھی سوچا جاسکتاہے۔ گلگت بلتستان میں اپنے سرگرمیوں کے دائرہ کار کو وسعت دیگر تعلیم کی روشنی پھیلانے میں حکومت اور مقامی لوگوں کی مدد میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کمپوٹر اورانٹرنٹ کے ساتھ لائبریرز کا بھی اہتمام کر نے کی کوشش کی جائے تاکہ لوگ ان سماجی نیٹ ورکس سے تعلمی فائدہ اٹھا سکیں۔ گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں کے ناخواندہ نوجوانوں کے لئے بھی مختلف مہارتوں میں تربیت دی جائے تاکہ بے روزگاری کے خاتمے کے ساتھ معاشرتی ترقی ہوسکیں۔ گلگت بلتستان حکومت کو ایسے ادروں کے ساتھ بہت زیادہ تعاون کرنا چاہئے تاکہ دیگر علاقوں میں بھی تعلیمی خدمات میں تیزی آسکیں۔ حکومت کو ہم یہ تجویز کرنیگے کہ ایسے اہم شخصیات کو علاقے کی تعمیرو ترقی میں بہت حصہ لیتے ہیں صوبائی سطح پر ایواڈ دیا جائے تاکہ ان کی صوحلہ افزائی ہوسکیں۔ نجی اداروں کی صوصلہ افزائی سے حکومت کے مسائل میں کمی آئے گی لوگوں کو روز گار کے ساتھ معیاری تعلیم کی فراہمی بھی ممکن ہوگی۔ ’اسمان بھی تیرے وسعتوں پہ ناز کریں‘۔
I agree with what has been written and and appreciate the role of MIED as a civil society institution in the development and enhancement of education in our society. Its contribution to ensuring quality education to less developed and remote areas has been very positive and productive. It is contributing to the society in spreading knowledge on one hand and providing job to a large number of young educated and unemployed people on the other hand. It is also playing a role of a catalyst in developing good relations with the government as well as with different communities in bringing about peace and tranquility in our society. Well done MIED and keep it up.