فرمان برداری ہو تو ایسی ہو !
( بیگ محمد کی اپنی ماں سے بے لوث محبت کی کہانی )
تحریر :۔ شمس الحق قمرؔ چترال ،حال گلگت
یہ5 جولائی 1995 کی بات ہے جب ہم چند دوست بروغیل جا تے ہوئے کسی پورٹر کی تلاش میں یار خون کے ایک خوبصورت گاؤں پاور میں چند لمحوں کے لیے رکے ۔ ہمیں جو پورٹر ملا اُس کا نام بیگ محمد تھا ۔وہ ہماری طرح کا انسان نہیں تھا ۔اور یہ ہمارا نقطہ نگاہ تھا کہ وہ ہم سے کئی حوالوں سے کم ما یہ نظر آ رہا تھا ۔ ہم جیسے کوئی سیاح تھے اور وہ ہمارا بوجھ اُٹھانے والا مزدور ، ہم ،خوبرو نوجواں تھے وہ ایک تزئین و آرائش سے عاری نیم گونگا ادھیڑ عمر کا شخص ، ہم زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ قدرے متکبر لوگ وہ ہماری نظر میں علم و خرد سے محروم انسان۔ یہ ہماری اور ان کی وہ اوصاف تھیں جو ہمیں اپنی بڑائی پر گھمنڈ کرنے پر بار بار مجبور کرتی تھیں ۔ بہر حال اس نے ہمارے ساتھ بروغیل کی آخری سرحد قرم بارہ تک ساتھ ہونے کی ہامی بھر لی ۔ اسکی کوئی تیاری نہیں تھی اور نہ ہی اسے تیار ہونے کی ضرورت تھی لیکن اُس نے چلنے میں غیر ضروری طور پر تاخیر کی.
ہمارے استفسار پر معلوم ہوا کہ اُس نے ابھی تک اپنی والدہ سے اجازت نہیں لی ہے ۔ ہم نے جب چلنے کا تقاضا کیا تو اُس نے سامنے نالے کے اُس پار پن چکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھوار زبان میں کہا، ’’ مہ نان پھار ہے خورا اسور اوا ہوتے خدایار کوری گوم ‘‘. (میری ماں دوسری طرف ہے میں اسے خدا حافظ کہہ کر آتا ہوں).
بیگ محمد پن چکی کی طرف گئے اور پن چکی کے اندر جانے کے بعد خاصی دیر لگادی ، کچھ مدت بعد ماں اور بیٹا دونو ں باہر آئے ۔ ہم نالے کی دوسری طرف تھے ، ماں بیٹا دونوں پھر دیر تک محوِ گفگو رہے جو کہ ہم نہیں سن سکتے تھے ۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر بے حد پیار سے معانقہ کرنے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہوئے ۔ ہمیں لگا کہ شاید دونوں گونگے ہیں.
بیگ محمد جیسے ہی ہمارے پاس آیا ہم نے دیر کئے بغیر اپنا سامان اُس کی پیٹھ پر لادا اور بروغیل کی جانب رخت سفر باندھا ۔ ہمارے پاس کسی قسم کوئی زادِ راہ نہ تھا ۔ہمیں راستے میں جب بھی بھوک لگتی بیک محمد کسی نہ کسی دروازے کو کھٹکھٹاتا اور طعام کا بندوبست کر دیتا ۔ وہ ہماری مرضی کے مطابق چلتا ۔ پانچ گھنٹے کی مسافت کے بعد بیگ محمد کی ایک خوبی کا ادراک ہوا اور وہ اسکی حسنِ ظرافت تھی ۔ اسے مختلف زبانوں میں تقریر کرنے کا جیسے کوئی خاص ملکہ حاصل تھا یہ اُن زبانوں میں تقریر فرماتے جو خود اُ س کے علاوہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا تھا ۔موصوف کی تمام تقاریر کا موضوع AKRSP ہوا کرتا ۔وہ اپنی تقاریر میں معراج خان ، شا کریز خان اور سردار ایوب کا نام ضرور لیتا اور انہیں سپاسنامہ نامہ پیش کرتے ہوئے اپنے علاقے کی ترقی کی اپیل کرتا چونکہ وہ چترال سے باہر کبھی نہیں گیا ہے ا س لیئے چترال اُسے ایک صوبہ نظر آتا ہے لہذا وہ اپنی تقریر میں صوبۂ کراچی سے صوبہ بروغیل تک پکی سڑکوں کے علاوہ پیلییان سیر ( یار خون میں ایک جگہے پر ایک پل کا نام ہے جوکہ انتہائی دشوار گزار تھا یہ پل کئی مسافروں کی جانیں لے چکا تھا ) کو پکا پل بنانے کی بار بار درخواست کرتا ۔ہم جب کہیں پڑاو ڈالتے تو ہمارا ساتھی شمس الدین ستار بجا کر دن کے وقت پیدل چلنے کی تمام تھکاوٹ دور کرتا ،میں دف بجاتا ، بیگ محمد میرے دف کی تال پر گردن کو خاص زاوئے سے گھما گھما کر ایک فاتحانہ انداز سے جسم کی شاعری کرتا اور مظفر کھبی تالیاں بجا تا اور کبھی بیگ محمد کے ساتھ طبع آزمائی کرتا ۔ بیگ محمد ہماری نظر میں ایک کھلونا تھا ۔ہم بیگ محمد کو بس یہاں تک سمجھ سکے ۔
ہمارا سفر کافی طویل تھا ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان اور وخان کی آخری سرحد ’’دروازہ‘‘ اور چترال کے سر پر واقع چھے کلو میٹر لمبی اور ڈھائی کلو میٹر چوڑی قرم برہ جھیل کی سیر کے بعد چکار گلیشر عبور کرتے ہوئے یاسین درکھوت پہنچیں گے ۔ 10 جولائی کی ٹھنڈی رات کو ( یہاں جولائی کو بھی ٹھند ہوتی ہے ) چونکہ چکار گلیشیر کے لئے دوبارہ نشیب کا سفر اختیار کرنا تھا جو کہ ہم نہیں چاہتے تھے ۔ ہم نے لشکر گاز کے شامنے والے گلیشیر کے اُوپر سے سفر کرنے کا ناکام مشورہ اگلے روز تک ملتوی کیا ۔ ہم نے یہی بہتر جانا کہ کل میرزہ رفیع( مرحوم ) سے مشورہ کرکے جائیں گے تاکہ وہ کوئی گائیڈ بھی ساتھ کردے ۔ اگلی صبح میرزہ رفیع صاحب ( مرحوم ) نے نہ صرف گائیڈ کا بندوبست کیا بلکہ نقشہ بھی بنا کے دیا اور ساتھ تنبیہ بھی کی کہ اس گلیشر کی اُونچائی کم و بیش ۲۰۰۰ ہے اور ساتھ ساتھ دوسری طرف خشکی تک پہنچے میں تقریبا چودہ گھنٹے لگیں گے اس لئے صبح تین بجے سفر کا آغاز کیا جائے تو بہتر ہوگا، گلیشر میں جگہ جگہ دراڑیں پڑی ہوں گی لہذا گائیڈ کے بالکل پیچھے پیچھے چلنا ہوگا ، بلندی پر جانے کے بعد پیٹ خراب ہونے اور سر میں شدید درد ہونے کا خدشہ رہتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ فوری طور پر جلاب کو روکنے والی گولیوں کے علاوہ سر درد کی گولیاں بھی احتیاطاً بیگ میں رکھی جائیں ، لیکن ایسے خطرناک موقعوں میں سب سے زیادہ جان بچانے والی چیز آفیون ہی ہے جو کہ پاس رکھنا لازمی ہے… وغیرہ وغیرہ ۔ہمارے پاس اس نسخے میں بیان شدہ داوئیوں میں سے ایک بھی موجود نہ تھی ۔ بہر حال میرزہ رفیع ( مرحوم) نے از راہ کرم اِن تمام لوازمات سے ہمیں نوازا ۔
’’ بیردو کفانو سوم خوشان گورو عذابار کیہ خبار ‘‘
ہمیں گلیشر دیکھنے کا جنون تھا لہذا تمام خطرات مول لیتے ہوے صبح تین بجے روانہ ہو گیے ۔ جس گلیشیر کے اوپر سے ہمیں چل کے گزرنا تھااس کا نام ’’ چلینگیو آن ‘‘ کے نام سے مشہور ہے اُس گلیشر پر چڑھنے سے پہلے ایک اور زمینی گلیشر آتا ہے جسے’’ چٹی بوئی‘‘ کہتے ہیں یہ وہی گلیشر ہے جسے دریائے چترال کا منبع سمجھا جاتا ہے ۔ مجھے چٹی بوئی گلیشر کے عین دہانے سیگزرتے ہوئے بہت لطف آیا ۔میں بچپن میں سوچتا رہتا تھا کہ آخر ہمارا یہ دریا کہاں سے نکل کے آتا ہے ۔ آج اپنے سوال کا جواب پاکر میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ اب ہم اگلے گلیشر کی طرف بڑھ رہے تھے جس کے لئے سیدھا اوپر کی طرف چڑھائی چڑھنی تھی یہ ایک عجیب و غریب منظر تھا ایسا لگتا تھا جیسے ہم ایک کالی اور چمکتے ہوئے مٹی کے ٹیلے پر چڑھ رہے ہیں جہاں جگہ جگہ پانی کے فوارے پھٹتے ہوئے نشیب کی طرف اپنا سفر جاری رکھتے نظر آتے ہیں ۔ایک انوکھا اور غیر مانوس شور یخ بستہ پہاڑوں کی دنیا میں ہم جیسے اجنی مہمانوں کو خوش آمدید کہ رہا تھا ۔گلیشیر کے اندر ایکدہشت ناک شکست و ریخت کی تصویر کچھ اس طرح معلوم ہوتی تھی جیسے اس گلیشر کے نیچے بہت بڑے پتھر ایک دوسرے سے زور سے ٹکراتے ہوئے نامعلوم منزل کی طرف رو بہ سفر ہیں ۔ ہم جیسے جیسے اگے بڑھتے گئے ہمیں سانس لینے میں کافی دشواری محسوس ہونے لگی ہم زور زور سے سانس لیتے آگے کو بڑھ رہے تھے ۔
بیگ محمد کے پاس تھوڑا سا بوجھ اسکی پیٹھ پر تھا ۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں ہم نے اپنے میزبان محترم میرزہ رفیع( مروحوم ) کے ٹوٹکوں کو آزمانا تھا ۔ لہذا ہم نے افیون نکالا اور منہ میں ڈالنے کے بعد جیسے ہماری جان میں جان آئی ۔ بیگ محمد کو بھی یہ دوائی پیش کی اس سے سر نفی میں ہلاتے ہوے بغیر آفیون کے چلنے میں عافییت سمجھی ۔ہم نے بوجھ اُس سے اُٹھایا لیکن بیگ محمد کے سر میں پیچدار گرانی معلوم ہو رہی تھی ۔ادھا گھنٹے کی مزید مسافت کے بعد بیگ محمد کی حالت غیر ہوگئی یہ وہ وقت تھا کہ گلیشر کی چڑھائی ختم کرکے چوٹی تک پہنچنے میں کوئی پندرہ مینٹ باقی تھے ۔ لیکن پندرہ منٹ کی مسافت زندہ طے کرنا بیگ محمد کے لئے ممکن نہ تھا ۔ہمارے پاس صرف ایک علاج تھا اور وہ آفیون کا سہارا تھا ۔ہم نے بیگ محمد کو دوبارہ آفیون کے پزیرائی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بضد تھا کہ وہ آفیون نہیں کھائے گا۔ دوسری طرف ہمارے پاس اور کوئی چارۂ کار نہ تھا ۔ لہذا شمس الدین نے آفیون کی خوبیوں پر ایک فلسفیانہ تقریر جھاڑ دی پَر مجال کیا کہ بیگ محمد اپنے موقف سے پسپا ہو ۔ہم نے اُسے کسی بھی حال میں آفیون کھلانے کی ضد کی تو اُس نے وہ جملہ کس دیا جو کہ اولیا اور پیغمبروں کا ہی خاصا ہو سکتا ہے ۔ اُس نے ہم سب کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’ مجھے معلوم ہے آفیون کھانے کے بعد میں تازہ دم ہو سکتا ہوں لیکن میری والدہ نے مجھے اپنے گلے سے لگا کررخصت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا بروغیل جا رہے ہو وہاں لوگ آفیون کھاتے ہیں لیکن یاد رکھنا اگر اُس سے تمہاری جان بھی واپس آئے کھبی نہ کھانا!‘‘ ہمارے گائیڈ نے بیگ محمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کھا لیجئے ورنہ چلنا مشکل ہوگا تمہاری ماں کو کیسے پتہ چلے گا کہ تم نے آفیون کھایا تھا ‘‘ بیگ محمد نے برجستہ جواب دیا کہ’’ مجھے معلوم ہے کہ میری ماں یہاں نہیں ہے لیکن خدا تو دیکھ رہا ہے کہ میں ‘‘
بیگ محمد کا یہ عظیم رویہ دیکھ کر ہم سب کو اپنی زندگیوں پر نظر ثانی کرنی پڑی ۔ میں ، شمس الدین اور مظفر عالم حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے ۔ ہم نے فوری فیصلہ یہ کیا پہلے تمام سامان اوپر پہنچادیں گے اور پھر سب مل کر بیگ محمد کو اٹھا کے چوٹی تک پہنچا دیں گے ۔ ہم نے پہلے سامان چوٹی تک پہنچایا پھر بیگ محمد کو ۔ چوٹی پر ہم نے ادھا گھنٹے کے لئے آرام کیا چائے بنائی اور یوں تازہ دم ہوکر اترائی اترتے ہوئے رات کے دو بجے یاسین کے پہلے گاؤں درکھت پہنچے ۔ آج بیگ محمد کی تصوریر نظر سے گزری تو اُس عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کی جسارت کی ۔