گوشہ اردو
سانحہ عطاآباد کی دوسری برسی
مولا مدد قزیل
چار جنوری ٢٠١٠ گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک المناک دن تھا، جب قدرتی آفت نے ٢٠ قیمتی جانیں چھین لیں اور ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا. یہ وہ دن ہے جب ہماری درسگاہیں ، عبادت گاہیں اور جائیداد تباہ و برباد ہو گئے. ہنستے ہنستے گھر ماتم کدہ بنے۔کھیلتے کودتے بچوں کے چہرے مرجھا گئے۔سرسبز وادیاں ، گنگناتے آبشار، چہکتے پرندے سب ہی اُداس اور ویرا ن ہو گئے۔ وہ پہاڈ اور درخت جنہوں نے مٹی کو اپنی گرفت میں رکھا تھا ڈھیلے پڑ گئے بلکہ اُنہوں نے اپنی گرفت ختم کر دی۔تب کیا تھا بلندیوں سے پتھروں کی بارش تھی ، چند لمحات میں سب کچھ ڈھیرہو گئے۔پلک جھپک میںگاوں کے گاوں ویراں ہو گئے۔ اتنی تباہی، انسانی ہلاکتوں اور املاک کے ضیاع کے بعد ہم نے اس سانحہ سے کیا سیکھا ؟
آج تلک یہ ہم نہیں سمجھ پائے کہ یہ آزمائش تھی یا ہمارے گناہوں کی سزا تھی یا کسی ارضیاتی عمل کا حصہ تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ قیاس آرئیاں اور تبصرے دو سال کے گزرنے کے باوجو دبھی جاری ہیں اور اگلے کئی سالوں تک اس سانحہ پر باتیں ہوتی رہے گی مختلف آراء کے باوجود ایک بات مشترک ہے کہ یہ آفت گلگت بلتستان کے لوگوں کیلئے ایک انتباہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قدرتی آفت سے کوئی محفوظ نہیں اس لیئے ایسی قدرتی امتحان میں کامیاب ہونے کیلئے ایک قوم اور انسانیت کی روح کو بیدار کرنے کی از حد ضرورت ہیں
آج اس المناک سانحہ کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں ۔ لیکن یہ اذیت ناک زخم آج بھی تازہ ہے۔ اس کی شدت وہی لو گ جانتے ہیں۔ جو متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جنہوں اپنے ہا تھو ں سے اس سر زمین کی مٹی کو سونگھا ہو، جنہوں نے اپنے ماپ کو اس مٹی میں باغات لگاتے دیکھے ہوں ۔ جنہوں نے اس کوہ دامن میں سرسبز و شاداب کھےت اور پھلوں کے باغات لگائے ہوں۔ شاید گلگت بلتستان اور پاکستانی قوم کے سیاسی نمائندے یہ جاننے سے قاصر ہیں کی عطا آباد کو کن مشکلات اور کھٹن لمحات سے گزر کر ایک خوبصورت پریستان بنا ےا تھا۔ شاید یہ حواس کے پوجاری نہیں جانتے کی شیشکٹ ، گوجال کو آباد کرنے والوں نے کتنے مشکلات سہ کر اسے مثل باغ عدن بناےاتھا ۔آج یہ اجڑی ہوئی بستیاں ، ڈوبے ہوئے گھر، ویران باغات، ہماری غیرت پر نوحہ کناں ہیں۔کہی۔۔۔ ہماری یہ خاموشی ، ۔۔ ہماری عروج، بلندی، عظمت ، شان اور تاریخی کارناموں کی کہکشاﺅں سے گرا کر ذلت کی پستیوں میں نہ ڈالے، ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے آباواجداد نے کھبی بیک مانگ کے روٹی نہیں کھائی آج متاثرین کو ذبردستی مفت کی روٹی فراہم کی جا ر ہی ہیںتا کہ محنت و مشقت کی عادت ختم ہو اور گدھ جیسی عادات پیدا ہوں .
مجھے برباد کرنے کو
مجھے بے کار کرنے کو
دیا جاتا ہے دیکھو
کچھ دنوں سے ممفت میں روٹی
حالانکہ ۴ جنوری سے اب تک متاثرین نے گورنمنٹ اور نجی اداروں سے یہ اپیل کرتی چلی آئی ہے انہیں مفت روٹی نہیں بلکہ مستقل آباد کاری کا کوئی حل ڈھونڈے۔حکومت اور نجی ادارے جنہوں نے ۴ جنوری سے جھوٹے وعدوں میں متاثرین کے آنکھوں میں دوھول جھونکے اب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ان سیاسی بیڑوںاور نجی اداروں نے متاثرین کی ایک نہ سنی اور ظلم پہ ظلم کرتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ جب متاثرین نے اپنی حق کے لئے آواز بلند کی تو گولیوں سے متاثرین کے سینوں کو چھلنی کر دی گئی۔ اور انصاف کے دعوداران حالات میں نہاں ہو گئے۔ دنیا جانتی ہے کہ اس پہلے بھی لوگوں نے گلگت و بلتستان میں نہ صرف گورنمنٹ کے املاک کو نقصان پہنچاےا بلکہ گورنمنٹ اداروں کی لوٹ مار کی۔ مگر ان کے خلاف نہ گورنمنٹ نے کوئی FIRدرج کی اور نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے کوئی قدم اُٹھایا۔ مگر آج اہل ہنزہ کے لوگوں کے خلاف یہ باغاوت کیوں؟؟؟؟ کیا یہ کوئی سیاسی بدنیتی ہے یا کوئی مذہبی انتہاپرستی ؟؟؟
وجہ جو بھی ہو اہل دانش، گلگت بلتستان کے باشعور عوام اور مفکرین متاثرین کو حق دلانے میں پیچھے نہ ہٹے۔انہیں مستقل آبادکاری کا کوئی اقدام اٹھانے میں ان کی مدد کریں۔ تمام انفرادی مصلحتوں کو چھوڈ کر ایک مثالی قوم بن کے نقشہ دنیا میں اُبھرے۔ حکومت کا مایوس کن رد عمل کو امید میں بدلنے کیلئے عوام آواز بلند کریں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفط و امان میں رکھے۔ امین