گوشہ اردو

وادی گوجال کے ناشکرے


وادی گوجال پر کوئی افتاد نہیں پڑی. انہوں نے ایسے ہی باتیں بنائی ہوئی ہیں.

بات بس اتنی ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے یہ علاقہ زمینوں کی تباہی، کاروبار کی بربادی، سیاسی نعروں کی بھرمار،کرپشن، لوٹ مار اور تھانے میں درج پرچوں کی تعداداور شرح اموات میں اضافہ جیسے چھوٹے موٹے مسائل کا شکار ہے. .

کچھ یار لوگ تو مذاقاً آج کل گوجال کا نام آفت زدہ علاقوں کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں.

اب آپ بتائیں کہ اتنی چھوٹی سی بات ہے. اس پر رونے دھونے کی کیا ضرورت ہے؟

حکومت نے پورے تین سالوں سے اس علاقے کو ہر طرح سے نوازا ہے. نوجوانوں کی جیلوں میں مفت خدمت کی. ایک دو بندوں کو گولیاں مار کر آبادی جیسے گھمبیر مسلہ  حل کرنے میں مدد کی. چند شر پسندوں کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات قائم کیے.

 

آپ گنتے جائیں. ختم نہیں ہو پائیں گے حکومت کے کارنامے. لاکھوں احسانات ہیں حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان کے وادی گوجال پر.

لیکن یه “ناشکرے” حکومت کے ممنون احسان ہونے کی بجائے قلمی”شرپسندی” میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ “ریاست مخالف مظاہروں” میں شریک ہوتے ہیں اور اگر اس “جرم” کی پاداش میں، بطور محبت ، ان کے کچھ نوجوانوں کی ہلکی پھلکی چھترول کی جائے، ان کے خلاف پرچہ درج کیا جائے، یا پھر ایک دو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے تو کونسی قیامت آ جاتی ہے؟ کیوں روتے رہتے ہیں یہ لوگ؟

ناشکرے کہیں کے!

کل ایک حادثہ کیا ہواانہوں نے حد ہی کر دی ہے. زور و شور کے ساتھ سوشل میڈیا میں “”””ریاست مخالف” جذبات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں. کونسی قیامت آ گئی ہے بھائی اگر ایک ٹریفک حادثے میں ٩ افراد جان بحق اور نو زخمی ہو گئے ؟ کوئی زلزلہ تو نہیں آیا ہے ؟

ایسا لگتا ہے انہوں نے کوئی حادثہ نہیں دیکھا۔

کم عقل کہیں کے!

اگرگلمت ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے خون میں لت پت زخمیوں کو ساٹھ کلومیٹر دور علی آباد منتقل کرنا پڑا تو کونسی قیامت آ گئی؟ کیا ہوا اگر تین، چار لوگ علاج کی خاطر طویل سفر کرنے کے بعد خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے جانبر نہیں ہو سکے؟ پاکستان میں روزانہ کم لوگ مرتے ہیں کیا ؟

پچهلے تین سالوں سے لیڈرز کا دماغ انہوں نے خراب کیا ہوا ہے کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو مکمل کیا جائے، پی سی فور منظور کیا جائے.

ڈھیٹ کہیں کے!

ان کو ایسا لگتا ہے جیسے ان عوامی لیڈرز ، شہید بھٹو کے سیاسی شاگردوں اور مریدوں، کے پاس کوئی اور کام ہے نہیں.

ان عوامی رہنماؤں، بیچاروں، کو کتنا کام کرنا پڑتاہے، معلوم ہے؟؟ 


ان کو مہینے میں تین دفعہ اسلام آباد جانا پڑتا ہے، شریک چیرمین سے، بلاول بھٹو زرداری سے، آصفہ سے اور بختاور سے ملنا پڑتا ہے. اپنے بچوں کو ان سے ملانا پڑتا ہے. پالتو جانوروں کو اسلام آباد سے گلگت لانے کے لیے جہاز کا بندوبست کرنا پڑتا ہے. رشتہ داروں، عزیزوں اور یاروں کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ میں نشست دلوانے کے لیے سفارش اورجدوجہد کرنا پڑتی ہے. یہ کوئی فارغ تھوڑی بیٹھے ہوئے ہیں؟

ہسپتال، ہسپتال، ہسپتال چلا کر ہمارے رہنماؤں کی سماع خراشی کرتے ہیں.

بے وقوف کہیں کے!

اور ان صحافیوں کوذرا دیکھو! روز ان کی چخ چخ سن کر ہمارے جلیل القدر رہنماؤں کے کان پک گئے ہیں. ارے بھائی، ہمارے علاقے کاگورننس ماڈل تو پوری دنیا کے لیے مثال بنا ہواہے. ان جاہلوں کو خبر ہی نہیں ہے.

کیا کہا؟

امن و امان!

کیا خرابی ہے امن و امان کی صورتحال میں، میرے بھائی؟ سب ٹھیک ہے. یہ سب افواہیں دشمنوں نے اڑائی ہیں. یہ سب ریاست پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمہوریت کے دشمنوں کی کارروائیاں ہیں.
ہسپتال مانگتے ہیں ۔۔۔۔

سنو میرے پیارو. کان کھول کر سنو!

گلگت بلتستان میں نقص امن کا کوئی خدشہ ہے ہی نہیں. کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے۔ یہ جو ساٹھ ستر لوگ مارے گئے ہیں، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے. دوسرے صوبوں کو دیکھیں. وہاں کوئی کم لوگ مرتے ہیں ؟ وزیرستان اور بلوچستان کی نسبت تو گلگت بلتستان میں امن ہے.
ارے بھائی، آبادی کم ہے تو کیا ہوا!
بڑے بڑے ملکوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں.

کرپشن؟

ارے میرے بھائی، کونسی کرپشن ہے گلگت بلتستان میں؟

دوبارہ کان کھول کر سن لو پیارے!

کرپشن پر ہمارا بھی حق ہے.

شکر کرو، نا شکرو! 

لاکھ بار شکر کرو!

تمہارا علاقہ گلگت بلتستان خوش نصیب ہے کہ اسے اتنے عظیم لیڈرز ملے ہیں. نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد جیسے کل کے بچے تو ان کے گھروں پر پانی بھرنے اور جھاڑو پونچا لگانے آتے ہیں. یہ تو ابراہام لنکن کے بھی باپ ہیں.

اگر یہ کوئی کام نہیں کر سکتے ہیں تو تم کیوں ہلکان ہو رہے ہو؟ تمہارا ذاتی طور پر کیا نقصان ہو رہا ہے؟ تم کیوں پریشان ہوئے جا رہے ہو؟

زیادہ شور کرو گےتو بوٹ والے آجائیں گے. بوٹ والے.

خاموش، بد تمیز. 

جمہوریت کی افادیت پر سوال اٹھا رہے ہو؟


آمر کہیں کے.

اب زیادہ سوال مت پوچھو ورنہ …… ……

چلو میرے نعروں کا جواب دو.

 زور زور سے دینا.


نعرہ بھٹو …. جئے بھٹو.
اگلی باری …. پھر زرداری

ناشکرے کہیں کے.

 تحریر: نور پامیری

Related Articles

Back to top button