زہر بکتا ہے سرِ عام؟
مرزہ خان راہگیر ؔ
mirzakhan786@yahoo.com
تین نفوس پر مشتمل ایک خاندان کی کہانی آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کر رہا ہوں، باپ شیر نواز خان پیشہ کے اعتبار سے پولیس کانسٹیبل ہے، ماں شمشاد نواز خاتونِ خانہ ہیں اور بیٹا توصیف نواز بظاہر طالب علم ہے۔ شیر نواز خان محکمہ پولیس میں بطورکانسٹیبل اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے،یہ محکمہ بھی ایک عجیب محکمہ ہے جہاں دن رات مسلسل ڈیوٹی دینا پڑتی ہے، ان کے کیلنڈر میں کہیں بھی چھٹی کا نشان نہیں ہوتا۔ شیر نواز خان اپنے پورے تھانہ کی حدود کے مردوزن کی سرگرمیوں سے باخبر ہے۔ان کے تمام کوائف سے آشنا ہے کون کیا کرتا ہے اور کہاں آتا جاتا ہے اسے سب علم ہے کیونکہ یہ اس کی ڈیوٹی کا حصہ ہے، لیکن اپنے لختِ جگر نورِ نظر کے لیے آپ اسے نرم گوشہ کہیں یا سنگین نوعیت کی غفلت ! شیر نواز خان اپنے بیٹے کے مشاغل سے بالکل غافل وبے خبر ہے مثل چراغ تلے اندھیرا۔ماں شمشاد نواز بھی بیٹے کے لیے ضرورت سے زیادہ مہرووفا اور پیکرِ محبت ہے، ماں کا خیال ہے کہ ان کے بیٹے کو حق حاصل ہے کہ وہ جیسی زندگی چاہے ویسی گزارے اس کے لیے کوئی روک ٹوک یا حدودو قیود نہیں کیونکہ وہ ان کا اپنا خون ہے۔ بیٹا توصیف نواز میٹرک میں تین بار فیل ہونے کے بعد چوتھی مرتبہ امتحان میں شرکت کرنے سے صاف انکار کرتا ہے۔صبح دس بجے اٹھتاہے ناشتہ کرتا ہے اور پھر ٹی وی چلا کر بیٹھ جاتا ہے،تین بجے دوپہر کا کھاناکھانے کے بعد باپ کے اے ٹی ایم کارڈ کے ساتھ گھر سے نکل کرغائب ہوجانااس کا معمول ہے اور پھر اس کے بعدرات کے آخری پہر میں چوپائے کی چال چلتا ہوا اپنے پلنگ پر کبھی سوٹ بوٹ سمیت اور کبھی کبھار چینج کرنے کی ہمت بھی کرلیتا ہے اوراس طرح نیند کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔ہمسائے اور دیگر طنزیہ جملے کستے ہیں ا ورطعنے دیتے ہیں لیکن ماں ہے کہ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ماں کی زبانِ مبارک پر تلخی تو درکنار ذرا سی ترشی بھی نہیںآتی،باپ تو مہمانِ خانہ ہے مہینے میں ایک آدھ بار دیدارِمبارک سے نوازتاہے اور اپنے فرائض منصبی نبھاہ رہا ہے۔اس طرح بلا کسی روک ٹوک یا خوف کے توصیف نواز کی منفی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔کساد بازاری اوربڑھتی ہوئی مہنگائی نے منشیات کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ کردیاتو باپ کا اکاؤنٹ اورجیب خرچ منشیات کے لیے کم ہونے لگا ۔ توصیف نواز کے دوست بھی اسی قماش کے تھے اس نے ان کے ساتھ مل کر چوری چکاریوں کا آغاز کر دیا،برائی کو شروع میں روکنا بہت آسان ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ برائی بڑھتی جاتی ہے ۔چورآہستہ آہستہ ایک بڑا ڈکیت بن جاتا ہے۔
ایک دن شیرنواز خان تھانے میں اخبارپڑھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظراپنے ہی اکلوتے بیٹے توصیف نواز کی تصویر پر پڑی،جس کے ساتھ شہ سرخی لگی تھی 58 توصیف ڈکیت ہلاک ساتھی فرار ہو گئے 59 خبر کی تفصیل میں کیا لکھا تھا شیرنواز خان سے وہ بھی نہ پڑھا جاسکا ،وہ چکرا کر کرسی سے نیچے لڑھک گیا۔ پیٹی بند ساتھیوں نے بھاگ کر اسے اٹھایا اور حالت غیر ہونے کی وجہ جاننا چاہی توشیرنواز خان سے بولا ہی نہیں گیا۔ جب انہوں نے اخبار میں خبر پڑھی کہ راجہ بازار کی مشہور بیکری بدر بیکرز اینڈ کنفکشنرزمیں دوران ڈکیتی سکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے مشہور ڈکیت توصیف نواز ہلاک ہو گیا اور ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔اس طرح شیرنواز خان کے ساتھیوں نے سہارادے کر اسے گاڑی تک پہنچایا اور اسے گھر تک لائے،ضابطے کی کاروائی کے لیے توصیف کی لاش ہسپتال بھجوا دی گئی ۔ماں کے بے جالاڈ پیاراور باپ کی مجرمانہ غفلت نے گھر کے واحد سہارے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔اپنی دنیا بھی خراب کی اور آخرت بھی خراب کر لی، ضرورت سے زیادہ نوازشات نے ایک ہنستے بستے خاندان کو رنج والم میں مبتلا کر دیا۔
یہ تو ایک خاندان کی کہانی ہے اگرمجموعی طور پر دیکھا جائے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا آئینی کردار نبھانے سے خود کو مبّرا سمجھیں، معززینِ حلقہ،عوامی نمائندے،سول سوسائٹی بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ توصیف کے ہم عصروں پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے؟یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا کوئی مثبت حل نظر نہیں آرہا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ لعنت بالعموم پاکستان میں اور بالخصوص گلگت بلتستان میںآپ جب چاہیں چرس، ہیروئن،ٹینچو،یا مقامی وسائل سے تیار کی جانیوالی شراب(عرق) باآسانی مل سکتی ہے،بس آپ کو تھوڑی رقم خرچ کرنا ہو گی۔منشیات کی باآسان دستیابی ہی ہماری نسل کو نشے کی طرف راغب کر رہی ہے۔ جب بھی کوئی مذہبی یا قومی تہوار ہوتا ہے ،شادی بیاہ ہو یا کوئی اور خوشی کا موقع ہوان شرابیوں چرسیوں کے غل غباڑے نذر ہو جاتا ہے۔کوئی بھی تقریب ایک دوسرے کو گالم گلوچ کیے بغیریا ایک دوسرے کا دامن چاک کیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔مقامی نمبردارصاحبان ،معززین حلقہ،NGOsاور قانون نافذکرنے والے ادارے سب نے چپ سادہ رکھی ہے،نوجوان نسل کی کثیر تعدادمنفی سرگرمیوں میں زور وشور سے ملوث ہو رہی ہے،روزبروز ٹریفک حادثات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈرائیور حضرات نشے کی حالت میں ڈرائیوکرتے ہوں؟ یایہ حضرات بغیر ڈرائیونگ لائسنس اور بغیر کسی مہارت و تجربے کے ڈرائیونگ کرتے ہوں؟ کیا قانون نافذ کرنے والوں کا فرض نہیں بنتا کہ حادثہ کرنے والے ڈرائیور کا طبی معائنہ کروائے؟ اگر اس نے حالتِ نشہ میں حادثہ کیا ہے تو اسے بھی قانون کے مطابق سزا دی جائے۔آج کاہر دکاندار۱۸ سال سے کم عمر کے بچوں کو سگریٹ فروخت کر رہاہوتا ہے،کون ہے جو اسے روک سکے؟ہمارے ہر میڈیکل اسٹورپر ممنوع ادویات بغیر کسی اسپیشلسٹ کے نسخہ کے دستیاب ہوتی ہیں،ترقی یافتہ ممالک میں ممنوع ادویات تو درکنار ہائی پوٹینسی ادویات بھی بغیر نسخہ کے نہیں ملتیں۔دنیا میں شائد پاکستان ہی واحد ملک ہو گا جہاں زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں،ہر چیز باآسانی دستیاب ہے۔اگر دستیابی آسان ہے تو کیا ہمیں موت کو خرید لینا چاہئے؟ اسلام نے منشیات کے استعمال کو سختی سے منع کیا ہے،سعودی عرب یا دوسرے اسلامی ممالک میں منشیات فروشی کی سزا سزائے موت ہے۔کیا ہمارا ملک اسلامی ملک نہیں ہے؟کیا اسے اسلام کے نام پر حاصل نہیں کیا گیا؟ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور خود ہی اسلام کی مقدس تعلیمات کو نظرانداز کردیتے ہیں آخر کیوں؟کیا علاقے کے عوامی نمائندوں کی بے حسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بیجا مہروکرم یا یوں کہیے کہ رشوت کے سہارے سے ہم روزِ محشر میں بھی بچ پائیں گے؟ہرگز نہیں!
اللہ تعالیٰ ہمیں مہلت دے رہے ہیں کہُ ُ توبہ ً کر لیں اور وہ سچے دل سے ، اللہ تعالیٰ سچے دل سے توبہ کرنے والوں کو معاف فرما دیتا ہے ورنہ روزِمحشر نہ رشوت کام آئے گی نہ اثرورسوخ اور نہ ہی سفارش۔ہم اپنے دین ودنیا کو صریحاً کیوں تباہ وبرباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ بات پھر وہی ہے کہ ً اگر شیر نواز خان کانسٹیبل علاقے کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اپنے لختِ جگر توصیف کے چال چلن پر بھی نظر رکھتا تو شائد اسے توصیف کی ذلت آمیز موت نہ دیکھنا پڑتی۔ موت برحق ہے اور قرآنِ کریم میں ارشادِربّانی ہے، ُ ُ ہرجاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ،، چوری ڈکیتی میں مارا جانا حرام موت کہلاتا ہے اگر موت وطن کادفاع کرتے ہوئے آتی تو اسے شہادت کی موت یعنی شہید کہا جاتا ہے ۔کانسٹیبل موصوف کی طرح جو علاقے کے دوسرے بچوں کے کوائف تو رکھتا تھا لیکن اپنے بیٹے کے کرتوت جانتے ہوئے بھی آنکھ بند رکھتا تھا۔ کیا ہم بھی کہیں اندر سے شیرنواز خان کانسٹیبل ہی تو نہیں ہیں؟ کیا ہم اپنی اولاد کے کردار پر نظر رکھتے ہیں؟آئیے آج ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم سب مل کر منشیات کے خلاف جہاد کریں گے ،اس ملک کو اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر لے کر چلیں گے،جس میں نہ جھوٹ ہوگا نہ چوری ہو گی نہ کوئی ڈکیتی ہوگی جھوٹ ،فریب، دغا بازی،گالی گلوچ،قتل اور دہشتگردی جیسی کسی چیز کا نشاں بھی نہ رہنے دیں گے،ہم ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں گے،ایک دوسرے کے کام آئیں گے،ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے جو اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر رہے! آمین!!
aap nai muashray ki dukhti rug per hath rakha hai,yehi hamara almia hai k maan bap apnay bachoon ki sargarmion per nazar nahi rakhtay aor ager unhain bachoon ki harkat se kuch shak bhi perta hai tu wo isay nazar andaaz ker detay hain aor bai ja laad dulaar un ki olaad ko mujrim bana ker haram moot mernay per majboor ker deti hai….parents ko chahiye wo apnay bachoon per kari nazar rakhain un ka baita kahan jata hai kiswaqt ghr aata hai uska hulqa e ehbab kis qisam k logon per mushtamil hai waghira waghira.ager parents is terbiyat mein susti karein gai tu natija juld un k samnay ajyega aor uswaqt siwaye kaf e afsos malnay k wo kuch nahi ker payein gai….humein chahiye apnay bachoon ko choti age hi sai haram halal ki tameez batein aor apnay bachoon ko Rasool Allah sawaw aor un ki aal k aqawaal e zareen sunayein aor un per chalnay ki adat dalaein tu humara bachcha kabhi ghalat ravish ikhtiyar nahi karayga aor hum khuda ko muhn dikhanay k qabil rahengay duaa hai Allah hamein aor humari oladon ko dhesha tgurdi chori chakari jesi buri adaat sai mehfooz rukhay( Elahi Aameeeen)…..Khudahafiz