گوشہ اردو

چترال تاجکستان روڈ صرف قرارداد مذمت کافی نہیں

ممتاز حسین گوہر

قانون ساز اسمبلی کی سولہویں اجلاس کے دوسرے روز اپوزیشن بنچ کی طرف سے رکن اسمبلی نواز خان ناجی نے تاجکستان روڈ کی غذر کے بجائے چترال سے تعمیر کے خلاف قرارداد پیش کی قرارداد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورہ تاجکستان کے دوران ضلع غذر کے بجائے تاجکستان روڈ کو چترال سے تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے ہم میڈیا کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کی تشویش سے بھی آگاہ ہیں اس روڈ کا گلگت بلتستان سے چھن جانا علاقے کی معاشی قتل کے مترادف ہی۔ اگر یہ روڈ گلگت بلتستان کے راستے تعمیر ہوتا تو علاقے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتیں، اس قرارداد کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بشیر احمد خان نے کہا کہ سب کو امید تھی کہ یہ شاہراہ غذر کے راستے تعمیر ہوگی۔ مگر خیبر پختونخواہ حکومت نے ایک بار پھر سے اپنی پھرتی دکھائی ، اس شاہراہ سے گلگت بلتستان کے اجتماعی مفادات وابسطہ ہیں روڈ یہاں سے تعمیر ہوتا تو مستقبل میں گلگت بلتستان کے معشیت کا دارومدار ہی اسی روڈ پر ہوتا عطاء آباد جھیل کے بعد پاک چین تجارت بری طرح متاثر ہو چکی ہے ایسے میں غذر تاجکستان روڈ کی تعمیر انتہائی ناگزیر تھا۔ مسلم لیگ ق گلگت بلتستان کے صوبائی صدر میرزہ حسین نے قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غذر تاجکستان روڈ کے گلگت بلتستان سے چھن جانے میں وزیراعلیٰ براہ راست ملوث ہیں اس شاہراہ کی تعمیر سے علاقہ مستقبل میں معاشی مرکز بنتا اور گلگت بلتستان ترقی کی دوڑ میں ہانگ کانگ اور سنگاپور کو پیچھے چھوڑ دیتا، اس شاہراہ کا ہم سے چھن جانا ہماری معیشت کا قتل ہی۔ خیبر پختونخواہ حکومت گلگت بلتستان کے مفادات پر وار کرتا آیا ہی۔ شندور تنازعہ اور دیامر ڈیم جس کی واضح مثالیں ہیں گزشتہ سال پختونخواہ حکومت نے وزیراعلیٰ سے شندور میں تقریر کروائی تو بڑے خوش ہوگئے اور واپس لوٹے رکن اسمبلی قاریرحمت لخالق نے قرارداد کی حمایت میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ غذرتاجکستان روڈ کی سکیم اور بنیاد سب سے پہلی994-95ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دورہ گلگت کے دوران اچھی تھیں اگر موجودہ پیپلزپارٹی کے حکمران محترمہ بے نظیر بھٹو کو قائد تسلیم کرتے ہیں تو اس شاہراہ کو غذر کے راستے ہی تعمیر کرائے ورنہ یہ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کا اپنے قائد کی روح کے ساتھ غداری کے زمرے میں آئے گا۔ اور عوام یہ سمجھیں گے کہ پی پی کے رہنماء اپنے قائد کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی، مسلم لیگ ق کی خاتون رکن اسمبلی آمنہ انصاری نے غذر تاجکستان روڈ اور قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے صوبائی وزراء سے سوال کیا غذر تاجکستان کی فزیبلیٹی رپورٹ تیار ہونے کے باوجود اس شاہراہ کو چترال کے جھولی میں کیوں ڈالا گیا اور اس کی آخرکار نوبت کیوں پیش آئی اور اس ساری کارروائی کے پیچھے کونسے ہاتھ کارفرما ہیں۔ حکومت کی طرف وزیر قانون وزیر شکیل نے کہا کہ غذر تاجکستان روڈ ایک اجتماعی مسئلہ ہے اس حوالے سے میرزہ حسین حکومتی بنچوں کو اشتعال دلانے سے گریز کرے ہم اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرائیں گے اور کابینہ میں بھی لائیں گے ان فیصلے پر نظرثانی کیلئے وزیراعظم اور صدر پاکستان سے بھی بات کی جائے گی غذر تاجکستان روڈ کے حوالے سے وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے کہا کہ میں تو صرف چین تک گیا تاجکستان نہیں گیا تھا وزیراعظم سے میری میٹنگ جس میں میں غذر تاجکستان روڈ کو زیر بحث لائوں گا۔ اس روڈ کے حوالے سے ہم باخبر ہیں جو بھی ہوگا کریں گے سپیکر وزیر بیگ نے ایوان میں موجود تمام اراکین کی رائے پوچھنے کے بعد نواز خان ناجی کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

قصہ مختصر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی قرارداد یں پاس کرنے کی حد تک محدود ہوگئی ہی۔ مگر اس قرارداد کے پا س ہونے میں ایک نئی بات یہ ہے کہ یہ قرار داد اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اس قرارداد کے پاس ہونے سے وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ کے اس بیان کی نفی ہوگئی ہے کہ گزشتہ اسمبلی اجلاس کے دوران انہوں نے کہی تھی جس میں وزیراعلیٰ نے کہی تھی کہ ایوان میں ہماری اکثریت ہے ہماری مرضی کہ ہم کسی کے حق میں قرار داد پاس کریں یا مخالفت میں، میں اپوزیشن کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ کوئی قرار داد اسمبلی میں لائے اور اسے پاس کروا کر دکھائے صد افسوس وزیراعلیٰ کی موجودگی میں اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ قرارداد منظور ہوگئی یاد رہے وزیراعلیٰ نے اپنی بیان اس وقت دی تھی جب پی پی کی ایک خاتون رکن اسمبلی نے بابر اعوان کے خلاف بیان دینے پر رانا ثناء اللہ کے خلاف قرارداد ایوان میں پیش کی تھی۔ مگر اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کی مخالفت وزیر اوعلیٰ اسلئے نہ کر سکے کیونکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا۔ اور ایوان کی اکثریت اس قرار داد کے حق میں تھی دوسرا یہ کہ اس شاہراہ کے گلگت بلتستان کے چھن جانے کے پیچھے گورنر گلگت بلتستان کی طرح وزیراعلیٰ بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک ہیں کیونکہ اس بات کو دہرایا کہ تاجکستان تک زمینی راستہ ضلع غذر(اشکومن)کے راستے ہی تعمیر ہوگی وفاق اور گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے اس اہم پراجیکٹ کو ہم سے کوئی نہیں چھن سکتا۔ مگر مرکز اور صوبے میں ان کی حکومت ہوتے ہوئے بھی یہ اہم منصوبہ ہاتھ سے نکل گیا اور وزیراعلیٰ اپنے کابینہ کے وزراء اور گورنر کے ساتھ اس روڈ کے چھن جانے کا تماشا دیکھتے رہی۔عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کو بھی منظور کر لیا گیا اور صوبائی حکمرانوں کی کوشش ہے کہ یہ مسئلہ جلد ٹھنڈا ہو اور عوام غذر تاجکستان روڈ کو ماضی کا ایک قصہ پارینہ سمجھ کر بھول جائیں اب پچھتائے کیا حوت جب چڑیاں چکی گئی کھیت کے مصداق ہمارے حکمران وقت پر کسی بھی مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کے بجائے جب سب کچھ ہاتھ سے گزر جائے تب عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مختلف قسم کے بیانات داغتے ہیں اگر غذر تاجکستان روڈ پر وزیراعلیٰ اور گورنر چاہتے تو بہت کچھ کرتے تھے مگر انہیں مستقبل کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہی۔

گورنر گلگت بلتستان 45سال تک کونسل اور اسمبلی کے ممبر رہے اس وقت بھی اپنی ذات تک محدود رہے اور اب گورنر کے عہدے پر براجمان ہیں تو تب بھی اپنی ذات تک ہی محدود ہیں،گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اس روڈ کے حوالے سے عوام کو سبز باغ دکھاتے اور سیٹ جیتتے رہے کہ وعدے کرتے رہے کہ تاجکستان روڈ ہر حال میںغذر کے راستے ہی تعمیر ہوگا۔ اب جب سے صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس روڈ کو چترال کے راستے تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں تب سے اب تک گورنر اس اہم عوامی مسئلے پر عوام سے ایک لفظ کہنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ گورنر پیر کرم علی شاہ اس شاہراہ کے گلگت بلتستان سے چھن جانے پر یہاں کے عوام سے معافی مانگتے اور اس بات کا اعتراف کرتے کہ ہماری سستی اور کمزوری کی وجہ سے اہم پراجیکٹ ہم سے چھن گیا۔ لیکن گورنر تو اب اقتدار میں ہیں انہوں نے ضلع غذر اور خاص کار اپنے حلقے کے عوام کو اس روڈ کی تعمیر کے حوالے سے جتنی بار بے وقوف بنانا تھا بنا لیا ہے اب مذید کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی ہی

رہی بات قرارداد کی اس پر کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ عوام کے اجتماعی مسئلے پر قرارداد پاس ہوگئی لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیا اس قرارداد کے اسمبلی سے پاس ہونے پر آصف علی زرداری اور خیبر پختونخواہ حکومت پر کوئی اثر پڑے گا۔ ہرگز نہیں کیا رانا ثنا اللہ اور نواز شریف کی صحت پر کوئی اثر پڑا ہے کیونکہ قرارداد تو ان دونوں کے خلاف بھی منظور کر لی تھی ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ کے ساتھ ساتھ گورنر بھی گورنر ہائوس اور چٹوکھنڈ کی دنیا سے باہر نکلے اور اس اہم پراجیکٹ کے چھن جانے پر احتجاج کرے صدر زرداری اور وفاقی حکومت کو فیصلے پر نظر ثانی کرانے پر مجبور کرائے خیبر پختونخواہ میں امن و آمان کی صورتحال کے حوالے سے پوری دنیا آگاہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ افغان شدت پسندوں کا چترال پر حالیہ حملے کی طرح آئندہ بھی کوئی واقعے سے یہ پراجیکٹ سبوتاژ ہو سکتا ہے لہذا گورنر وزیراعلیٰ وزراء سمیت صوبائی حکومت کے تمام ذمہ داروں کو یک زبان ہوکر تمام شواہد اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر اپنے اجتماعی مفادات کیلئے جدوجہدکرنا ہوگا۔ اور وفاقی حکومت کو چترال تاجکستان روڈ کے فیصلے پر نظرثانی کرانے پر مجبور کریں

Related Articles

Back to top button