گوشہ اردو
وزیر اعلی سید مہدی شاہ سے اپیل
میں آج کے کالم کو طولنہیں دینا چاہتا ۔ آج کا کالم جناب وزیر اعلی سید مہدی شاہ صاحب کے نام ایک امید بھر ا پیغام ہے جو اپنے کنٹریکٹ لیکچررز بھائیوں کی طرف سے اخبار کے صفحات کے ذریعے ان تک پہنچانے کی کوشش ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحب ان گزارشات پر غور کریں گے۔ کنٹریکٹ لیکچررز کی کہانی بہت سادہ ہے۔ 2010اپریل کو گلگت بلتستان کے محکمہ ایجوکیشن نے تمام لوکل اخبارات میں اشتہار دیا اور جولائی 2010 کو تحریری ٹیسٹ کے لئے کال لیٹر کیے اور ستمبر 2010 کو گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ۰۰۴۱ سو امیدواروں نے امتحان میں شرکت کی جن میں قلیل تعدا د میں امیدوار کامیاب ہوئے اور ان کا رزلٹ آویزاں کردیا گیا۔اپریل ۱۱۰۲ ءکو کامیاب امیدواروں کو انٹرویو کے لئے بلایا ۔ بہت سارے امیدوار کراچی لاہور سے آئے انٹرویو دینے کے لئے۔ اس انٹرویو پینل میں گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری جناب سیف اللہ چٹھ صاحب، انتہائی ذہین و فطین ہوم سیکریٹری جناب بلال لودھی صاحب، جناب سیدہادی صاحب سیکریٹری ایجوکیشن،سبجیکٹ اسپیشلسٹ، ڈائریکٹر آف کالجز اورماہر نفسیات جیسے ذمہ دار لوگ شامل تھے۔ ان تمام ذمہ دار لوگوں نے انٹرویو کیا اور جولائی ۱۱۰۲ ءکو کامیاب امیدواروں کو آفر لیٹر کیا اور ستمبر ۱۱۰۲ءکو ۶۳کامیاب لیکچررز نے اپنی اپنی کالج جوائن کیا۔ٹیسٹ انٹرویو اور انٹرویو پینل اور امیدواروں کی سیلکشن کے حوالے سے گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر جناب اسسٹنٹ پروفیسر اویس صاحب کا کہنا ہے کہ بے حد شفاف ،غیر جانبدار طریقے سے یہ سارا پروسس ہوا ہے اور جو بھی منتخب ہوا ہے وہ اپنی قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر ہوا ہے۔جناب ڈائیریکٹر آف کالجز کا کہنا ہے کہ” ہم نے سسٹم ہی ایسا مرتب کیا تھاکہ اس میں جعل سازی کی گنجائش نہیں تھی“۔ محترم چیف سیکریٹری کا بھی کہنا ہے کہ” گلگت بلتستان لیول کی جتنی بھی تقرریاں ہوئی ہیں ان سب سے اچھی اور شفاف طریقے سے یہ تقرریاں ہوئی ہیں“۔ کیونکہ وہ خود اس پورے پروسس کا عملی حصہ رہے ہیں۔کنٹریکٹ لیکچررز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جناب ہادی صاحب سیکریٹری ایجوکیشن نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ” آپ لوگ ایک ٹف پروسس سے گزر کر آئے ہو اور یہ بھی معلوم ہے کہ کسی قسم کی کوئی کرپشن،سفارش یا رشوت کا عمل دخل بھی نہیں ہوا ہے“۔
اس کے علاوہ ان تمام لیکچررز نے گلگت بلتستان کی کالجز میں انتہائی محنت سے پڑھا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ جب موجودہ عوامی حکومت نے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کی بات کی تو سوائے ان کنٹریکٹ لیکچررز کے علاوہ کی بات کی اور ا س لسٹ میں ان کا نام شامل کرنے سے انکار کر دیا۔گزشتہ ایام کی بات کریں تو بھی ہمیں یہ مثالیں ملتی ہیں کہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلی جناب سیدمہدی شاہ صاحب نے گریڈ ۷۱ اور ۸۱ کے کئی کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیاجن میں مینرل ڈیپارٹمنٹ،بہود آبادی،محکمہ سیاحت، ڈاکٹر صاحبان قابل ذکر ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے لیکچررز نے ان تمام شواہد و مثالوں پر مبنی ڈاکومنٹ جب ارکان اسمبلی بالخصوص جناب وزیر بیگ صاحب،اپوزیشن لیڈر جناب جانباز صاحب، جناب دیدار صاحب،، جناب محمدعلی اختر صاحب اور دیگر کو تھما دیا تو انہوں نے ہر ممکن تعاو ن کی یقین دہانی کرادی۔ اس بات کو دیدار صاحب نے اسمبلی اجلاس میں بھی اٹھایا۔ لیکچررز کے وفد نے اسپیکر وزیر بیگ صاحب کے چیمبر میں جب تمام ارکان اسمبلی کے سامنے اپنی بات تفصیلی طور پر بیان کیا تو سب نے حمایت کی اور قرارداد لانے کی بات بھی کی، ڈپٹی اسپیکر جمیل صاحب نے کہا کہ قرارداد پہلے سے پاس ہوچکی ہے۔ آپ لوگ وزیر قانون وزیر شکیل صاحب سے اپنا مسئلہ حل کروائیں۔وزیر تعمیرات جناب بشیر احمد خان نے وزیر قانون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ” شکیل صاحب دوسرے صوبوں میں بالخصوص پنجاب میں کنٹریکٹ لیکچررز مستقل ہوسکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں ہوسکتے ہیں لہذا آپ ان
بھائیوں کا مسئلہ حل کردیں اللہ آپ کا بھلا کردیا گا“ وزیر شکیل صاحب نے دفتر بلایا مگر ان کارویہ مناسب نہیں تھا۔
مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ یہ تمام حضرات بالخصوص محترم چیف سیکریٹری اور سیکریٹری ایجوکیشن،ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن اور پروفیسرایسوسی ایشن اس بات کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ یہ تقرریاں انتہائی میرٹ پر ہوئی ہے مگر وہ اپنے ہی سلیکٹ کردہ لوگوں کو ساتھ تعاون کرنے سے گریزں نظر آتے ہیں۔بہرصورت ان سطور کے ذریعے کنٹریکٹ لیکچررز کی آواز کو محترم وزیر اعلی سید مہدی شاہ صاحب تک پہنچانا لازمی سمجھتاہوں کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان کا مسئلہ حل کردیں۔یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جناب وزیر اعلی سید مہدی شاہ صاحب، جناب چیف سیکریٹری صاحب اور جناب سیکریٹری ایجوکیشن صاحب چاہیے تو یہ لیکچررز دیگر کنٹریکٹ ملازمین کی طرح مستقل ہوسکتے ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ گریڈ ۷۱ اور ۸۱ کے دیگر محکموں کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرکے صرف اور صرف میرٹ پر بھرتی ہونے والے لیکچررز کو مستقل نہیں کیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ ایک عظیم زیادتی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوامی وزیر اعلی جناب مہدی شاہ صاحب، انتہائی ذمہ دار آفیسر جناب چیف سیکریٹری سیف اللہ چٹھ صاحب اور جناب سیدہادی سیکریٹری ایجوکیشن اور کنٹریکٹ ملازمین کے مستقل کرنے کی کمیٹی کے چئرمین جناب وزیر شکیل صاحب سے کہ وہ اپنی مہربانی اور صوابدیدی اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے ان کو مستقل کردیں گے۔وزیر اعلی صاحب اس طرح کے کئی کریڈیٹ پہلے بھی لے چکے ہیں لہذا وہ آج بھی عوامی وزیر اعلی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اور اپنے اختیارات کو بروقت استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لیکچررز کو مستقل کریں،اللہ خیر کرے گا ۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔