گوشہ اردو

فکر انگیز کہانی

بُرائی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ برائی کو جڑ سے نکال نہ دیاجائے۔ ہمارے معاشرے میں برائیاں جو بھی پھیلتی ہیں ان کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اُن وجوہات کی شناخت اور نشاندہی کے ساتھ عقلمندی بھی ضروری ہے۔ عقل و شعور اور سمجھداری سے ہی قومیں اپنے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے بچے سبق یاد ہونے اور جاننے کے باوجود سالانہ امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں کیوں؟ یہ اس لئے کہ وہ امتحانی پرچے کے ہدایات Instructionsصحیح نہیں پڑ ھ لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ادارے اور لیڈر ان لوگوں کو مسائل کا حل آسان زبان میں نہیں سمجھاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مسائل سے نکلنے کے بجائے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے عالموں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ علم کے خزانوں کو لوگوں کے سامنے کھول دیتے ہیں۔ ان کی زبان اور الفاط بہت مشکل ہوتے ہیں جن کو عام لوگ سجمھ نہیں پاتے ہیں۔ آج کے عالم اور اساتذہ جب بھی بولتے ہیں بہت مشکل اور ادبی زبان کا استعمال کرتے ہیں ۔ عربی ‘ انگریزی اور اردو کے وہ الفاظ تقریروں میں بولتے ہیں جن کا ترجمہ بعض چھوٹے فہرنگوں میں نہیں مل سکتا ہے سمجھنا بہت دور کی بات ہے۔ اس طرح کی ایک کہانی قدیم کہانیوں میں مل جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک گاﺅں میں بہت سادہ لوگ رہتے تھے۔ وہ اپنے تمام مسائل کے حل کے بارے میں یا تو مولوی صاحب یا سکول کے استاد کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان کے گاﺅں میں ایک ہی کنواں تھا جہاں سے وہ سب لوگ پانی پیتے تھے۔ کنویں کا پانی بہت صاف اور شفاف تھا۔ صرف اسی ایک جگہ پانی ملنے کی وجہ سے گاﺅں کے جانور بھی وہاں جاتے تھے۔ کنواں بہت گہرا اور وسیع تھا۔ ایک دفعہ ایک کتّا پانی پینے وہاں گیا اور کنویں میں گرپڑا۔ کتے کو گرتے ہوئے کچھ بچوں نے دیکھ لیا۔ کچھ دن میں یہ خبر گاﺅں میں پھیل گئی کہ کنویں میں کتا گرگیاہے۔ سب لوگ بہت پریشان ہوئے اور سیدھے مولوی صاحب کے پاس گئے کہ کنویں کا پانی پیئے یا نہیں؟ مولوی صاحب نے لوگوں کو عالمانہ زبان میں پہلے قرآن و حدیث کے حوالے سے عربی میں کچھ کہا پھر پولے ” دین میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے اور ہر کام ایک مصلحت کے تحت ہوتاہے۔ ہم نے کوئی گناہ کیا ہوگا جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا۔ بنابریں کتے گرنے کے بعد چالیس بالٹی پانی نکال کر پھنک دیں اور اس کے بعد از راہ ضرورت پانی استعمال کریں“۔ اس گاﺅں کے استاد نے بھی یہی کہا ”کوئی مسئلہ نہیں کچھ پانی نکال کر پانی استعمال کرسکتے ہیں“۔ گاﺅں کے لوگوں نے مزید کچھ سوچانہیں کیوں کہ ان کے خیال میں سوچنے سمجھنے کی ذمہ داری ان دو صاحبان کی ہے۔ وہ سب کنویں کے پاس گئے اور چالیس بالٹی پانی نکال کر پھنک دیا اور باقی میں سے پانی پینا شروع کردیا۔ چند دن میں گاﺅں کے اکثر لوگ بیمار ہوگئے جن میں بچے اور بوڑھے شامل تھے۔ کافی عرصے کے بعد سب لوگ مشعل ہوگئے اور مولوی صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ نے غلط گائیڈ کیا ہے۔ مولوی صاحب بولیں” میں نے کہا تھا کہ کتے کو کنویں سے نکالنے کے بعد چالیس بالٹی پانی نکال دو اور پھر نیا پانی دیکر کنویں کے پانی کو استعمال کرو“۔ ایک بزرگ نے مولوی سے کہا ”صاحب اس طرح شروع میں سمجھاتے تو ہماری حالت یہ نہیں ہوتی!“۔
اس معاشرے میں ہمارا حال بھی اس سے کم نہیں ہمارے لیڈران اور عالم آسان زبان میں سمجھاتے نہیں ہے۔ ہم خود ان کے باتوں کو سمجھتے نہیں ہے۔ سوالات پوچھتے نہیں ہے۔ عالم اور امت میں خلاہے۔ استاد اور شاگرد میں گیپ ہے۔ یہ عوامی لہجے میں نہیں بولتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھاکہ” لوگوں کو ان کے ذہین کے معیار کے مطابق ہدایت دو یعنی ان کےے ذ ہنی معیار کے مطابق بات کرو“۔ عالم اور لیڈر کے بعد ہم خود کسی چیز کے بارے سوچتے کم ہے جو وہ بتاتے ہیں ایسا ہی کرتے ہیں وہ بھی سمجھے بغیر۔ اس معاشرے میں لوگ جتنے سمجھتے ہیں وہی کرتے ہیں غورفکر کا عنصر بالکل نہیں ہے۔ جب تک ہم کنویں سے کتے کو نہیں نکالیں گے جتنا بھی پانی نکال دیں بیماریاں کم نہیں ہونگی۔ ہم اپنے معاشرے سے برائیوں کے جڑوں کو نہیں نکالتے ہیں ۔ کرپشن‘ لوٹ مار‘ بے ایمانی‘ لاقانویت‘ اقراپروری‘کام چوری یہ سب چیزیں جب تک ہیں ہماری جسمانی اور روحانی بیماریاں کم نہیں ہونگی۔ اب محکمہ تعلیم ہو یا صحت‘ محکمہ تعمیرات ہو یا برقیات‘ پولیس ہو سول سپلائی‘ جنگلات ہو یا محکمہ سیاسیات ان سب کنوﺅں میں گندگی موجود ہے۔ ان تمام کو صاف و شفاف کرنے کے لئے پورے کنویں کو صاف کرنا ہوگا۔ یہ کام بہت مشکل اور سمجھداری کا ہے۔ وقت پر نہ ہوا تو کئی ایک جانیں ضائع ہوجائیںگے۔گلگت بلتستان کی صوبائی سیٹ اپ کے ابتدائی سال ہیں اب اگر ان کنوﺅں کی صفائی نہ ہوئی تو تاریخ کی بدترین بیماری ان اداروں میں لاحق ہو گی جس کا کوئی اعلاج ممکن بھی نہیں ہوگی۔ وزیر اعلیٰ اور وزراءسے گزارش ہے کہ خالی چالیس بالٹی پانی نکالنے سے کنواں صاف نہیں ہوگا ۔ کنویں کو پورا صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ
وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھے صدیوں نے سزا پائی !

Related Articles

One Comment

  1. Muhammad jan sahib you have well reflected and depicted the picture of society as well as institutions. The main flaw is that we cannot see any person or social set up to make up realization of their negligeces and injustices. From gross root level there should be a group of sensible and committed people who abhors from all types of prejudices, like partism,sectionalism, nationalizm,nepotism and favourtism. At village , tehsil, district and GB level social development forums or committees can be constituted and through these forums institutions can be influenced through logically and professionally to all types of instititutions whether those are semi or government or private to follow the universal recognized rules and principles of good governance( transparency,fairness, accountability , equity and equality)Injustice and unequality of society has demoralized the common people thus he is in grip of social evils.All types of people need to play their role through writing, speaking, sensitization and following good rules regulations where ever they found or our great religion Islam has showed.

    Ali Mehr
    Social Activist
    Gilgit

Back to top button