امن ایک ناگزیر ضرورت
مصطفی کمال
امن نام کی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں اور جسے ہم امن کہتے ہیں وہ “دو جنگوں کے درمیان وقفے کا نام ہوتا ہے جس میں اقوام یا تو آرام کر رہے ہوتے ہیں یا دوسری جنگ کی تیاری “- یہی ماہرین عمرانیا ت کی راۓ ہیں اور حقیقت کے قریب ترین راۓ-
ہر دوسری جنگ پہلی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتی ہے- ہر دوسری جنگ پہلی جنگ کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن جنگی آلات سے لڑی جاتی ہے – ہر دوسری جنگ میں پہلے کی نسبت زیادہ لوگ خدا، بھگوان ، مذھب ، دھرم، مٹی اور وطن کے نام پر قربان ہو تے ہیں – تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے –
جنگوں کی تاریخ بھی دلچسپ ہے – عظیم برطانوی سا ینسدان ، مورخ اور ادیب سر رسل کے مطابق جنگوں کے لڑے جانے کی دو ا ہم وجوہات ہیں – اول تو یہ کہ “لوگ جنگ اور تباہی کو دولت اور بچوں سے بھی زیادہ پسند کرتے ہیں ” اور دویم یہ کہ “جنگ اور خصوصاّ ایٹمی جنگ کے بارے میں سیاستدانوں اور اخبارات نے غلط اندازے لگا ۓ ہیں – بہت سے صا حب نظر لوگ انسانیت کے بقا کی بجا ے دشمن کو شکست پہنچا نے کا اندازہ لگا رہے ہیں – لیکن ہم نہیں سمجھ رہے کہ دشمن کی شکست درحقیقت ہماری اپنی شکست ہے- “
رسل سے زیادہ سادہ الفاظ میں جنگ کی وجوہات کا جایزہ لینا نا ممکن عمل ہو گا- درحقیقت دشمن کی شکست ہماری اپنی شکست سے بڑھ کر فطرت کی شکست ہوتی ہے ، کیونکہ ہم اور دشمن دونوں ایک ہی فطرت کے گود میں پرورش پا رہے ہو تے ہیں- ہم اور دشمن دونوں ایک ہی فطرت کے وسایل پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں- ہم اور دشمن دونوں ایک ہی فطرت میں اپنی نسلوں اور ملکوں کے پھیلاؤ کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور یہ فطرت اپنی تمام تر خوبییوں اور
خامیوں کے باوجود ہم دونوں کی پرورش کرتی ہے اور فطرت کی تبا ہی کے ساتھ ہم صرف دشمن کو ہی نہیں بلکہ اپنی خود کے تبا ہی کے اسباب بھی فراہم کرتے ہیں-
دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں کی ہلاکت بذات خود ان کی نہیں بلکہ عالم انسانیت کی ہلاکت تھی – عراقیوں کے زخموں سے رسنے والا خون سب کے دامن پر چھینٹے ہیں – دشمن کی شکست کی خبر کیمروں کی چکا چوند روشنی اور پر ہجوم پریس کانفرنس میں سنا نے والے رہنما خود اپنی تبا ہی کے مژ دے سنا رہے ہوتے ہیں لیکن لا علمی اور انتقام کی وجہ سے وہ اسے دشمن کی شکست تصور کر کے تخیلاتی دنیا میں جی رہے ہو تے ہیں –
تاریخ اس بات کا شا ھد ہے کہ انسانی جبلت ہمیشہ وحشت اور درندگی کی طرف مایل رہی ہے – اسکی کہی وجوہات ہیں-ایک وجہ وہ ہے جسکی طرف عظیم روسی ادیب میکسم گورکی نے اشارہ فرمایا ہے کہ ” کچھ لوگ دوسروں کو اس لیے ما رتے ہیں کہ وہ قانون کی زد سے باہر ہوتے ہیں – کچھ دوسرے لوگ ہیں جو انتقام کے مرض کا شکار ہیں اور کچھ وہ ہیں جنکی خود اتنی مرمت ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ گونگے بھرے بن جا تے ہیں – اس طرح اس درندہ صفت زندگی میں ہر شخص اپنی مرضی کے خلاف درندہ بن جاتا ہے-” اور پھر یہ درندگی انسانی اقدار ، ادب اور زندگی کا حصہ بن جاتا ہے –
امن کا قیام اس لیے بھی مشکل ہے کہ بعض لوگوں کے کے نزدیک جنگ اک تماشہ ہوتا ہے- دنیا بھر کے فوجی اکیڈمیوں میں ‘وار گیم زونز’ ہو تے ہیں – اب اگر جنگ کو ایک گیم سمجھ کر کھیلا جا ے تو امن کے آثار با لکل ہی معدوم ہو جا ئینگے- ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگ کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جا ے اور فوج کے افسروں اور جوانوں کو یہ سکھایا جاۓ کہ جنگ ایک کھیل نہیں بلکہ ایک خوفناک تباہی ہے-
امن اقوام کے لیے اور ممالک کے لیے وسیع بنیادوں پر پھلے سے بھی ضروری اور نا گزیر ہو چکی ہے- انفرادی اور اجتماعی سطح پر امن کے لیے کو ششیں تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے- ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں نہ صرف گوناگونی اورتکثیریت کا احترام کرنا ہو گا بلکہ اس کے حدود و قیود بھی متعین کرنے ہوں گے- وسیع پیمانے پر ‘امن نصاب’ متعارف کرنے کی اشد ضرورت ہے-
حالات اور وقت کا تقاضہ ہے کہ ایسا نصاب تعلیم متعارف کیا جاۓ جو کہ مذہبی تعصب کی بجائے آفاقی تصورات پر مبنی ہو، جس میں ہر مذھب کے اعتقادات شامل ہو جو کہ برداشت، لچک اور رواداری کو فروغ دے سکیں-
گوتم بدھ نے فرمایا تھا کہ “صرف امن ہی امن پیدا کر سکتی ہے-” اور آج پوری دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے امن کا پیدا کرنا ضروری ہے – بدلے اور ہتھیار کے ذریعے امن قائم رکھنے کا عمل ہمیں تباہی کی طرف لے جاۓ گی- طاقت کے استمعال کو روک کر مذاکرات کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اختیارات اور طاقت کے استمعال سے ہمیشہ غیر حقیقی کامیابی مل جاتی ہے-