گوشہ اردو
“یاراں محفل” میں معرکہ آرائیاں
میرے استاد ابن الحسن عباسی نے کہا تھا ،حقانی ! دو قسم کے لوگوں کو اپنی بات سمجھانا بے حد مشکل ہے۔ میرے استفسار پر کہنے لگے کہ ایک ریٹائرڈ فوجی اور ایک پروفیسر، ساتھ ہی علت بھی بیان کردی کہ فوجی اس لئے نہیں مانتاکہ اس کی تربیت اس نہج میں کی جاتی ہے ، وہYes Sir کا عادی ہوچکا ہوتا ہے۔ ایک خاص مائنڈ سیٹ کے تیار ہونے کے بعد وہ یہی بہتر اور درست سمجھتا ہے جو اس کو کھوپڑی میں ہوتا ہے۔ اور پروفیسر صاحبان اپنی مطالعہ کی بنیاد پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں، ان کو ہزار دلائل دو، قرآن و حدیث کے دلائل کے انبار لگاو¿ اور علم و منطق کو مختلف زاویوں میں پیش کرو، غور سے سنیں گے اور آخر میں کہیں گے کہ ” پھر بھی بات یوں ہے“کیونکہ وہ بھی وسعت مطالعہ کے مالک ہوتے ہیں اگرچہ اکثروں کا مطالعہ درست سمت میں نہیں ہوتا ہے۔“
میں استاد محتر م کی بعض باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر خاموش ہوتا، تاہم مجھے ان کافی ساری باتیں وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آنے لگی ہیں۔آج کل مجھے بھی ڈگری کالج میں پروفیسروں کے ساتھ پالا پڑھ رہاہے۔ ڈگری کالج گلگت ، گلگت کی سب سے قدیم ڈگری کالج ہے۔یہاں چالیس کے قریب لیکچرر ز او ر پروفیسرز ہیں۔ ان اصحاب کے ساتھ روزانہ محفل جمتی ہے، مختلف طبائع کے مالک یہ پروفیسران جب مل بیٹھتے ہیں تو کُھل جاتے ہیں بلکہ کھلتے چلے جاتے ہیں اور کھبی کبھار کھِلتے بھی ہیں۔کالج کے پرنسپل پروفیسر فضل محبوب صاحب ہیں جو ایک خاموش طبع انسان ہے، صوبہ سرحد سے ان کا تعلق ہے، گذشتہ ۵۳ سال سے گلگت بلتستان میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ سارا دن اپنی کرسی پر براجمان رہتے ہیں۔ گاہے بگاہے کلاسوں اور دیگر شعبوں کا چکر بھی لگاتے ہیں۔ان کی آفس میں عمومی طور پر رش کم ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ پرنسپل ہیں،لاریب وہ بھی ایک استاد ہیں تاہم آج کل مدرسی ذمہ داریوں سے زیادہ ان کے کندھوں پر بیورو کریسی کا بوجھ سوار ہے، جب ان کی آفس میں کوئی دیر تک بیٹھےتا ہے تو وہ حاضرین سے کہہ دیتے ہیں کہ آج فلاں صاحب سے چائے نہ پی لی جائے، بس یوں لینے کے دینے پڑتے ہیں، وہ اپنے سٹاف کے ساتھ خوش رہتے ہیں، جب کوئی ویلکم پارٹی یا فیرویل پارٹی ہوتی ہے تو وہاں پرنسپل صاحب کی عاجزی و انکساری دیکھنے کی ہوتی ہے۔ وہ اپنے جانے والے ساتھیوںسے تلخیوں کی کھلے انداز میں معذرت کرتا ہے اور آنے والوں کو دلی خوش آ مدید ! یہ ان کا بڑا پن ہے۔
پروفیسر صاحبان کی سب سے دلچسپ محفل ” انکل ٹائم پاس یعنی انکل مراد“ کی کینٹین میں لگتی ہے۔پرودفیسر صاحبان اپنے پریڈ پڑھانے کے بعد وقفے وقفے سے یہاں تشریف لے آتے ہیں۔ اس محفل یاراں کے مستقل ممبران میں بڑی خوش گوار گفتگو ہوتی ہے۔ہر ایک کی اپنی ایک مکمل فلاسفی ہے اگرچہ دلیل اور عقل سے ماورا۔۔۔۔ سب سے جاذب النظر فضل عباس ہیں، بعض دفعہ بڑی سنجیدہ باتوں اور گفتگو کو بھی ٹال دیتے ہیں اور کبھی رائی کا بھی پہاڑ بنا دیتے ہیں۔سوشلسٹ نظریات کے مالک عباس صاحب اسلام کی تمام خوبیوں اور مسلمہ اصولوں کو لفظ اسلام کے بغیر قبول کرلیتے ہیں جبکہ دوران گفتگو کہا جائے کہ یہی بات تو اسلام بھی کہتا ہے تو ان کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے، یعنی چہرہ متغیر، پروفیسر اویس ، صاحب مطالعہ آدمی ہے، مختلف سوالوںکے جوابات خوب دیتے ہیں ، جب مخالف ماننے کے لئے تیارہی نہ ہو تو دھیمے دھیمے انداز میں ان کی لے میں لے ملاتا ہے۔ کھبی کبھار تو سنجیدگی سے اتنی” لمبی لمبی “چھوڑ دیتے ہےںکہ محفل میں بعض احباب کو تکلیف ہونی شروع ہوتی ہے،شاید وہ ایسا جان بوجھ کر ،کرتے ہیں۔پروفیسر عرفان صدیقی بھی اکثر حاضر ہوتے ہیں اور ”کھپے کھپے“ کا نعرہ مستانہ بلندکرکے زمان صاحب کو چڑانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ بھی تو ”صدر“ ہیں کہ کہاں چڑتے ہیں بلکہ عرفان صدیقی کو چودھری شجاعت بنا کر پیش کرتے ہیں۔یہاں تمام احباب ایک دوسروں کو ”صدرصدر“ کہ کر مخاطب کرتے ہیں ، میرے استفسار پر پروفیسر زمان گوجالی بریف کرتے ہیں کہ بے مروتا اور ناکارہ آدمی کو صدر کے لقب سے موسوم کیا جاتاہے، اور پھر بڑے بڑے ”صدور“ کے نام اور کام بھی بتاتے ہیں۔ اور اچھی تجزیہ بھی ۔صدیقی صاحب اچانک عباس صاحب کی لے میںلے ملاکر لادین اکبر بادشاہ کو”Akbar is the Great“ کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں تو دوسرے احباب ان کے ذوق سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتے۔عبید صاحب بلا ناغہ” محفل یاراں“میں حاضر ہوتے ہیں تاہم بحث و مباحثہ میں حصہ کم لیتے ہیں کیونکہ کہ اکثر ان کے ”سر میں درد “ رہتا ہے، اچانک بول بھی لیتے ہیں تاہم عموما کھلکھلانے پر اکتفاءکرتے ہیں۔
مراد انکل کی بے مراد کینٹین میں طلبہ کا بھی ہجوم رہتا ہے تاہم وہ اپنے استاتذہ سے فاصلے پر ہی بیٹھنے پر اکتفاءکرتے ہیں تاکہ بیلنس برابر رہے، کالج کے بعض طلبہ تو بڑے ملنسار اور باادب ہیں۔ محفل یاراں کے قریب میں قاری سبنل اور آئی ٹی کے لیکچرر فرید اللہ بھی اکثر محفل لگاتے ہیں، بعض احباب طنزاََ انہی پر کوئی جملہ کس بھی لیتے ہیں ۔وہ دونوں باریش ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف لبرل پسندوںاور قدامت پسندوں کی محفل جمال آرا لگی ہوئی ہے اور ساتھ ہی رجعت پسندوں خوش گپیاں بھی جاری ہیں۔شکر ہے کہ محفل یاراں میں کوئی مکمل جدت پسند نہیں ہے ،ورنہ تو رنگ میں بھنگ پڑ جاتا۔اپنے کولیگ نصیر کریم بھی ہمیشہ جلو¿ہ افروز ہوتے ہیں، خواہ مخواہ کی اُڑانے سے پرہیز کرتے ہیں اور مخاطب کی بات غور سے سنتے ہیں، اگر معقول اور دلائل پر مبنی ہو تو قبول کرلیتے ہیں، آخر پولیٹیکل سائنس پڑھاتے ہیں۔اشتیاق یاد اور عبید کے” سگریٹی مرغولوں“ سے تو سب نالاں ہیں، سیگریٹ کے مضرات بھی بیان کرتے ہیں اور” شغل سرگیٹی“ سے پرہیزبھی نہیں کرتے۔ اُف ۔۔۔قول اور فعل میں تضاد۔
محفل یاراں میں پروفیسر انور ناصر بھی کبھی کبھی رنجہ قدم فرماتے ہیں۔ وہ پاک آرمی سے محکمہ تعلیم میں آئے ہیں، اب آپ ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک آدمی بیک وقت فوجی بھی ہو اور پروفیسر بھی تو اس کی کیفیت کیا ہوگی۔عبید صاحب کا اصرار ہے کہ انور ناصر بڑے بڑوں کے سامنے دل کی بات ببانگ دہل کہہ جاتے ہیں،آخرایک فوجی اور پروفیسر سے اس کے علاوہ توقع بھی کس چیز کی کی جاسکتی ہے۔سینئر پروفیسر بشیر صاحب بھی بڑھاپے کی دہلیز میں کھڑے ہیں مگر باتیںنوجوانوں کی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ”مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتاہے“اپنے راجہ صاحب تو بس کھلکھلانے کا ٹھیکہ ہی لے چکے ہیں سلام بعد میں مسکراہٹ پہلے، پروفیسر زمان گوجالی کا کہنا ہے کہ اگر راجہ صاحب کبھی کسی کی تعزیت کے لئے جائینگے تو پہلے بھر پور تبسم فر مائیں گے اور بعد میں تعزیت شروع ہوگی۔مضبوط جسم و جثہ کے مالک اردو کے انور جمیل کے ساتھ اٹکھیلیوں کا سلسلہ بس آتے جاتے کالج وین میں ہوتا رہتاہے باقی پتہ نہیں وہ کہاں رفوچکر ہو جاتے ہیں۔شاید” مرادی کینٹین“ میں اس لئے تشریف نہیں لاتے کہ کمزور کرسیاں ان کا بوجھ برداشت نہ کر پائے۔ ارشاد شاہ بھی کبھی کبھار اپنے لٹریری الفاظ کے ساتھ محفل یاراں میں آ دھمکتے ہیں۔اشتیاق یاد اپنی نرم خوئی کے ساتھ محفل یاراں کے لئے اپنی موجودگی سے زینت بخشتے ہیں ،آخر شاعر جو ہوئے۔ پروفیسر ایسو سی ایشن کے سیکریٹری جناب راحت شاہ بھی ” کالے عینک “ پہن کراپنی وجد آفریں گفتگو یاراں محفل سے شیئر کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ہیں۔ان سب پر مستزاد انکل ٹائم پاس کے ” برتن “ بڑے اجلے اور شفاف ہوتے ہیں۔
کالج کی لائیبریری میں علی مدد بگور لائیبریرین ہوتے ہیں ۔کتاب دوست ہیں۔ جب بھی ان کے پاس جاو¿ تو وہ مذہبی تبلیغ شروع کردیتے ہیں، آپ جب تک اکتا کر نکل نہ جاو¿ وہ اس کار خیر کو جاری رکھتے ہیں۔ عبدالسلام ناز بھی اکثر لائیبریری میں پائے جاتے ہیں، ان کی عجیب جبلت ہے نہ کسی کے ساتھ سلام نہ کلام، بس کتاب بغل میں دابے ، الگ تھلگ اپنی دھن میں مگن، اگر رہبانیت کی کوئی زندہ مثال پیش کرنے کو کہا جائے تو ناز صاحب موزوں ہیں۔پروفیسر کمال نور کے پاس کوئی بھی کسی کاغذی کام لے کر جائے تو پہلے بھر پور طور پر افسر شاہی کے تمام لوازمات بروئے کار لاتے ہیں ،پوری تندہی سے کہی دور ٹرانسفری کا مژدہ سناتے ہیں اور ساتھ ہی اگلے لمحوں میں کام مکمل کر کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ابتدائی دنوں میں ناچیزکی کافی مدد کی،عبدالرزاق سینئر تو اکثر چھٹیوں ہوتے ہیں، جب بھی چھٹی لیتے ہیں تو خرابی موسم کی وجہ سے فلائیٹ نہیں ہوتی۔ بڑا رنگین اورشائستہ انسان ہیں اور عبد الرزاق جونیئر سے بھی کالج وین تک گفتگو رہتی ہے، ائی ٹی کے گل زمان بھی اس وقت تشریف لاتے ہیں جب سب جارہے ہوتے ہیں۔کچھ احباب کا ذکر خیر رہ گیا ہے اور کچھ کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
بہر صورت گزشتہ پانچ ماہ سے مجھے ڈگری کالج میں کافی سیکھنے کو ملا ہے، اپنے اسٹوڈنٹ کے ساتھ اور کالج مدرسین کے ساتھ،دل و دماغ میں کافی باتیں ہیں جو اگلی دفعہ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ تب تک کے لئے اجازت