لوگ کیا کہیں گے؟
تحریر: محمدجان رحمت جان
بعض نفسیاتی بیماریاں انسانی زندگی کو بہت متاثر کرتی ہیںاِن کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی سے مطمعین نہیں ہوپاتے ہیں۔ اُن کے سامنے ہمیشہ ناکامی کی تصویریں ہی نظر آتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک روایت ”لوگ کیا کہیں گے“ ہے۔ اس جملے کا انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ رسمی جملہ ہماری عادت کا حصہ بن گیا ہے۔ عادت سے ہی انسانی خیالات جنم لیتے ہیں اور خیالات سے مطمع نظر بن جاتاہے جس پر عمل سے تقدیر بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے تقدیر وہی ہوگی جو ہم سوچتے ہیں۔ اکثر آپ سوچتے ہونگے کہ یہ کپڑے پہن لونگا/لونگی تو لوگ کیا کہیں گے؟ گھر یہاں بنایا تو لوگ کیا کہیں گے؟ کھانے میں بوتل نہ ہوتو لوگ کیا کہیں گے؟ میں یہ سکول چھوڑ کے اُس میں جاﺅنگا تو لوگ کیا کہیں گے؟ اس کاروبار میں ناکام ہونگا تو لوگ کیا کہیں گے؟ اُس لڑکی سے شادی نہیںکرسکا تو لوگ کیا کہیں گے؟ میں لوگوں کے سامنے بولونگا تو لوگ کیا کہیں گے؟ اس سیاسی پارٹی کو چھوڑ کے اُس میں جاﺅنگا تو لوگ کیا کہیں گے؟وغیرہ وغیرہ یہ وہ صوتحال ہے جو ہم سب پر گزرتی ہے؟ اس صوتحال میں ہم نہ صرف نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ذہنی مریض بن کے رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی اہم فیصلے میں ذہنی ہم آہنگی اور حوصلے کا ہونا ضروری ہے۔ اس عمل میں’لوگ کیا کہیں گے‘ کی صورتحال ہمیں ہمیشہ دو راہیں پر گامزن کردیتی ہے جو فیصلہ لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
عام آدمی ہویا پیشہ ور ہر دو اس مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی اوروں کے کہنے پر گزار لیتے ہیں۔ بازار یا مارکیٹ میں ہم اُس چیز کو ترجیح دیتے ہیں جو کوئی اورہمیں تجویز کریں ہماری اپنی کوئی پسند نہیں۔ تعلیم کے میدان میں ہم اُس شعبے کو اختیار کرلیتے ہیں جو دوست یا احباب تجویز کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ شادی بیاہ کے معاملے میں بھی ہم اوروں کی پسندکو ترجیح دیتے ہیں۔ اب آپ سوچئے کہ اُس کام کا کیا فائدہ جس کو آپ نے خود اپنی سوچ اور اپنی پسند سے اختیار نہ کی ہو۔ آج کل غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہم اسکالرشب پر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی اسکالرشب دینے والے کی مرضی کے مطابق۔ نتیجتاََ ہم تعلیم یافتہ تو ہوتے ہیں لیکن اپنی ذہنی استعدادکے حساب سے نہیں۔ اس ملک میں زراعت پڑھ کر کک اور ہوم اکنامکس پڑھ کر زمیندار بنتے ہیں۔ اسلامیات کے گریجوئٹ بنک میں کام کرتے ہیں اور بی کام کرکے عالم دین بن جاتے ہیں۔ یہ سب کیوں؟ ہمارے ایک دوست کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ماسٹر کرنے کے بعد اب اصول الدین میں ایم ایس کررہے ہیں۔کیوں؟ اس لئے ہم ہم لوگوں کا سنتے ہیں اپنے ضمیر کا نہیں۔ اپنے ضمیر کا سننا اور اُس کو اس اہل بناناکہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکیں‘ کوئی اسان کام نہیں۔ اس لئے کہاگیاہے کہ’جس نے اپنے آپ کو پہچانا اُس نے اپنے اللہ(ربّ) کو پہچانا‘۔سورةُ البقرہ آیت نمبر ۳۱۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی راستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی راستے پر نہیں حلانکہ وہ کتابِ الٰہی پڑھتے ہیںاسی طرح بالکل انہی کی سی بات وہ لوگ کہتے ہیں جو کچھ نہیں جانتے تو جس بات پہ یہ لوگ اختلاف کررہے ہیں خدا قیامت کے دن اِس کا اُن میں فیصلہ کردے گا“۔
لوگوں کی بات سننا اچھی بات ہے لیکن اُن کے باتوں پر غوروفکر کرنا اور پھر اپنی زندگی کا حصہ بنانااحسن قدم ہے۔ کسی سے مشورہ لینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہی کیا جائے جو مشورہ دینے والے نے کہا ہے۔ بلکہ تمام مشوروں کے نتائج سامنے رکھ کر فیصلہ خود کرنا اعلٰی انسانی اقدار میں سے ایک ہے۔ عقل و شعور کا یہی تقاضا ہے کہ انسان دانشمندی اور ہوشیاری ہے کام لیں۔ کسی کے کہنے یا کرنے سے متاثر ہونا کم ذہنی کی نشانی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک کہانی پیش خدمت ہے جو اکثر اس طرح کے معاملے میں پیش کی جاتی ہے۔ ’کہتے ہیں کہ ایک باپ اور بیٹا اپنے گدھے کو لیکر کہیں جارہے تھے۔ راستے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ”بیوقوف لوگ ہیں گدھا ساتھ ہے لیکن اس پر سواری نہیں کرتے ہیں“۔ باپ بیٹے نے اُن کے کہنے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا کہ باپ گدھے پر سوار ہوجائے۔ تھوڑا آگے جاکے ایک گروپ نے اُن کا مزاق اڑایا کہ ”باپ خود سواری کرتاہے بیچارہ بیٹا پیدل چل رہا ہے“ ۔ انہوں نے فیصلہ بدل دیا اور بیٹے کو گدھے پر سوار کرایا اور خود پیدل چل دیئے۔ راستے میں ایک گروپ نے قہقہہ لگایا کہ’بیچارہ باپ بوڑھا پیدل اور بیٹا سوار ہے“۔ اب انہوں نے فیصلہ کیا دونوں گدھے پر سوار ہونگے۔ راستے میں لوگوں نے کہاکہ” کتنے ظالم لوگ ہے دونوں بیچارے گدھے پر سوار ہیں“۔ اب باپ بیٹے نے فیصلہ کیا کہ”دونوں اُتر کر گدھے کو ایک لمبے لکڑی سے باندھ کر دونوں نے اُٹھایا اور چل پڑے۔ لوگوں نے پھر ان کا مزاق اٹھایا کہ” بیوقف ہیں گدھے کو بوجھ بناکر لے گئے“۔ آخر کار باپ بیٹے نے سوچا کہ لوگوں کے کہنے پر انہوں نے ہر طریقہ اپنایا لیکن پھر بھی کوئی خوش نہیں ہوئے۔ باپ نے بیٹے سے کہا”اس دنیا میں ہر آدمی کو خوش رکھنا ممکن نہیں اور نہ ہی کسی کے کہنے سے کوئی خوش ہوتا ہے“۔
اس کہانی سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگ کچھ بھی کہے ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ اس لئے کہا گیا ہے’Its impossible to make every one happy‘۔ اپنی عقل و فہم سے کام کرنا اور ہر چیز کے بارے میں عقل و خرد کااستعمال کرناہماری عقلی روایت ہے اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہرکام کو کسی کی خوشنودی کے بجائے اپنی فہم اور شعور سے کرنا چاہئے۔ آپ کیا کرتے ہیں کیا کبھی اس جملے پر غور کیا ہے؟ ایسی صورتحال پیش آئے تو آپ کیا کرتے ہیں؟