کردار اور کرداریت کی اہمیت
انسان سماجی حیوان کی حد سے آگے نکل جائیں تو اشرف والمخلوقات کہلاتاہے۔ حیوانیت سے انسانیت تک کا سفر بہت طویل اور پیچیدہ ہے۔ عمریں بیت جاتی ہے اس سفر کے پیچ وخم میں‘ بعض لوگ پیدائشی خوش نصیب ہوتے ہیں اُن کی تربیت فطری ہوتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ انساانیت کا عملی نمونہ بن جاتے ہے۔اس دنیا میں کچھ لوگ تربیت دینے کے باوجود انسانیت کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔ انسان انسانیت کا عملی مظاہرہ معاشرے میں سرانجام دیتاہے۔ کسی کے عقیدے اور نیت کا اندازہ اُس کی عملی زندگی میں کردار سے ہوتاہے۔ کردار وہ واحد کسوٹی ہے جس سے ہم کسی کی انسانیت اورتمیز کو پرکھ سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں کردار ہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی عادات و اطواربنالیتے ہیں۔ کرداریت ایک فن ہے۔ اس کا صحیح مظاہرہ ہوتو محفل لوٹ جاتی ہے اور صحیح نہ ہوتو ناک کٹ جاتی ہے۔ اس لئے بعض سماجی ماہرین نے انسان کی زندگی کو ایک ڈرامہ تسلیم کیاہے اور انسان کو اِس ڈرامے کا ایک کردار۔ یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کہہ گئے ہیں’ہوتاہے شب وروز تماشا میرے آگے‘۔ زندگی کےِ اس حسین ڈرامے میں کچھ لوگ آچھا کردار اداکرتے ہیں اور کچھ لوگ بُرا۔ آچھے اور برے کا انحصار ثقافت اور مذہب پر ہے۔ ایک ثقافت میں اگر ایک چیز بری ہے تو دوسرے میں آچھی۔ ایک مذہب میں ایک کردار نیک ہے تو دوسرے میں بد۔ ان تمام کا دارومدار ان کے بانیوں پر ہے کہ کس طرح اُن لوگوں نے اپنے مذاہب یا ثقافتوں کی بنیاد ڈالی ہے۔مثال کے طور پر شراب مشرق میں حرام ہے لیکن مغرب میں لوگ آرام سے پیتے ہیں اِس پر کوئی پابندی نہیں۔سوّر کا گوشت ایک مذہب میں حرام میں تو دوسری میں جائز۔ مشرقی پوری لباس پہنتے ہیں لیکن مغربی نصف‘ کوئی کیڑے مکوڑے کھاتاہے تو کوئی اُن کے نام لینے سے ہی ڈرجاتے ہیں۔ اِس صورت حال میں کردار بھی وہی ہوگا جو اُس معاشرے میں رائج ہے۔ سب انسان حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں لیکن سب انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ شکل و صورت‘ لباس ‘ مکان‘ کھانے پینے کا طریقہ‘ تاریخ اور ثقافت سب مختلف۔ اس لئے کہا گیا کہ انسان کا رھوپ اس دنیا میں ایک ڈرامہ ہے۔
جب ہم زندگی کو ایک ڈرامہ تسلیم کرتے ہیں تو اس ڈرامے کے کرداربھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اپنے کردار کو اپنے وقت اور مقام پر اداکرنا چاہئے بصورت دیگر ہمارا کردار صحیح نہیں ہوگا۔کردار ادا کرنے کے لئے مخصوص جگہ‘ وقت اور مقاصد ہوتے ہیں۔ مربوط اور مطلوبہ کردار ڈرامے کی سین کو چارچاند لگادیتے ہیں۔ ہماری زندگی کے اس حسین ڈرامے میں بچپن سے لیکر بوڑھاپے تک ایک فلم بن سکتی ہے۔ ہرانسان اپنی ذات میں اِس فلم کا ایک موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کی ذات کو بغیر کسی مقصد کے نہیں بنایاہے۔جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ایک مقصدہے تو اِس مقصد کے حصول میں ہمیں کیا کرنا چائیے؟ اس مقصد کے حصول میں ’’کیا ‘ کیوں‘ کیسے اور کب کے سوالات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کے لئے ہمیں ہدایت اور راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل وشعور رکھنے کے باوجود ہم اِن سوالات کے جواب دینے یاپانے سے قاصرہیں۔ اس وجہ سے اس ڈرامے کے ہدایت کار اور پروڈیوسر کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی ان لوگوں کی ڈیئریکشن پر عمل کریں تو تب ڈرامہ نہ صرف حسین بلکہ بامقصد ہوگی۔ جس طرح ڈرامے کے کردار محتاط انداز میں اپنا پارٹ دیتے ہیں اسی طرح ہمیں زندگی میں بھی اپنا پارٹ صحیح اور مناسب وقت پر دینا چاہیئے۔
ہمارے معاشرے میں ایک ہی المیہ ہے وہ ہے اپنے کردار کی ادائیگی۔ ہرفرد کا معاشرے میں کوئی نہ کوئی کردارہے۔ اس لئے ہرکردار کی ادائیگی وقت پر ہوناچائیے۔ بعض لوگ اس معاشرے میں کردار تو بہت لیتے ہیں لیکن ایک کو بھی تسلی بخش طریقے سے سرانجام نہیں دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا پارٹ رہ جاتاہے اور معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے۔ دین کی زبان میں اِن کرداروں کوفرائض کہتے ہیں۔ حقوق وفرائض کی ادائیگی کردار سے ہی ممکن ہے۔ ہم حکومت کا کردار لیتے ہیں لیکن احسن طریقے سے اس کو نباتے نہیں۔ ہم سرکاری اداروں ‘ نجی ادروں‘ محکموں‘ تنظیموں‘ انجمنوں‘ گروہوں اور دینی اداروں میں بڑے بڑے کردار(عہدے) لیتے ہیں لیکن ان تما م سے عہدہ براء نہیں ہوتے ہیں۔ اھورے اور غیرتسلی بخش کاموں کی وجہ سے اداروں کی کارکردگی صفر ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند افراد کی ایمانداری کوئی اثر دیکھا نہیں سکتی۔ زیادہ لوگ کم لوگوں پرغالب آتے ہیں اور معاشرے میں ان کا کردار زیادہ نظر آنے لگتاہے۔
اس دنیا میں کروڑوں لوگ آئے اور گئے لیکن چند ایک کی یاد ان کی کردار کی وجہ سے مشہور ہوکر رہ گئی۔ وہ اِس دنیا میں نہ ہوتے ہوئے بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ ہرفرد کو اِن چیزوں کا علم ہے لیکن اس کے باوجود اپنے کردار میں غفلت برتتے ہیں ۔ ’’ اِن کے دل پر قفل ہے اِن کی انکھوں پر پردہ ہے اور ان کی بصیرت کام نہیں کرتی ہے یہی وہ لوگ ہیں جو جانتے نہیں‘‘۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کس قسم کا انسان بن سکتے ہیں؟سب کچھ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہے تو آچھے لوگوں کی یا بُرے لوگوں کی راہ پربھی چل سکتے ہیں۔اس لئے اللہ سے ہم دُعا مانگتے ہیں ’’اے اللہ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت کرتارہ اور ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے اپنی نعمتیں بھیجی نہ کہ اُن کا جن پر تُونے غضب کیا اور نہ ہی گمراہوں کا‘‘۔
کردار کیسے صحیح کریں؟ کون کرداریت کی تعلیم دیں؟ یہ سولات ایک مسلمان کے لئے مناسب نہیں کیونکہ اللہ نے قرآن پاک اور سنتِ رسول میں اِن سوالات کا جواب دے رکھا ہے۔فرماتے ہیں’’ بیشک ہر ایک سے اُن کے ایک چھوٹی سے چھوٹی اچھائی کو بھی دیکھا جائے گا اور برائی کوبھی‘‘ اب ضرورت عمل کی ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے کردار کی ادائیگی میں بھرپور رکھیں تاکہ معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللّٰہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا ۚ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ .﴿066:004﴾
“” اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ھے کیونکہ) تمھارے دل کج ہوگئے ہیں اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبرئیل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں اور (انکے علاوہ اور) فرشتے بھی مددگار ہیں “”.
A good analysis of the present-day society, Muhammad Jan. Mostly we ignore small but meaningful lessons around us, which contain implications of far reaching nature and gradually become issues of unquantified proportions. Your solution to such issues, referring to Qur’an is second to none.