گوشہ اردو

گلگت بلتستان اگلا نشانہ۔۔۔؟؟

زمان پونیالی

گلگت بلتستان کے پر امن علاقے گوجال ہنزہ میں پھوٹتے ہنگامے جہاں انتظامیہ کی نااہلی اور امن عامہ کے قیام کی طرف اس کے غیر سنجیدہ رویے کے غماز ہیں ، وہی اس امر کے شاہد بھی کہ ہم نے آگ و خون کے ہولناک کھیل کے مسلسل اعادے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ کوتاہ نظر سیاست دانوں اور مصلحت کوش انتظامیہ کی جانب سے صمحض مزدوروں کا جھگڑا147 قرار دیے جانے والے واقعات کے پس پردہ خدا جانے کتنے محرکات کارفرما ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کے ایک انتہائی موقر خبر رساں ادارے کو خبر ملی ہے کہ حساس اداروں کو کچھ خفیہ دستاویزات اور نقشے ہاتھ لگے ہیں، جن سے انکشاف ہواہے کہ غیر ملکی عناصر گلگت بلتستان میں مخصوص اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہیں،جن سے خطے کے امن وسلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ہمسایہ ملک کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی 146را147 اس مہم میں پیش پیش ہے۔دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ خفیہ قوتوں نے ان اہداف کے حصول کے لیے منظم حکمت عملی طے کر لی تھی۔ان اہداف میں سرفہرست علاقے پر سے پاکستان کا اثر رسوخ ختم کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے علاقے میں بدامنی اور مذہبی منافرت کو ہوا دی جاسکتی ہے، تاکہ اندرونی خلفشار اور انارکی کے سبب حکومتی رِٹ ختم ہوجائے۔دستاویزات سے شواہد ملے ہیں کہ خفیہ ہاتھوں نے گلگت بلتستان اسمبلی کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ ان دستاویزات نے اس منظم سازش سے بھی پردہ اُٹھایا ہے ، جو گلگت بلتستان علیحدگی تحریک کی صورت غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ایما پر رچی جارہی ہے۔سیکیورٹی اداروں کے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ایک پاکستان دشمن ملک کے تعاون سے پاکستان اور چین کے مابین اختلافات پیدا کرکے دونوں ممالک کی لازوال دوستی اور باہمی تعاون کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔

بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ گلگت بلتستان کا علاقہ اپنی انتہائی اہم جغرافیائی حدود کی وجہ سے اس عالمی مسابقت میں خاص اہمیت کا حامل ہوگا، جو جنوبی ایشیاءمیں تین جوہری طاقتوں کی موجودگی نے پیدا کی ہے۔دانشوروں کا خیال ہے کہ طاقت کی اس جنگ میں جنوبی ایشیاءکے سنگم میں واقع یہ خطہ مرکز کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ عرصہ دراز سے علاقے میں پنپتی سازشیں اور خفیہ منصوبے اس خیال کو تقویت بخشتے ہیںکہ گلگت بلتستان کی عالمی اہمیت آنے والے دنوں میں دوچند ہوجائے گی۔لہٰذا آنے والا وقت حکومت وقت اور یہاں کے عوام کے لیے بھاری ذمہ داریاں اور آزمائشیں لے کر آسکتاہے۔اس سے پہلے بھی دشمن اس علاقے میں بدامنی اور انتشار کو ہوا دے چکا ہے۔اس مقصد کے لیے اس نے عوام کے باہمی اختلافات کو خطے میں نقصِ امن کے استعمال کیا۔ مذہبی فرقہ واریت وہ ترپ کا پتّاہے ، جو گلگت بلتستان کا ہر دشمن اپنی آستین میں چھپا کر رکھتا ہے ، تاکہ وقت ضرورت اسے تباہی و بربادی کے لیے استعمال کرے۔علاقے کی آئینی حیثیت کو متنازعہ قرار دے کر دراصل علاقے کوتعمیر و ترقی کے مواقع سے محروم رکھا گیا ، جو ممکنہ طور پر لوگوں کو تعلیم یافتہ اور باشعور بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا تھا اور یہ بات گلگت بلتستان کے دشمنوں کو ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ عوام نا صرف اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو پہچان لیں ، بلکہ ان کا مناسب تدارک بھی کرلیں۔علاقے میں تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اسی لیے پرزور مخالفت کی جاتی ہے ۔بھارت کی ازلی خواہش ہے کہ گلگت بلتستان کو بھی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ نتھی کرکے ہڑپ لیا جائے۔اس مقصد کے لیے ایک موثر میڈیا مہم شروع کی گئی ،جس میں کشمیری لیڈر اور بھارتی زعما یک زبان ہوکر گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دے رہے ہیں۔اس سلسلے میں کشمیری لیڈروں کی ہٹ دھرمی بھی دیدنی ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کے احتجاج کے باوجود مصر ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام کشمیری بھائیوں کی حریت اور جدوجہد آزادی کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں لیکن 148کشمیر کاز147 کے لیے بیس لاکھ عوام کو قربان کرنا بذات خود ایک ناانصافی ہوگی۔اپنے انتہائی بااثر میڈیاکی ناکامی کے بعد بھارت عملی اقدامات پر اتر آیا ہے۔ گلگت بلتستان میں پکڑی جانے والی سازش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں حکومت ِ وقت ، علاقے کے عوام، عوامی نمایندوں،دانشوروں، طالب علموں اور مفادِ عامہ کے اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ علاقے کے امن و سلامتی کو درپیش خطرات کا سدباب کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کریں۔اس مقصد کے لیے وسیع پیمانے پر شعور و آگہی مہم چلانے کی ضرورت ہے ،جس میں لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ بین المذاہب رواداری اور بقائے باہمی کی روایت کو فروغ دے کر گلگت بلتستان کو بیرونی طاقتوں کے گھناونے منصوبوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ لوگ اس حقیقت سے باخبر رہیں کہ دنیا ایک عظیم مسابقت اور کشمکش کا حصہ بن رہی ہے اور اس میں صرف وہی قومیں کامیاب و کامران ہونگی ،جو اتحاد و اتفاق ، رواداری، برداشت،صلہ رحمی، امن و سلامتی اور اندرونی استحکام کو فروغ دیں گی۔ اس کے برعکس وہ قومیں صفحہ ہستی سے نابود ہوجائیں گی، جو انتشار ، بدامنی، نفاق، کدورت اوردشمنی کی راہ اپنائیں گی۔

Related Articles

Back to top button