کشِدہ حالات کا قراقرم یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے پروگرام اور طلبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، وائس چانسلر
گلگت ( پ ر) قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نجمہ نجم نے کہا ہے کہ KIUکو خصوصی طور پر نشانہ بنانا ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی۔مستقبل میں سازشوں اور بیرونی عناصر کی مداخلت کے روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ سزا کے مستحق طلباء کیلئے اپیل کا استحقاق حاصل ہیں۔یونیورسٹی کے معاملات میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز مقامی ہوٹل میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ محترمہ وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلباء کے دوالگ الگ مذہبی ایام منانے کے مطالبے کو خوش اسلوبی سے سلجھانے کیلئے صوبائی حکومت، مقامی انتظامیہ ، علمائے کرام، سیاسی رہنماؤں ، مساجد بورڈ سمیت ہر مکتبہ فکر کے بااثر افراد سےرابطے قائم کئے لیکن طلباء کے دونوں فریقین بعض بیرونی عناصر کی پشت پناہی سے یونیورسٹی قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی پر بضد رہے تو مجبورا یونیورسٹی انتظامیہ کو سخت اقدامات کرنے پڑے ۔ انہوں مساجد بورڈ، علمائے کرام اور مقامی انتظامیہ کی کاوشوں کو سراہا البتہ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انکے سامنے طلباء کے دونوں فریق شیرو شکربن کرگلے ملے لیکن بعد میں بعض بیرونی عناصر کے ایماء پر یونیورسٹی کے پرامن تعلیمی ماحول کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ KIUکو ایک فیملی ہے اور بے شمار مواقع پر ا س بات کو ثابت بھی کرچکے ہیں۔ہمارے مابین کوئی تفرقہ بازی نہیں۔
وائس چانسلر نے مزید کہا کہ KIUنے طلباء کے مابین اتحاد و اتفاق کی فضا بحال کرنے اور شہر میں امن کا پیغام دینے کیلئے باقاعدہ علماء رابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے جو سرمائی تعطیلات کے دوران مختلف مکتبہ فکر کے علمائے دین سے رابطے کرے گی اور حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرے گی۔کیونکہ ایک پرامن ماحول کے قیام کیلئے علماء کا کلیدی کردار ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ یونیورسٹی میں 12دسمبر کو ایک طلباء گروپ نے اگرچہ مروجہ قواعد وضوابط کو توڑا لیکن طلباء کے مابین کوئی معمولی تصادم تک نہیں ہوا۔چند درجن طلباء کیمپس میں جمع ہوکر پروگرام شروع کیا تو دوسری طرف طلباء کی بڑی اکثریت کلاس روم اور لایئبریری میں پڑھائی میں مصروف عمل تھی۔ٹھیک سوا بارہ بجے پروگرام ختم ہوا ا اور تمام طلباء پرامن طور پرایک بجے یونیورسٹی بسوں میں بیٹھ کراپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔چار بجے اطلاع ملی کہ شہر میں حالات کشیدہ ہیں اور بعض جانی نقصانات کے واقعات ہوئے ہیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ شہر میں ہونے والی خرابی اور نقصانات کا KIUکے پروگرام یا طلباء سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی دن دو بجے کے بعد جیل سے دو خطرناک قیدیوں کا فرار اس بدامنی کے واقعات کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔کیونکہ طلباء دو بجے تک تقریبا اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جاتے ہیں۔لہذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ KIUکے پرامن تعلیمی ماحول اور اتحاد و اتفاق کی فضا کو خراب کرنیکی سازش تیار کی گئی تھی۔ جو ناکام ہوئی۔
ایک سوال پر ڈاکٹر نجمہ نجم صاحبہ نے کہا کہ یونیورسٹی میں اس وقت 45پی ایچ ڈی اور دوسرے ملکی و غیر ملکی تربیت یافتہ اساتذہ کے زیر نگرانی تدریس و تحقیق کا کام جاری ہے۔ جبکہ خود KIUمیں پی ایچ ڈی پروگرام میں 20سکالرز زیر ترتعلیم ہیں۔اس کے علاوہ مستقبل قریب میں USAIDکے تعاون سے یونیورسٹی میں ایک سکول آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں لایا جائیگا، جس سے تعلیمی میدان میں ترقی کے نئے راستے کھل جائینگے۔اس طرح کے اقدامات سے ہم یونیورسٹی کو بین الاقوامی شناخت دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ تعلیم دشمن عناصر اپنے مذموم اداروں سے اس عظیم ادارے کو بدنام کرنے درپے ہیں۔ محترمہ وائس چانسلر نے مزید کہاکہ یونیورسٹی میں اساتذہ کے پاس قلم اور علم ہے ، بندوق یا ڈنڈا نہیں، اسلیئے ناجہاندیدہ لو گ ہمیں کمزور سمجھتے ہیں۔جب ہمیں طاقت استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو ہم نے مقامی انتظامیہ سے مدد مانگی تھی جو ہمیں بروقت نہیں ملی۔