گوشہ اردو
فکرونظر:”میں حرف حرف زخم ہوں تحریر کر مجھے“
عبدالکریم کریمی
یہ غالباً پچھلے سال کی بات ہے کسی نشست میں کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ ”فکرونظر“ کے پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان و چترال کی اہم ادبی و علمی شخصیات پر خصوصی نمبر نکالنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو یہ کاوش ادب کی پرداخت میںاِنتہائی یادگار ثابت ہوگی۔
بات اچھی تھی، میرے دِل کو لگی۔ اب فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ اِس سلسلے کا آغاز شمال سے ہو یا چترال سے۔ بزرگوں سے ہو یا نوجوانوں سے۔ مگر دوستوں نے یہ کہہ کر یقینا مجھے اِمتحان میں ڈالا کہ شہیدوں کی دھرتی اور امن و محبت کی سرزمین کے اوّلین صاحب کتاب شاعر، کاروانِ فکرو ادب غذر کے صدرنشین اور گلگت بلتستان و چترال کی ادبی تاریخ میں پہلا خالص ادبی و علمی رسالہ سہ ماہی ”فکرونظر“ کے چیف اِیڈیٹر و پبلشر کی حیثیت سے اِس سلسلے کا آغاز آپ سے شروع ہونا چاہئیے۔ میں نے ہزار بار اِنکار کیا کہ گلگت بلتستان و چترال کے بزرگ علمی و ادبی شخصیات کے سامنے میری کیا مجال جو اِتنا بڑا قدم اُٹھا سکوں مگر نہ جانے یہ میرے دوستوں کا خلوص تھا یا کچھ اور بہرحال مجھے اُن کے خلوص کے سامنے ہار ماننا پڑا۔
یہ میری دِلی خواہشوں میں سے ایک خواہش تھی کہ اِس سلسلے کا آغاز پروفیسر کمال الہامی سے ہوتا۔ وہ کمال الہامی، جس کے قلم سے لکھے ہوئے حروف دُعا کا درجہ رکھتے ہیں اور جس کی تحریر کے ہر لفظ میں ایک نئی دُنیا آباد ہوتی ہے۔ یہ عظمیٰ سلیم نمبر ہوتا۔ وہ عظمیٰ، جن کی تحریروں میں عظیم خیالات کی مہلک ہوتی ہے۔ یہ جمشید دکھی نمبر ہوتا۔ وہ دکھی، جن کی شاعری اور نثر میں قومی دُکھ درد ہوتا ہے۔ یہ تاج نمبر ہوتا۔ وہ تاج، جن کی طنزو مزاح پر مبنی تحریریں نہ صرف زندوں میں حرارت پیدا کرتی ہیں بلکہ قبر میں لیٹے مُردے بھی رینگنے لگتے ہیں۔ یہ ضیا نمبر ہوتا۔ وہ ضیا، جن کی تحریروں کی ضیا پاشیوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ یہ اسلم سحر نمبر ہوتا۔ وہ اسلم سحر، جس کے جینے کا مقصد ہی ادب کا فروغ اور قیامِ امن ہے۔ یہ شہاب نمبر ہوتا، وہ شہاب، جو دِکھنے میں تو ڈھیٹ مولوی لگتے ہیں مگر بہت وسیع سوچ رکھنے والے اِنسان ہیں۔ یہ فدا علی ایثار نمبر ہوتا۔ وہ ایثار، جن کے قلم سے ہمیشہ گُل افشانیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ برچہ نمبر ہوتا۔ وہ برچہ، جن کے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ میں تاریخ کے گم گشتہ اوراق کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یہ شمالی نمبر ہوتا۔ وہ شمالی، جن کی تحریر و تقریر میں ہمیشہ امن کی بات ہوتی ہے۔ یہ فیضی نمبر ہوتا۔ وہ فیضی، جن کے فیض سے سرزمین چترال میں بھی اُردُو ادب کی پرداخت ہو رہی ہے۔ یہ حسرت نمبر ہوتا۔ وہ حسرت، جن کی تحریروں میں تحقیق کی جھنکار ہوتی ہے۔ یہ دانش نمبر ہوتا۔ وہ دانش، جن کی نثر میں شعر کا ذائقہ اور شاعری میں نثر کا چسکہ ہوتا ہے۔ یہ فدا ناشاد نمبر ہوتا۔ وہ ناشاد، جو سیاست کی بھول بھلیوں کے باوجود ادب کی خدمت کر رہے ہیں اور بہت خوب کر رہے ہیں۔ یہ قاسم نسیم نمبر ہوتا۔ وہ نسیم، جو صحافت کو خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ یہ سلیمی نمبر ہوتا۔ وہ سلیمی، جن کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دُکھوں اور مصائب کی آواز بن جاتے ہیں۔ یہ ناز نمبر ہوتا۔ وہ ناز، جس نے کم عمری میں اِتنا کام کیا کہ ہم سب کو اُن پر ناز ہے۔ یہ احسان شاہ نمبر ہوتا، وہ احسان شاہ، جو نظم و نثر کے شہسوار ہیں۔ یہ مشتاق نمبر ہوتا۔ وہ مشتاق، جن کی تحریریں پڑھنے کا سب کو اِشتیاق ہوتا ہے۔ یہ شاکر نمبر ہوتا۔ وہ شاکر، جن کے ہر لفظ میں نعمت خداوندی کا تشکر ہوتا ہے۔ یہ یاد نمبر ہوتا، وہ یاد، جن کی تحریروں میں یادوں کے جھروکے ہوتے ہیں۔ مگر اِس سلسلے کا آغاز پھر بھی کریمی نمبر سے ہوا۔ وہ کریمی، جس نے آج سے ٹھیک ایک عشرہ پہلے ایک طفلِ مکتب کی حیثیت سے کار زارِ ادب و صحافت میں قدم رکھا تھا۔ گردشِ لیل و نہار کے ساتھ دس سے بارہ سال بیت گئے۔ اُن دس، بارہ سالوں کی کہانی بہت لمبی ہے۔ اِس طویل عرصے میں زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھنے کو ملے۔ بحیثیت صحافی گلگت بلتستان کی صحافت کو دیکھنے، محسوس کرنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ صحافیوں کی کارکردگی سامنے رہی۔ بحیثیت شاعر و ادیب سرزمین گلگت و بلتستان کے ادیبوں اور شاعروں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے اور اُن سے کسبِ فیض کرنے کا موقع ملا۔ بحیثیت ایک نوجوان دینی اسکالر، علمائے دین و دانشورانِ قوم کی صحبت میسر ہوئی۔ مجھے دِل کی گہرائیوں سے اِس بات کا اِعتراف ہے کہ شمال و چترال کے اِن بلند و بالا پہاڑوں اور اِن تنگ و تاریک وادیوں میں کتنے کُھلے دِل آباد ہیں کہ جو ایک نو آموز کو حوصلہ دے کر دیکھتے ہی دیکھتے صاحب کتاب و صاحب دیوان شاعر بنا دیتے ہیں۔ اَختر اِمام رضوی نے جب یہ کہا تھا
یہ وادی یوں تو خوش منظر بہت ہے
نصیبوں میں مگر پتھر بہت ہے
تو جناب پروفیسرکمال الہامی نے اِس کے جواب میں کیا خوب شعر کہا ہے کہ
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیج میں ہم ہیں
مثالِ گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
واہ کیا کہنے۔ اِن مذکورہ بالا شخصیات کی مثال گوہر نایاب کی سی ہے۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اِن کی صف میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صحافت، ادب اور علمائے دین کے نام سے مذہب کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ صحافت کی بات کی جائے تو یہ ہماری بدقسمتی سمجھ لیجئیے گا کہ کچھ سرپھرے لوگوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد صحافت کے نام سے شریف لوگوں کو بلیک میل کرنے، اِشتہارات کے لیے ضمیر اور ایمان کا سودا کرنے اور زرد صحافت کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ ادب بھی ایسے لوگوں سے محفوظ نہیں رہا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے اور کہتے ہیں۔ حرفِ آخر ہے باقی سب غلط۔ پھر کچھ بزرگوں کی یہ شکایت ہے کہ نوجوان اُن کی قدر نہیں کرتے۔ اِن بزرگوں کے نزدیک اچھی شاعری کے لیے عمر پچاس ساٹھ سے زیادہ ہونی چاہئیے۔ بصورتِ دیگر شاعری پختہ نہیں ہوتی۔ مجھے خود بھی اپنے نوجوان دوستوں سے شکوہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی قدر کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں اِن کی دِل سے قدر کرنی چاہئیے۔ کیونکہ اِن لوگوں نے اُس وقت قلم اور کاغذ سے رشتہ جوڑا تھا جب سرزمین شمال میں لوگ قلم کاغذ نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ یہ احباب اپنی گراں قدر خدمات کی وجہ سے گلگت بلتستان و چترال کے ادب کا مان اور شان ہیں۔ اِن کا یہ کہنا نوجوان اُن کی قدر نہیں کرتے، سو فیصد درست ہے مگر اِن کا یہ کہنا کہ نوجوان پچاس ساٹھ سال سے پہلے کچھ نہیں کرسکتے، سو کو ہزار سے ضرب دے کر غلط ہے۔ دُنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی تبدیلی آئی، اِنقلاب آیا، وہاں نوجوانوں نے قوم کو شعور اور منزل کی سمت دی۔ اِس لیے تو مفکرپاکستان حضرت علامہ اِقبالؒ کی پوری شاعری نوجوانوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم نے جب سرزمین سندھ کو فتح کیا تو اُن کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ جس اٹھارہ سال کے نوجوان کے ہاتھوں میں تلوار سے سندھ فتح ہوتا ہے تو کیا انہی نوجوان ہاتھوں میں قلم اور کاغذ تھماکر ادب و شاعری کے معرکے سر نہیں کیے جاسکتے؟؟؟ یہ وہ حقیقت پر مبنی سوال ہے جو ہمارے قابلِ صد احترام بزرگوں کو نوجوانوں کے حوالے سے فتویٰ دینے سے پہلے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
بات علمائے دین کی ہوجائے تو خوش قسمتی سمجھ لیجئے یا بدقسمتی۔ مجھے اِن کی صحبت میں بھی رہنے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں بھی چند علمائے خیر کے علاوہ باقیوں کی موجودگی اِسلام جیسے مقدس دین کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس صحافت، ادب اور علمائے دین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو محسوس ہوا کہ ان تمام شعبوں میں اکثریت کی تعداد ننگی تھی۔ مجھے معاف کر دیجئیے گا کہ بے احتیاطی میں یہ بات بھی کہہ گیا۔ کیونکہ بقول پروین شاکر
”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“
کریمی نمبر شائع کرنے پر میں راضی اِس لیے بھی ہوا کہ میرے ادیب و شاعر دوست مجھے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ بقولِ شاعر
تو شاعری کے سارے ہنر جانتا تو ہے
میں حرف حرف زخم ہوں تحریر کر مجھے
یا میرے پیش نظر یہ تمنا تھی کہ
قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اُتارو!
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں
جس اِنسان کی کامیابی کے پیچھے اُن کے عظیم ماں باپ کی دُعائیں اور جان سے پیاری بہنوں کی محبتیں شامل ہوں۔ تووہاں کامیابی و کامرانی مقدر بن جاتی ہے۔ میرے عزیز فیض اللہ فراق کا یہ قطعہ فکرانگیز ہے
پھولِ خوشبو سے مرے گھر کو سجا رکھا ہے
گھر کے دہلیز پہ گلدان بنا رکھا ہے
کس میں ہمت ہے کہ نظروں سے گرا دے مجھ کو
مری بہنوں نے مجھے سر پہ اُٹھا رکھا ہے
غلام عباس نسیم کیا خوب کہتے ہیں
کریمی! تجھ پہ اللہ کی نظر ہے
جبھی ہاتھوں میں اب ”فکرونظر“ ہے
اَدب کے دشت میں تنہا نکلنا
تیری ماں کی دُعاو¿ں کا اثر ہے
اللہ رب العزت کی کرم نوازیاں بھی مجھ بندہ¿ ناچیز پر بے شمار ہیں۔ تب تو عنایت اللہ شمالی جیسے سکہ بند دانشور کو کہنا پڑا
کریمی! تجھ پہ مولا کا کرم ہے
تمہارا منتظر باغ اِرم ہے
بلند پرواز سے ”فکرونظر“ سے
ادب کا آپ نے رکھا بھرم ہے
بس میری خوش قسمتی سمجھ لیجئیے گا کہ میرے سر پر ہمیشہ بزرگ ادیبوں اور شاعروں کا سایہ رہا۔ پھر دوستوں کی شفقت، ماں باپ کی تربیت اور اپنی بہنوں کی چاہت سے میں آج اِس قابل ہوا کہ ”فکرونظر“ کا کریمی نمبر لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
”فکرونظر“ کا آئندہ شمارہ یکم نومبر (یومِ آزادی گلگت بلتستان) کے حوالے سے ”آزادی نمبر“ ہوگا۔ اُمید کی جاتی ہے کہ تمام قلمکار اِس حوالے سے اپنی شاہکار تحریریں ہمیں ارسال فرماکر قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں گے۔
اِظہار تشکر کے طور پر یہ چند اشعار تمام احباب کی نذر کرتے ہوئے آپ سے اِجازت چاہوں گا۔ زندگی نے وفا کی تو انشاءاللہ العزیز آئندہ شمارے میں ”آزادی نمبر“ کے ساتھ ایک دفعہ پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ اپنے اور اپنے گردو نواح میں رہنے والوں کا بہت سارا خیال رکھئیے گا۔ اللہ نگہبان۔
کریمی خادمِ اہلِ قلم ہے
قلم کارو! تمہاری یہ قسم ہے
تمہارا شکریہ ہر دَم کہوں میں
یہ احسانات کے بدلے میں کم ہے
ادیبوں، شاعروں کا لطف ہے یہ
اَدب کے جسم میں اب تک جو دَم ہے
جنہوں نے مہربانی کی ہے مجھ پر
مرا سر اُن کے آگے آج خم ہے
شمالی نے دُعا کیا خوب کی ہے
”کریمی! تجھ پہ مولا کا کرم ہے“