کرکٹ دیکھے یا خبریں اور تجزیے ؟
تحریر: محمدجان رحمت جان
سولہوی صدی میں انگلستان کے کچھ علاقوں میں بچوں کے درمیان کھیلی جانے والی اس کھیل نے آگے چل کر ایک صدی بعد بین الاقوامی رنگ لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ اور تاج برطانیہ کے زیر نگین تمام ملکوں میں شہرت پا گئی۔ یوں تو انگریز برصغیر میں بہت کچھ چھوڑ گئے لیکن کرکٹ کی وبا کو جو شہرت برصغیر میں ملی وہ کہی اور نہ مل سکی جس کی وجہ سے مقامی تمام کھیل کھود یہاں تک کہ قومی کھیل ہاکی بمشکل زندہ رہی ہے۔ موجودہ وقت میں دولت مشترکہ کے تمام ملکوں سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ صحت کیلئے ورزش اور ورزش کھیل ہی سے ممکن ہے لیکن ہمارے ہاں لوگ کھیل کھیلتے کم دیکھتے زیادہ ہے جس کی وجہ سے وزن میں روز روز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اب میڈیا کی کثرت نے کھیل کھود کو بہت عام کیا ہے۔
اس قدر شہرت کی وجہ سے دنیا کے جس کونے میں بھی ہو ہمارے لوگ گھنٹوں تک ٹی وی کے سامنے بیٹھے دیکھتے دیکھتے تھکتے بھی نہیں ہے۔ اب گھروں میں بڑوں اور چھوٹوں میں یہی جھگڑا رہتا ہے کہ ’’کرکٹ دیکھے یا خبریں‘‘۔ میڈیا میں پہلے زمانے یہی لڑائی فلم کی وجہ سے بھی ہوتی تھی اور آج تک جاری ہے بعض لوگ تین تین گھنٹے فلمیں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ گھر وں میں اب اس قسم کے ایشوز عام ہے۔ کچھ کو فلم دیکھنے کا نشہ ہے کچھ کو کرکٹ کا کچھ لوگ مختلف پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں اور کچھ خبریں ہی خبریں۔ گھروں میں کثیرالمقاصد خیالات کے لوگوں کی موجودگی گھر سے ہی تکثیرت اور گوناگونی کا منظر پیش کررہی ہے۔ موجودہ سیاسی اور معاشی دنیا کے سپر پاور ملکوں یا ترقی یافتہ ملکوں میں سے بہت کم اس قدر ان کھیلوں میں مگن رہے ہیں۔ ہماری قوم ہر چیز کو دینی پیرائے میں پرکھتی ہے لیکن کرکٹ کے معاملے میں عالم سے لیکر جاہل تک سب کے سب بہت مشتاق رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین میں سے صرف برطانیہ کرکٹ میں شامل ہے۔ برطانوی کالونی کی وجہ سے ہم اس کھیل کے محافظ رہے ہیں۔ دیگر اقوام کی اس کھیل میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی کہ ہماری قوم میں ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ اس کھیل کو کھیلنے والے پیدا ہوجائے نہ کہ صرف چوبیس گھنٹے دیکھنے والی قوم!۔ خیر اس بات پہ اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہمارے گھروں میں لڑکے کرکٹ دیکھنے میں مصروف ہیں اور لڑکیاں فلمیں اور ڈرامے۔ گھروں میں لڑکے لڑکیاں موقع پاتے ہی ٹی وی کے سامنے برجما ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی خبریں اور تجزیے دیکھنے والا ہوتو یہ دونوں بے بس نظر آتے ہیں۔
جدید دور کا یہ حال ہے کہ مہمان جو بھی آئے پہنچتے ہی کرکٹ پر یا خبروں پر تجزیہ شروع ہوجاتی ہے رشتہ داری کا احوال اور دیگر رویاتی اقدارمجروع ہوتے جارہے ہیں۔ یہی نہیں مہمان پہنچتے ہی موبائل کے ساتھ اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ میزبان کیلئے اُس سے بڑے انتظار کے بعد بات کی باری آتی ہے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ کسی کام سے گئے لیکن کرکٹ اور خبروں پر تبصرے کرتے کرتے اپنا مداح بھول جاتے ہیں۔ بہت پڑے لکھے لوگوں کے گھروں میں بچے جوان سب دن رات ٹی وی کے سامنے برجما رہتے ہیں لیکن اُن سے پوچھو کہ کل پاکستان میں یا دنیا کیا کیا اہم واقعات ہوئے؟ کوئی جواب نہیں دے پائے گا۔ یا بعض اوقات کسی طالب علم سے کوئی پوچھے کہ ہمارے ملک کے وزیر تعلیم کا کیا نام ہے؟ کوئی نہیں پتہ! بحرحال ہماری قوم کو بھی دوسروں کو دیکھتے دیکھتے زندگی گزارنے کی بجائے خود بھی کوئی ایسا کام کرے کہ لوگ ہمیں بھی دیکھے۔ خبریں دیکھیں تو محض اموات‘ قتل و غارت اورچاروں طرف ہماری بے حسی نظر آتی ہے۔ انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں بھی ہم دوسرے ملکوں کے چینلوں کے ناظرین رہتے ہیں کیونکہ ہمارے چنیلوں میں وہ میعار نہیں کہ ہم دیکھتے دیکھتے کچھ سیکھ بھی سکیں۔ یہی نہیں اب رہی سہی کسر فیس بُک نے لے لی ہے۔ دن رات ہمارے پیروجوان اس پر پسند اور ناپسند(Like and Dislike) پر رائے دیتے رہتے ہیں۔
ایک دفعہ ہم نے کسی دوست کے ابو سے پوچھا کہ ہمارے دوست کے آج کل کے کیا مصروفیات ہیں؟ کہنے لگے ڈبل ایم۔اے کے بعد اب صرف فیس بُک پر لائیک اور ڈس لائیک کرتے رہتے ہیں اور کوئی مصروفیت نہیں!۔ اس تمام مباحثے کے بعد کہنے کا مداح یہ ہے کہ طالبعلموں کو اپنے وقت کا خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کرکٹ بہت پسند ہے تو اس کو کریئر کے طور پر اپنائیے تاکہ زندگی بھر کھیل بھی اور لطف بھی ہوگی۔ امتحان کے دوران یا اہم ٹسٹوں کے موقعوں پر ہمیشہ کرکٹ دیکھنا دانائی نہیں۔ میڈیا کے تمام پروگراموں کو دیکھنا چاہئے کبھی کبھی خبریں کبھی فلم اور کبھی کھیل کھود دیکھنا اچھی بات ہے لیکن چوبیس گھنٹے ایک ہی چیز دیکھنا ہو سکتا ہے وقت اور صحت کے لئے مضر ثابت ہو۔ فلم اور کھیل دو ایسی چیزیں ہیں جن کی عملی زندگی میں کوئی کردار نہیں یہ وقت گزارنے یا خالی وقت میں کسی اور کی زندگی سے سیکھنے کے طریقے ہیں۔ اب ہمارے نئی نسل کی صورت حال یہ ہے کہ دن بھر بیڈ لیکر گلی‘ کوچوں‘ سڑکوں‘ کھیل کے میدانوں‘ غرض ہر جگہ کرکٹ میں مصروف ہوتے ہیں اور رات کو ٹی وی کے سامنے محو رہتے ہیں۔ اِن کو دیکھنے کے بعد اختتام یوم نتیجہ کیا ہوگا؟ فرض کرے ایک ملک جیت گئی ایک ہار گئی یا ایک فلم کے اخر میں یہ ہوا کہ لڑکی کی محبت کی شادی ہوگئی توکیا ہوا؟ یہاں مقصد یہ نہیں کہ ان کا بالکل کوئی فائدہ نہیں بلکہ عرض یہ ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ جنوں ہو یا محنت دونوں کی حد مقرر ہے۔ ہماری سماجی زندگی میں اور بھی کردار ہیں۔
خود کمانا‘ لکھنا‘ پڑھنا‘ رشتہ داروں کے حقوق‘ ہمسایوں کے حقوق‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کے سرگرمیاں۔ اس کے علاوہ دینی اقدار جن کی ادائیگی ہمارے لئے روحانی تسکین اور ترقی کا باعث ہوگی۔ لیہذا ان تمام چیزوں کا خیال رکھ کر میڈیا کا استعمال کرنا چاہئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا کبھی آپ کے گھر میں بھی یہ مسائل پیش آئے ہیں؟ آپ ایسے حالات میں کیا کرتے ہیں؟ دین دنیا میں متوازن زندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم متوازن زندگی گزارنے کی کوشش کریں تاکہ کھیل کھود کے ساتھ ہماری دنیا اور اگلی دنیا بھی آباد رہے! ’’اور بعض ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اوردوزخ کی آگ سے محفوظ رکھیں‘‘(القرآن: 2:201)۔
very real issue has been discussed…. we all must think about it!!!