گوشہ اردو
نئی نسل کو ذلت ورسوائی سے بچایاجائے
صفدرعلی صفدر
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔تعلیم اور خواندگی ہی وہ واحدعناصرہیں جو اقوام کی تعمیر وترقی اوراستحکام میں سب سے اہم درجہ رکھتے ہیں اوریہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترقی اور طاقت انہی قوموں کونصیب ہوئی ہے جوتعلیمی میدان میں دوسری قوموں سے آگے نکل چکی ہیں جبکہ پیچھے رہ جانے والی قوموں کی زوال پذیری کے اسباب بھی صرف اورصرف شرح خواندگی میں کمی اور تعلیمی انحطاط ہے۔
آج ہمارے اردگرد جوبھی معاشی،معاشرتی اورماحولیاتی مسائل ہیںوہ ہماری تعلیم اور شرح خواندگی کی زبوںحالی کا سبب ہیں۔گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں دیگر شعبے وسائل کی عدم دستیابی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث عدم استحکام کا شکار نظر آرہے ہیں وہاں تعلیم کا شعبہ بھی انتہائی تنزلی کا شکار دکھائی دے رہاہے ۔ ماضی کے حکمرانوں نے متعدد مقامات پردانستہ یا نادانستہ طورپر تعلیمی اداروں کے نام پر بڑی شاندار عمارتیں تعمیر تو کروائی ہیں لیکن یہ بات ان کی عقل میں نہیں آئی کہ یہ ادارے کیسے چلائے جائینگے اور کس طرح عوام ان اداروں سے مستفید ہوسکے گی ۔آپ نے اکثر مقامات پر ایک پرائمری سکول کو ایک ہی معلم یا معلمہ کے رحم وکرم پر چھوڑے ہوئے دیکھا ہوگا اور ایسے ادارے بھی دیکھے ہونگے جہاں طلباءوطالبات مٹی میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبورہوئے ہوں۔۔۔۔۔جہاں ماسوائے اساتذہ کے لئے چند ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کے علاوہ اسٹوڈنٹس کے لئے فرنیچر تک میسر نہ ہو۔۔۔۔۔آپ کے علم میں یہ بات بھی آئی ہوگی کہ بعض مقامات پر کئی سالوں سے سکولوں اور کالجوں کے نام پر تعمیر کی جانے والی عمارتیں سٹاف کی عدم دستیابی کے باعث بھوت بنگلوں میں تبدیل ہوچکی ہیں جبکہ بعض جگہوں پر ایسے ادارے حکومتی بے حسی اور عدم توجہی کے باعث کمیونٹی خود اپنی مدد آپ کے تحت چلانے پر مجبور ہے۔۔۔۔۔آپ نے محکمہ تعلیم گلگت بلتستان پر کرپشن اور اقرباءپروری کے الزامات بھی سنے ہونگے اور آپ کے ذہنوں میں اساتذہ کی اسامیوں پر بھرتیوں کے دوران بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کے حوالے سے بھی سوالات جنم لئے ہونگے۔۔۔۔۔آپ نے کاروباری مقاصدکے حصول کے لئے تعلیم کے نام پرچلائے جانے والے بے شمار ادارے بھی دیکھے ہونگے اور ان اداروں میں انتہائی قلیل تنخواہوں پر کام کرنے والے گریجویٹس کا استحصال بھی دیکھا ہوگا۔۔۔۔۔آپ نے اس مقدس پیشے سے وابسطہ افراد کو کئی سالوں سے ایک ہی سکیل میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا اور انہیں لوگوں کو کالی پٹیاںباندھ کر شاہراہوں پر احتجاج کرتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔۔۔۔۔آپ نے تعلیمی اداروں کے اندرتھانوں،جیلوں اورچھاﺅنیوں کے قیام کے حوالے سے خبریں بھی سنی ہونگی اور طلباءوطالبات کوایسے اقدامات کے خلاف ہفتوں تک احتجاج کرتے ہوئے اور عدالت سے انصاف مانگتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔۔۔ ۔۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں لیکن کسی طرف سے بھی ان پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔
عجیب تماشا ہے! ایک طرف دنیا ہم سے جدید اور معیاری تعلیم کا تقاضہ کر رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف حکمران جان بوجھ کر تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہوتے ہیں۔سیاست میں پی ایچ ڈی کے دعویداروں کوکچھ خیال ہی نہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کس دوراہے پر کھڑے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم لوگ جس طرح مذہب،قومیت اور علاقائیت کے نام پر آپس میں منقسم ہوچکے ہیں اسی طرح ہمیں تعلیمی لحاظ سے بھی مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں علاقے میں طبقاتی نظام تعلیم تیزی سے فروغ پارہا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف بااثر طبقہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہاہے تودوسری طرف غریبوں کے بچے روایتی تعلیم سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں ۔محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کی کار کردگی ابتر ہوتی جارہی ہے، اداروں کے اندر آوے کا آوہ بکھرا ہوا ہے، اساتذہ نے سیاست شروع کردی ہے، طلباءخیموں میں تعلیم حاصل کر نے پر مجبور ہوئے ہیں، نتیجہ سالہا سال کم ہوتاجا رہاہے اوروالدین کے چہروں پر مایوسی نظر آرہی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
لہذا! ارباب اختیار اور معیاری تعلیم کا ڈھونگ رچانے والوں کو چاہیئے کہ خدا را اس اہم شعبہ پر تھوڈی سی توجہ دی جائے اور تعلیمی شعبے میں اصلاحات لاکرنظام کو بہتر بنایا جائے۔کیونکہ موجودہ ترقی کی رفتار اور مستقبل قریب کے چیلنج وںسے نمٹنے کے لئے تعلیم اور شرح خواندگی کو فروغ دیکر ہی جہالت کے اندھیروں میں شمع روشن کی جاسکتی ہے ورنہ آنے والا دور نئی نسل کے لئے ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔