گوشہ اردو
پھر کب آو گے؟
خدا کرے کہ میرے ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ¿ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے ہیں سدا کھلے ہی رہے
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
شہیدوں کی سرزمین ضلع غذر جو چار وادیوں (پونیال، اشکومن، گوپس، یاسین) پر مشتمل ہے، جو خوبصورتی، دلکشی اور دلفریبی کا حسین شاہکار ہے۔ ہر طرف اُبلتے اُچھلتے چشمے، کاجل و رخسار کو چومتی بکھری بپھری ہوائیں، گرتی مچلتی آبشاریں، ہر چہار سو جومتے جھولتے چیڑ و چنار کے درخت، سبزہ سے لدی ہوئی وادیاںاور حسن و خوبصورتی کی شہزادیاں قدرت کے وہ عطایا ہیں جہاں ہر طرف حسنِ فطرت کی دیوی اپنے جلوو¿ں کی خیرات تقسیم کر رہی ہے۔ دِل کو سرور اور سکون بخشنے کے سبھی سامان وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جب گاڑی ان راستوں پر چلتی ہے تو پہاڑوں کی سخت و سنگلاخ چٹانیں رس رس کر رستے میں بہتا ہوا پانی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے آنے والے مہمانوں کا بے قراری سے انتظار و استقبال میں آنسو بہا رہا ہو۔ ہر طرف سبزہ سے بھرے ہوئے پہاڑوں کے درمیان سے صاف و شفاف بہتے ہوئے سفید چمکدار چشموں پر بلاشبہ یہ گمان گزرتا ہے جیسے کسی حسینہ کے رخ و رخسار سے بہتے ہوئے آنسو، بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف پر جب سورج کی کرنیں رقص کرتی ہیں تو یوں لگتا ہے، جیسے پہاڑوں نے آبدار موتیوں سے مرصع تاج پہن رکھا ہو اور اس کی چمک آنکھوں کو لبھاتی اور دِلوں کو چراتی ہے۔ قرمبر جھیل اور دریائے اشکومن کی دھیمے دھیرے انداز میں بہتی ہوئی لہریں اور پھر پتھر سے ٹکرا کر رقص کرتی ہوئی واپس لوٹتی ہوئی موجوں میں خوابیدہ دِلوں کو بیدار کرنے کا کونسا سامان نہیں ہے۔۔۔؟ اس کے ٹھنڈے پانی میں ذرا پاو¿ں ڈبو کر تو دیکھیں، رگ رگ میں ٹھنڈک و تازگی کی لہر دوڈ جاتی ہے۔ دریائے اشکومن، قرمبر جھیل، خلتی لیک یا شیر قلعہ دریا کے کنارے کھڑے ہوجائےں تو ساون کی بکھری بپھری ہوائیں بالوں کو چھیڑتی، لب و رخسار سے کھیلتی، نینوں کو میچتی، کپڑوں سے اٹھکیلیاں کرتی اور دامن کو اُڑاتی۔۔۔ دل اُڑا لے جاتی ہے۔ شاعر نے شاید اس لئے کہا ہے
چھیڑتی ہیں مجھ کو ہوائیں بہار کی
سمجھاتی ہیں دل کو یہ راہیں فرار کی
سورج جب شرما کر بادلوں کی اوڑھ میں چلا جائے اور ذرا سایہ ہوجائے اور ہوائیں تیز ہوجائےں تو موسم اور بھی تیکھا ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈے پانی میں ہاتھ دھو کر، پاو¿ں ڈبو کر ذرا لاہور ، ملتان اور کراچی کی چلچلاتی دھوپ، اُڑتی ہوئی دھول اور سر تا پا پسینے سے شرابور انسان کا تصور کریں تو انسان کے یخ بستہ احساسات اور تخیلات میں قدرے تلخی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور انسان بزبان حال و قال ربِ کریم کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اے اللہ! تو نے ہمیں کیا ملک عطا فرمایا جو بیک وقت متنوع اوصاف اور مختلف نعمتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر اس ملک کے ایک حصے میں سخت سردی ہے تو لوگ شب کو رضائیاں اوڑھنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف اس قدر گرمی کہ پنکھے، ائیر کولر اور اے سی کے بغیر چارہ نہیں۔ دنیا میں کتنے ممالک ہیں جو سمندر جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے وہ سمندر کی موجوں سے نہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور نہ ہی سمندری تجارت کے لئے ان کے پاس کوئی ساحل و بندرگاہ ہے۔ اگر کسی ملک کو سمندر ملا ہے تو وہ بلند و بالا خوبصورت پہاڑوں کی چوٹیوں کے حسین نظاروں سے محروم ہیں اور کتنے ممالک صحرا کی ہوا اور اس کے فوائد سے تہی دست ہیں اور اگر کسی ملک کے پاس صحرا ہے تو وہ وسیع و عریض ذرخیز اور سرسبز و شاداب میدانی علاقوں سے محروم ہیں، لیکن قربان جایئے اپنے وطن پر کہ قدرت نے جہاں اسے کراچی کے خوبصورت ساحل و سمندر دیا ہے، تو وہاں کے ٹو اور ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں اور طویل پہاڑی سلسلوں سے بھی نوازا ہے، جہاں اسے بلوچستان کا وسیع و عریض ڈیزٹ عطاءکیا ہے تو وہاں پنجاب کا اجناس اور میوہ جات سے لدا ہوا میدانی علاقہ بھی دیا ہے۔ اتنے حسین ملک کو سونے کی چڑیا اور گولڈن برڈ کے اور کیا نام دیا جاسکتا ہے، جہاں اہل یورپ کو ہمارے اسلاف اور بانیانِ وطن نے بڑی مشکل سے دھکے دے کر نکالا تھا اور اب بھی دِل بہلانے وہ یہاں آیا کرتے ہیں۔
اس قدر حسن، دِلکشی اور دلفریبی کے باوجود کسی نے شمالی علاقہ جات کو جنت نظیر نہیں کہا۔ اس سے آپ کشمیر کی خوبصورتی، رعنائی اور دلربائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جس کو دنیا میں جنتِ نظیر اور جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسان کا حسن ہی کبھی اس کی زندگی کے لئے وبالِ جان بن جاتا ہے اور یہی حقیقت ہمیں کشمیر میں مجسم شکل اختیار کئے ہوئے نظر آتی ہے۔
بات شہیدوں کی سرزمین غذر سے چلی تھی۔ اس علاقے کے لوگ سادہ، مخلص اور مہمان نواز ہوتے ہیں۔ مہمان نوازی میں چائے سب سے پہلے پیش پیش ہوتی ہے، جس کا پہلا پیالہ انسان کو بخوشی دوسرا باالصبر اور تیسرا بالجبر پینا پڑتا ہے۔
جب انسان ان علاقوں کو چھوڑ کر واپس آتا ہے تو گاڑی آگے کو بڑھتی ہے مگر دِل پیچھے کو کھینچا چلا جاتا ہے اور فراق میں آنسو بہاتے چشمے نظر آتے ہیں اور چیڑ و چنار کے خاموش کھڑے درخت اس حسینہ کا نقش پیش کرتی ہیں، جو اپنے ہرجائی کو دِل پر پتھر رکھ کر رخصت کرتے ہوئے بے بسی کے عالم میں صرف یہ کہہ پاتی ہے۔
۔۔۔پھر کب آوگے؟؟؟
Karimi is an emerging writer coming of this generation and after a long long time one could get a good piece of artcle to read. I know how valued it is in today’s turbulent times when every peaceloving youth is confused of mainly for his/her being unable to play role in pacifying the situation.
I invite every person, whether or not educated, to join Karimi for spreading the soft profile of the region, peace loving attitudes of the people, constructive behaviour of the youth, and hopeful future of the coming generations.