عادت کی تبدیلی
تحریر: محمد جان رحمت جان
دنیا کیا سے کیا ہوگئی لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے حالات زیست یکسر تبدیل ہوگئے عشروں پہلے کی زندگی کے آثار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ہیں۔ گھر‘ محلہ‘ گاؤں‘ قصبہ شہر‘ ملک‘ براعظم اور پوری دنیا کا نقشہ جغرافیائی طور پر وہ نہیں رہا جو محض چند سو سال پہلے تھا۔ دنیا کاپرانا نقشہ دیکھ کر بعض اوقات اپنے علاقے اور اپنے ملک کے بارے میں کہیں ایک سولات جنم لیتے ہیں۔ مثلاََ ہماری ماضی حال سے بالکل مختلف کیوں ہے؟ ہمارا علاقہ وہ نہیں جو کسی وقت تھا۔ مہتر ‘ میر‘ راجے اور دیگر حکمران باقی نہیں رہے۔ کہیں سلطان‘ شہنشاہ‘ بادشاہ‘ ملک ‘ ولی عہد اب اپنی حکمرانی بچانے کے آخری حربے اپنا رہے ہیں کیونکہ جمہوریت کی مضبوط لہریں کئی ایک کو لے ڈھوبی ہے۔ عام آدمی کی زندگی بھی ان حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی۔ اجتماعی اور مخلوط گھریلوں نظام کاشیرازہ اب بکھر چکا ہے۔ ذاتی اور اجتماعی مقاصد بھی نئے رنگ اپنا چکے ہیں۔ کھانے پینے‘ لباس اور ثقافت کے ساتھ ساتھ زبان کی سرحدیں بھی تبدیل ہورہے ہیں۔ رہائش اور بودوباش کے طریقے بدل رہے ہیں۔ قومیں ایک دوسرے سے نہ صرف متاثر ہورہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو متاثر کر بھی رہے ہیں۔ اس پورے منظر میں مذہب بھی محفوظ نہیں رہی۔ عالمی ادیان کی سماجی اثرات سے لوگوں کے ازہان بدل رہے ہیں۔ سینکڑوں سوالات کے انبار لئے حالات اور معاشرے کے خوف سے لوگ اند ر سے اور باہر سے’’ اور‘‘ نظر آتے ہیں۔ عقائد اور اعمال کے اس تضاد نے نئی نسل کو پہلے کی نسل سے نظریاتی دوری کا سبب فراہم کیا ہے۔ لوگ ہزار کوششوں کے باوجود اپنے عقائد کا مضبوط اثر کھو چکے ہیں محض حلیئے اور نقلی اعمال کی وجہ سے روز عملی زندگی میں بے نقاب ہورہے ہیں۔ ان حالات میں معاشرے کی تقسیم نہیں ہوگی تو کیا ہوگی؟شناخت کی جنگ اور مقابلے کی جستجو کے نتیجے میں لوگ ایک بار پھر ماضی کی طرح طبقوں میں تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ان میں قدامت پرست اور قدامت پسند‘ قوم پرست‘ مذہب پرست‘ اعتدال پسند‘ جدت پسند‘ روایت پسند‘ جدیدیت پرست‘ جدیدیت پسند‘ جمہوریت پرست اور جمہوریت پسند‘ آمریت پرست اور امریت پسند یہ سب طبقات اپنے اپنے حلقوں میں مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ نتیجتاََ معاشرہ ٹکراؤکا شکار ہے۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے ترقی کی منازل مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔اس ماحول میں ہر آدمی مصیبتوں کا شکار ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ’’اپنی عادت‘‘ تبدیل کی جائے یا نہیں؟ عادت اور حیثیت کی تبدیلی کوئی اسان کام نہیں۔ اس سے زبان‘ لباس‘ عقیدہ(کسی حدتک)‘ رہن سہن اور روّیے میں تبدیلی آجاتی ہے جو ہوسکتا ہے دوسرے کے لئے قابل قبول نہ ہو۔ یہی وہ جنگ ہے جو نظریاتی سرحدوں میں ازل سے جاری ہے جس کے اثرات سے دینا متاثر ہوتی رہی ہے۔ یورپی جنگیں‘ ایشیائی بلاک اور افریقی تصادمات سے دینا کا نقشہ ہی بدلتا رہا ہے۔ فرانسیسی‘ پرتگیزی‘ انگریزی‘ افریقی‘ رومن اور یونانی قوموں کی چبقلشیں اس کھیل کا نتیجہ تھیں۔ لاکھوں لوگ انہی حالات کی وجہ سے لقمہ اجل بنے رہے۔
قوم پرستی اور مذہب کی جنگ میں یورپ سینکڑوں سالوں تک جہالت کی اندھیروں میں ڈھوبی رہی۔ بادشاہتیں اور سلطنتیں اپنی سرحدیں کھو گئے۔ آخر کار عالمی جنگوں کی وجہ سے عالمی طاقیتں وجود میں آئیں اور آج وہ ملکر محکوم قوموں کی تقدیر کا نا خدا بن بیٹھے ہیں جنکی خوشنودی حاصل کئے بغیرعالمی سیاسی منظر میں کردار ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ ان طاقتوں نے کچھ قوموں کو آپس میں ایسے الجھا کے رکھ دیا ہے کہ قیامت تک الجھنا ان کی تقدیر بن گئی ہے۔ اپنی طاقت اور ساکھ کو برقرار رکھنے کا یہ گُر انہوں نے تاریخ سے سیکھا ہے اور اپنی عادت تبدیل کر دی ہے۔ ایشیا‘ افریقہ ‘یورپ اور بعض امریکی ریاستوں کی زمینی قطعات کو مذہب اور ثقافت سے نتھی کرکے اس قدر لوگوں کے جذبات کو اُن سے مربوط کیا ہے کہ نسل در نسل محض ایک زمینی قطعے کو انا کو مسئلہ بنا کرنسل کُشی کے ساتھ معاشی استحصال بھی جاری ہے۔علماء اور اسکالر ز نے انہی خطوط کو ’’اپنی زبان‘‘ میں اتنی مضبوط کی ہے کہ قومیں ایک الجھے ہوئے نصاب کو قیامت تک نہیں سمجھے گی۔ جو لوگ سمجھ جائیں گے ناسمجھ ان کو کچل دیں گے اور بس یوں عالمی طاقتوں کا عالم بلند ہی رہے گا اور محکوم قومیں ان کا آلہ کار بنتے رہیں گے۔ مشہور ماہرعمرانیات ان خلدون سیاست میں اکثریت اور طاقتور کے ساتھ دینے کو ترجیح دیتا ہے۔ طاقتور سے پنگا لینا دانائی نہیں۔
اپنی وجود اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کئے بغیر نقال قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ یورپ کے روشن خیالی کے زمانے کی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انفرادی تخلیقی سوچ پورے معاشرے کو بدل کے رکھ دیتی ہے۔ قدیم ایرانی بادشاہ سیسرس کی انسانی حقوق کے خطوط کو یونانیوں اور رومیوں نے اس طرح اپنایا کہ ارسطو‘ افلاطون سے لیکر سقراط تک ایسے طاقتور لوگ پیدا ہوئے جن کا حوالہ دیئے بغیر کوئی علم پائیدار نہیں۔ قانون فطرت اور فطرت(Law of Nature and state of Nature)کی سوچ نے بابیلن قوم کو انسانی معاشرتی قوانیں کا نظام سیکھایا۔ اس سوچ کو یوروپین نے اپنایا اور اُن کے فلاسفروں نے اتنی پیش رفتیں کئے کہ مگناکارٹا (یہ انگلستان کے بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان ایک معاہدہ تھا جس کی وجہ سے عام آدمی کے حقوق اوربادشاہ کے حقوق کا تعین ہوا تھا) جیسے معاہدہ کا وجود عمل میں آیا جس نے آگے چل کرامریکی اور فرانسیسی قوم کو انگلستان سے آزادی دلادی۔یہ جان لاک‘ جان مل‘ جان بلیک ‘ جیفرسن‘ روسو‘ کانٹ وغیرہ کے افکار تھے جنہوں نے ماضی کے فلاسفروں سے سبق سیکھا اور پوری دنیا کو متاثر کیا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی قوم کو جنیا سیکھایا بلکہ کئی قوموں میں ’’غوروفکر کرنے والے‘‘ لوگوں کو پیدا کیا جنہوں نے آگے چل کر اپنی قوم کو آزادی دلادی اور الگ شناخت بھی دلایا۔ اس عمل میں کہی کہی نقصان بھی ہوا لیکن تبدیلی ضرور آگئی۔ ایک آدمی کی سوچ کی تبدیلی کی وجہ سے ریڈ کراس جیسے ادارے بنے۔ہنری ڈونٹ جیسے ایک سویڈن شخصیت کی سوچ نے آگے چل کر اقوام متحدہ جیسے اداروں کو جنم دیا۔ اس ادارے کی ساخت میں کوتاہیاں ہی صحیح لیکن پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم دینا ہی کوئی کم کام نہیں۔
اب عادت کی تبدیلی کی اس سفر کو انفرادی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ ہم گلگت بلتستان کے ماحول میں اب تک ماضی کے الجھے نظریات اور خیالات کی چکی میں پِس رہے ہیں۔معمولی سی اختلافات کو بنیاد بنا کر اپنی ہی زندگی کو اجیرن بنا چکے ہیں۔ عالمی سامراجی طاقتیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر الجھا چکے ہیں کہ ہم اس پیچیدگی کی تعلیم نہ صرف حاصل کر رہے ہیں بلکہ اپنی نئی نسل کو اس کی تعلیم دے بھی رہے ہیں۔ مذہبی اختلافات عیسائیوں ‘ یہودیوں‘ ہندوں‘ بدھ متوں‘ شنتومتوں‘ پارسیوں‘ سکھوں‘ تاؤ متوں‘ مظاہر پرستوں‘ زرشتیوں‘ کافروں میں بھی ہیں اور وہ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ وہ بھی تاریخ میں الجھتے رہے ہیں۔ لاکھوں اور کرڑوں جانوں کو کھونے کے بعد وہ سمجھ چکے ہیں کہ اختلافات قائم رکھ کے بھی اتحاد ممکن ہے۔ ہم چودہ سو سال کی تاریخ سے سبق نہ سیکھ سکے۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک گنتی کے چند لوگوں کے علاوہ کوئی بھی اپنی مذہب‘ زبان‘ رنگ‘ نسل‘ عادت‘ ثقافت اور روّیے تبدیل کئے بغیر مر چکے ہیں آج کیسے ممکن ہے کہ راتوں رات لوگ ’’ایک ‘‘ہوجائیں۔ جب یہ بات اٹل ہے تو اختلافات کو رحمت سمجھ کر اپنی اپنی ’’حد‘‘ میں جینے کی عادت اپنانا ہی دانائی ہے۔ لڑنے جھگڑنے کی اس عادت کو جب تک ہم تبدیل نہیں کرینگے عالمی طاقتوں کی شازشوں میں الجھتے رہیں گے اور محکومیت ہماری مقدر بنی رہے گی۔ اس لئے ہم سب کو اپنی عادت میں تبدیلی لاکر اختلافات میں جینے کی عادت کو اپنانا چائیے۔ کروڑوں یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بعد بھی آج ’’وہ‘‘ آپس میں شیر وشکر ہیں تو ہم کیوں نہیں! ۔ ہر ایک کو سزا اور جزا اللہ ہی نے دینا ہے وہی ہر ایک کے بارے بہترفیصلہ کرنے والا ہے جیسے کہ فرماتے ہیں ’’ جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا پارسی (یعنی جو شخص کسی قوم کا بھی ہو)جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور نیک اعمال کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اللہ کے ہاں صلہ ملے گا اور قیامت کے دن ان کو نہ کسی کا خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمناک ہونگے‘‘(البقرہ:62ترجمہ ازجالندھری)۔
عادت کی تبدیلی یہاں تک نہیں عملی ذاتی زندگی میں بھی ہمیں عادت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاََ سہارے ڈھونڈنے کے بجائے خود اپنے آپ کے لئے سہارا بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔ درجن آدمی ایک ’آدمی‘ پر بوجھ بننے کے بجائے ہر ایک کو خود کمائی کا سوچنا چاہئے۔ مذہب اور حکومت کے سہارے جینے کے بجائے مذہب اور حکومت کو سہارا دینے کی عادت اپنا لینی چائیے۔ ہم اپنے ان قدار کو سہارا نہیں دیں گے تو کون ان کو مضبوط کرے گا۔ ہمیں کامیاب قوموں کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی کسی کو ہم اپنا آئیڈل(نمونہ) بناتے ہیں اُس وقت ہمیں ’کامیاب قوموں یا لوگوں یا تہذہبوں کو منتخب کرنا چاہئے۔ ہم روز نماز میں دعا مانگتے ہیں’’اِھْدِنَاالصْراط المستقیمَ ہ صراط الدین انعمتَ علیھم ہ غیرالمغضوبِ علیھم ولاالضآلین ہ(الفاتحہ:۷)یعنی (اے اللہ) ہمیں سیدھے راستے پر ہدایت کرتا رہ‘ ان لوگوں کا راستہ جنہیں تو نے اپناانعام دیا(اپنی نعمتیں عطا کی ہے) نہ کہ اُن کا جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا‘‘۔
اللہ تعالی ہمیں بُری عادتیں ترک کرنے اور اچھی عادتیں اپنانے کی توفیق دیں (امین)۔