گوشہ اردو
سسکیوں سے پہلے
مجھے علم ہے کہ موجودہ دور میں لوگ اس قدر مصروف ہیں کہ سِسکیاں سننا تو کجا، ان کے پاس نغمات سننے کا وقت بھی نہیں لیکن وقت کے اُجلے لباس سے خونِ جگر کی لالی یوں ہی نہیں اُڑ جاتی بلکہ دیکھنے والوں کے لئے!
ابھی میری آنکھوں کے دریچے خشک نہیں ہوئے اپنے نوجوان بھائیوں کی آوارہ مزاجی دیکھ کر بے اختیار آنسو بھر آتے ہیں، جو آہستہ آہستہ ”سِسکیوں“ کی صورت!
مسلسل رونے اور رُلانے کے میرے اس شغل نے کسی حد تک افرادِ ملت کو متوجہ کیا ہے دُکھ درد کی یہ حالت دیکھ کر بعض ساتھی دامن بچاکے چلتے بنے، مگر چند احباب آنسو پونچھنے آئے اور خود بھی ایک دوست نے پوچھا ”سِسکیاں“ کرب کے کس دریا کا حاصل ہیں؟ میں چُپ رہا، وہ ہنس دیا۔ میں رو پڑا۔ ”مظلوم اقبالؒ کی فریاد“ ہمیں معلوم نہیں سرسید کی روح؟ میں نے قائد اعظمؒ کا لاغر جسم دو حصوں میں بٹا ہوا دیکھا ہے مسجد اقصیٰ کی چھت سے اُٹھنے والا دُھواں میں نے یوم آزادی (۴۱ اگست) کو روزِ ماتم خیال کیا ہم سے جغرافیہ چھن چکا ہے ہم صرف تاریخ کے مزاروں کے مجاور بن بیٹھے ہیں۔
”سِسکیوں“ کا کوئی اور سبب کیا بتاو¿ں؟ کاش کوئی اشک آشنا ہو میں چاہتا ہوں کہ سِسکیاں جو پہلے محدود حلقے میں سنی گئی تھیں، اب کے لامحدود پیمانے پر سنائی دیں لہٰذا سِسکیوں سے پہلے اور بعد کا سارا درد و کرب، الفاظ و فقرات میں کفنا کے مختلف النوع نگارشات کی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے!!
ایک انگریز شاعر ولکاکس ایک نظم میں کہتا ہے:
”اگر میرے قلم سے نکلی ہوئی ایک سطر نے یا میری زبان سے نکلے ہوئے ایک لفظ نے میرے دوست یا دشمن کے دِل کو کسی طرح تسکین بخشی ہے تو میرے لئے یہ دُنیا جہاں کی تمام نعمتوں سے افضل ترین نعمت ہوگی۔“
”جو کچھ میں نے کہا یا لکھا ہے، اگر اس سے میرے ہمسائے کا دِل ذرا سا بھی خوش ہوگیا ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی کو اپنی محنت کا ثمر مل گیا۔“
”میں نے دُنیا میں جو کام کئے ہیں، اگر ان میں سے کسی ایک کے باعث بھی کسی مغموم دِل کا غم گھٹ گیا ہے۔ اگر میری کسی کوشش کی بدولت جُھکی ہوئی پلکیں اُٹھ کر فردا کی درخشانی کی اُمیدوار بن گئی ہیں تو خواہ دُنیا کو معلوم ہو یا نہ ہو اور اسے میرا خیال آئے یا نہ آئے خواہ دُنیا کو معلوم نہ ہوسکے اور وہ مجھے کبھی داد نہ دے، لیکن پھر بھی میں اپنے دِل سے یہی کہتا کہ میری زندگی اور محنت ٹھکانے لگ گئی۔“
”اگر میں نے کسی طرح بھی کسی ہستی کو امداد دی یا کسی روح کو خوشی بخشی ہے تو میں یہی سمجھتا رہوں گا کہ میری خوشی کا جام لبالب بھر گیا ہے۔“
قارئین! بس یہی جذبہ اس کتاب کی تحریر کا باعث بنا۔ میں دو چار باتیں بہت یقین سے جانتا ہوں، ان میں ایک بات یہ ہے کہ میں اپنے قاری کو جانتا ہوں اور اس سے واقف ہوں۔ اپنے پیارے وطن پاکستان اور ارضِ شمال گلگت بلتستان کے طول عرض کے دوروں میں دو کام میں نے تاریخی عمارتوں اور حسین منظروں سے ان عمارتوں کے پچھواڑے اور ان منظروں کے پرے رہنے والے انسان کو قریب جاکر دیکھا ہی نہیں اسے محسوس کیا اسے جانا ہی نہیں اسے سمجھا اس نے تو مجھے صرف دِل میں بٹھایا میں نے اسے اپنے شعور کے نہاں خانوں میں بٹھا دیا اب سر اور تال میرے ہیں سنگیت اس کی میں اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں کہ میں لکھوں اور وہ پڑھے بلکہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ میں لکھوں اور وہ میری تحریر کا حصہ بن کر رہے۔ دور کے اس رشتے میں بلا کی قربت ہے!!
مغرب میں اکثر مصنفوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے قاری کو بیان کیجئے۔ میرا قاری صبح سائیکل یا بس پر یا اپنی چھوٹی سی پُرانی کار میں بیٹھ کر پڑھنے یا کام کرنے جاتا ہے۔ راستے بھر دُنیا کو دیکھتا جاتا ہے۔ ہر روز کے منظر میں نئی نئی باتیں تلاش کرتا جاتا ہے کہ تجسس اس کی ذات کا حصہ بن چکا ہے۔ کسی بات پر تبسم کرتا ہے کہیں فکر میں پڑ جاتا ہے کہیں اُداس ہو جاتا ہے لیکن مایوس نہیں ہوتا مایوسی اُنگلی پکڑ کر ساتھ چلنے کے لئے مچل جائے تو اس کے ملگجے لباس کے اندر چُھپی ہوئی کوئی آس ڈھونڈ نکالتا ہے اور پھر باقی سارا راستہ اسی پُراُمید ہمراہی کے ساتھ طے کرتا ہے۔ بات کو ایک اشارے میں سمجھتا ہے لیکن دیکھنے والے سوچتے ہیں کہ نہیں سمجھا بات کرتا ہے توسلجھی ہوئی اور دھیمے لب و لہجے میں جس کا کوئی فقرہ پیچیدہ نہیں ہوتا اور جس کا کوئی لفظ دُشوار یعنی مشکل نہیں ہوتا۔ وہ شب کو رات کہتا ہے اور ہنوز کو ابھی اس کی گفتگو میں لفظ ”تاہم“ ایک بار بھی نہیں آتا اور یہ تو اس نے ٹھان رکھی ہے کہ ِاس حوالے سے، اور اُس حوالے سے، کی گردان جیتے جی نہیں کرے گا۔ وہ اردو ادب بھی پڑھتا ہے، لیکن اپنی باتوں میں نہ تو کبھی یوں کہتا ہے کہ یہ معاملہ فلاں چیز سے جڑا ہوا ہے اور کبھی یہ کہتا ہے کہ اس مس¿لے کو لے کر ایک کانفرنس ہو رہی ہے۔ کبھی وہ پھولوں کو دیکھ کر سرشار ہوتا ہے اور کہیں آبشار دیکھ پائے تو کھل اُٹھتا ہے وہ پانی سے بھرے ہوئے بادلوں سے رس کی بوندیں اور مشرق سے لالی بکھیرتا سورج دیکھتا ہے تو اُسے اپنے دِل کے اندر چھپی ہوئی صداقتوں کی تصدیق نظر آنے لگتی ہے تب وہ اپنی کتاب نکالتا ہے اور جن ورقوں کے بیچ اس نے بڑے سلیقے سے بس کا ٹکٹ رکھا تھا، اس جگہ سے ورق کھول کر پچھلی رات والی عبارت سے آگے پڑھنے لگتا ہے وہ جو کچھ پڑھ رہا ہوتا ہے وہ اس کے چہرے پر عیاں ہوتا جاتا ہے اور وہ جو اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے، اسے ہماری طرف آسودگی کہتے ہیں۔
بس یہ ہے آج کے تمام سوالوں کا جواب کہ ہم کیوں لکھتے ہیں اور کس کے لئے لکھتے ہیں!
قارئین! اپنی کتاب ”فکرونظر“ کے دیباچے میں آپ سے وعدہ کیا تھا کہ بہت جلد اس کی دوسری جلد آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ آج مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ اس کی دوسری جلد ”سِسکیاں“ کے ساتھ ایک دفعہ پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ میری پہلی کتابوں کی طرح اس نئی کتاب کی بھی خوب پذیرائی کریں گے۔ اس کتاب میں کچھ اہم مقالات کے ساتھ وہ خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں جو ہمارے مہربان قارئین اور کچھ قابل قدر شخصیات نے ہمیں بھیجا تھا۔ اس کے علاوہ ان نامور کالم نگاروں کے چند مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں جنہوں نے ہماری پہلی کتابوں پر مختلف اخباروں میں تبصرہ کیا تھا۔ میری بعض تحریروں پر کچھ صحافی دوستوں کے ردِعمل مختلف اخبارات میں شائع ہوئے تھے ان کو بھی اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔ ہم ان صفحات کے ذریعے ان احباب کا دِل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہیں۔ مجھے آپ سب کی محبت کا احساس ہے۔
قارئین! محترمہ ڈاکٹر شمع خالد (مرحومہ) جس کو مرحومہ لکھتے ہوئے میرے قلم کو بریک لگ جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی پہلی خاتون گورنر اور ایک علمی و ادبی گھرانے کی صاحبزادی ہونے کی وجہ سے راقم نے جب محترمہ کو اِس کتاب کا مسودہ دیتے ہوئے اِس پر رائے دینے کی خواہش کا اظہار کیا تو بصد خوشی اُنہوں نے قبول کی اور مجھے یاد ہے جب گلگت بلتستان ہاو¿س اسلام آباد میں وہ ایک ملاقات میں مجھے اپنے تا¿ثرات کے ساتھ مسودہ واپس کر رہی تھےں تو اُنہوں نے بڑی محبت سے میرے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کر کہا تھا”کریمی صاحب! گلگت بلتستان کو آپ جیسے ہونہار نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس بکھری ہوئی قوم کو شعور دے سکے۔“ میں محترمہ کے ان الفاظ کو اپنے لئے متاعِ زیست سمجھتا ہوں۔
محترم عطاءاللہ شہاب صاحب کی محبت کا ذکر کئے بغیر میں اس کتاب کو نامکمل سمجھتا ہوں، جب مختلف اخبارات میں میرے کالم چھپتے تو شہاب صاحب اسی لمحے فون کرکے مجھے بھرپور داد دیتے۔ آپ نے اپنی بے انتہا مصروفیات کے باوجود کتاب پڑھی اور اپنے قابلِ قدر تا¿ثرات سے بھی نوازا۔ اس کے علاوہ میرے دوست ڈاکٹر علی مدد شیر وزیر تعلیم گلگت بلتستان نے بڑی محبت سے کتاب پڑھی اور اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کتاب پر اپنے کلیدی تا¿ثرات قلمبند فرمائے۔ میرے علمی سفر زیست میں ان جیسے محسنوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان میں حلقہ اربابِ ذوق گلگت کے جناب پروفیسر محمد امین ضیا، عبدالخالق تاج، جمشید دُکھی، خوشی محمد طارق، ظفر وقار تاج، عبدالحفیظ شاکر، احمد سلیم سلیمی، عبدالسلام ناز، شیرباز برچہ، پروفیسر عثمان علی، شیر جہاں میر، بزم علم و فن سکردو کے انتہائی قابلِ احترام پروفیسر حشمت علی کمال الہامی، فدا محمد ناشاد، محمد حسن حسرت، محمد قاسم نسیم، میراسلم حسین سحر، اظہر احمد بزمی، ذیشان مہدی، احسان دانش، دیامر رائٹرز فورم کے عنایت اللہ شمالی، کاروانِ فکرو ادب غذر کے جناب سید رشید الدین سنان، اختر حسین راجہ، دردانہ شیر، فرہاد علی، چلاس سے نوجوان صحافی مجیب الرحمٰن، شاہد اقبال، طالب علم عمر فاروق فاروقی، AKHSS گاہکوچ کے ہونہار طالب علم شیر نادر شاہی، ڈگری کالج گلگت میں زیر تعلیم استور کے طالب علم سہیل صابر، گلگت سے صحافی عبدالرحمن بخاری، فرقان رانا، حبیب الرحمن مشتاق، احسان شاہ، کراچی میں مقیم ابن شہزاد حقانی، ڈاکٹر عبدالعزیز دینار، گلگت کے نامور عالم دین جناب اعتمادی فدا علی ایثار ہنزوی، اسلام آباد کے مفتی محمد نذیر خان، ممتاز کالم
نگار رشید ارشد، میرے دوست بلال اشفاق عامر ثانی، محمد جان، دیدار کریم اوشکھنداسی اور واجد علی یاسینی شامل ہیں۔
میں ان تمام محسنوں کا ممنون ہوں، جنہوں نے اس کتاب کو آپ تک پہنچانے میں میری مدد کی۔