گوشہ اردو
وزیر آعظم پاکستان کا دورہ گلگت
ہدایت اللہ آختر
پچھلے مہنے وزیر آعظم پاکستان نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا وزیر آعظم کے اس دورے سے لوگوں کی بہت ساری توقعات وابستہ تھیں اور جیالے و حکومتی کارندے بھی یہ باور کرا رہے تھے کہ گلگت بلتستان ملک کا پانچواں اور آئنی صوبہ بن رہا ہے جس کا اعلان وزیر آعظم خود اپنے اس دورے میں کرنے والے ہیں لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا لوگ جس چیز کے لئے آس لگائے بیٹھے تھے اس بارے وزیر آعظم کے منہ سے ایک لفظ تو کجا اس نے اس بارے کوئی امید بھی نہیں دلادی کہ یہ علاقہ پاکستان کا آئنی صوبہ بن رہا ہے ۔وزیر آعظم کے دورے کے بعد تو جی چاہ رہا تھا کہ میں اپنا سر دیوار سے ٹکرا ﺅں اور اپنے گلگت بلتستان کے عوام کی سادہ لوحی پر سر کے بال نوچوں یا ماتم کروں دیوار سے سر ٹکراﺅں یا گلگت کی ٹوٹی پھوٹی کھڈوں سے پر سڑکوں میں دیوانوں کا رقص شروع کردوں لیکن دوسری طرف سے ایک دم خیال آیا کہ یہاں کے عوام کی ریت ہی یہی ہے کہ یہ لوگ محبت اور وفاﺅں کی مثال آپ ہیں اور اسی چاہت میں ہر ظلم برداشت کرتے ہیں ۔وفاداری کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کا آئنی حصہ نہ ہونے کے باوجود بھی خود کو پاکستان کا شہری اور باسی سمجھتے ہیں وزیر آعظم ہمارے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا لیکن اسس کا استقبال اس شاندار طریقے سے کرتے ہیں کہ جنہوں نے اسے ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجا ہوگا وہ بھی حیران ہوتے ہیں ائیر پورٹ پر گارڈ آف آنر اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ جیسے کوئی غیر ملکی وزیر آعظم ہمارے پاس آیا ہو۔اس کے پیچھے بھی ہماری تاریخ ہے سمجھنے والے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ ریت کب سے چلی ہے اور ابھی تک جاری کیوں ہے ۔۔۔۔ہم محبت کے میدان میں مجنوں ہیں اور لیلی کا مجنوں بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا ایک وہ زمانہ تھا جس میں ہم اپنے آقاﺅں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے کتے تک اپنی گود میں اٹھا کر ان کو ان کی منزل مقصود تک پہنچاتے رہے اور ایک یہ زمانہ ہے جدید جس میں محبت کے طور طریقوں نے جدت اختیار کی ہے اگر میں یہاں گلگت بلتستان کے لوگوں کی محبت اور چاہت میں اپنے آقاﺅں کی گئی خدمتوں کی داستاں بیان کروں تو اوراق بھر جائینگے لیکن ہماری محبت کی داستاں شائد ختم ہو ۔ہمارا ماضی ہماری محبت اور الفت کا سب سے بڑا گواہ ہے شری بدت سے لیکر وزیر آعظم پرویز اشرف تک ہر زمانے میں ہم نے اپنی محبت اور الفت کا لوہا منوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہماری یہ چاہت اور الفت رنگ لانے میں ابھی تک ناکام ہے نہ جانے کیوں ہر دور کے حکمران ہماری اس محبت کو خاظر ملحوظ نہیں کرتے بقول علامہ اقبال ۔۔
تیرا جلوہ کچھ بھی تسلی دل ناصبور نہ کر سکا
وہی گریہ سحری رہا وہی آہ نیم شبی رہی
جلوہ تو پاکستانی وزیر آعظم نے ہمیں دکھایا ہم ان کے مشکور ہیں خصوصی طیارہ بھی گلگت ائیر پورٹ پر اترا اور اس کو فضا میں بلند ہوتے ہوئے بھی لوگوں نے دیکھا صحافیوں کے کو وزیر آعظم کے قریب تو کیا دور دور ت تک بھی پھٹکنے نہیں دیا گیا جیسے وہ بھی ہمیں نظر آیا کیا کیا اعلانات ہوئے اس سے بھی سب لوگ باخبر ہوئے وزیر آعظم نے گلگت بلتستان کی خوبصورتی کا ذکر شاعرانہ انداز سے کرکے داد بھی وصول کی اور ہمار ے ووٹوں سے منتخب چند ممبرز اور باقی وزیر آعظم کے تنخواہ دار ملازموں نے خوب ڈسک بھی بجائے تاکہ وزیر آعظم صاحب خوشی سے جھوم اٹھیں ۔ اور ہوا بھی ایسے ہی وزیر آعظم صاحب نے خوش ہوکر دو ارب روپے کی خیرات یا بھیک ہمارے کشکول میں ڈال دیا ۔۔ واہ جی واہ مبارک ہو اس خیرات سے سب سے زیادہ خوشی ٹھیکدار برادری کو ہوئی ہوگی وہ اس لئے کہ جون میں جو چیک ایشو کئے گئے تھے وہ سارے کے سارے بونس ہوگئے تھے ان کو خوشی اس بات کی تھی کہ ان کے یہ چیک اب کیش ہونگے۔۔۔اس دورے میں وزیر آعظم کے ساتھ دیگر مہمانوں کے علاوہ ایک شخصیت جو گلگت بلتستان کے لئے اہم تھی وہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان جناب منظور وٹو کی تھی لیکن ان کے منہ سے بھی کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی بات منظر عام پر نہ آئی ۔۔ایک اور بات بھی وزیر آعظم کی عجیب سی لگی جس میں وہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے گلگت بلتستان کے لوگوں کو شناخت دی شناخت کس قسم کی ؟قومیت کی اگر قومیت کی دی ہے تو اب گلگت بلتستان والے ایک قوم ہوئے ہونگے بلا کوئی بتائے کہ کہ گلگت بلتستان والے کونسی قوم کہلاتے ہیں ۔۔۔اگر قومیت کی نہیں تو کوئی جغرافیائی شناخت دی ہے یعنی کیا ہمارا حدودربعہ اب تبدیل ہوا ہے اگر ہوا ہے تو اب ہماری باونڈریز کے آر پار کونسے ہمسائے ہونگے ؟ کیا ہمیں کشمیر سے الگ کر دیا گیا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر کس قسم کی شناخت کا ذکر وزیر آعظم کر رہے تھے ؟ اگر نام کی بات کر رہے تھے تو کیا یہ علاقے ماضی میں گلیت بلتستان نہیں تھے ؟ اگر تھے تو اس کا نام شمالی علاقہ جات کیو ںرکھا گیا تھا ؟ اور دوبارہ اس کا نام گلگت بلتستان رکھنے سے یہاں کے لوگوں کو اس کا فائدہ کیا ہوا ؟۔ہاں ایک چیز کا فائدہ ضرور ہوا ہے وہ یہ کہ پہلے ایک ریذیڈنٹ کمشنر لوٹ مار کر رہا تھا اب کئی ریذیڈنت کمشنر مختلف ناموں سے اس علاقے کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر آعظم صرف یہ دو ارب روپے کا اعلان کرنے کے لئے گلگت تشریف لائے تھے؟ جس کے لئے لاکھوں کا خرچہ ا ُٹھایا گیا اور اس دورے کے باعث چار پانچ دن لوگوں کا جینا حرام ہوا۔ شہر میں ٹریفک کا داخلہ بند ہوا سکول کے بچے امتحانی سنٹروں میں دیر سے پہنچے اور کئی بچوں کے پیپر بھی مس ہوئے ۔وزیر آعظم کے دورے کے بعد بھی وہی کاسہ وہی آتش ۔کیا یہ دو ارب روپے وزیر آعظم خزانے کے ذریعے گلگت بلتستان کی کٹھ پتلی اور بے آئین صوبے کی حکومت کو نہیں بھیج سکتے تھے ؟
کوئی بتلائے ہمیں ہم بتلا ئیں کیا ؟