تحریر: عبدالخالق تاج، گلگت
سہ ماہی ”فکرونظر“ کے نوجوان چیف ایڈیٹر کریمی صاحب نہایت جرا¿ت سے جسارت کرکے میگزین کے شمارہ اکتوبر تادسمبر2011ءمیں چند باتیں، چند یادیں اور کچھ گزارشات کے عنوان سے رقمطراز ہیں کہ حقوقِ نسوان اپنی جگہ، آزادیِ نسواں اپنی جگہ، مگر اِس مادر پدر آزادی کے اسلامی معاشرے، دیسی باحیا تہذیب اور غیرت اور حمیت پر جو منفی اثرات مرتب ہونے جارہے ہیں۔ اس بارے میں وہ اپنے مشاہدات بھی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ چند دن پہلے انہیں ایک تعلیمی ادارے میں جانے کا موقع ملا۔ انہوں نے دیکھا کہ اُن کی ایک دیکھی بھالی طالبہ جس کی ماں دوسروں کے گھروں میں برتن مانجتی ہے، محنت مزدوری کرتی ہے اور اِسی طالبہ کو پڑھا رہی ہے۔ مگر اِس طالبہ کا حال یہ ہے کہ وہ سبزہ زار میں لڑکوں کے جُھرمٹ میں خوش گپوں میں نہایت بے حیائی سے قہقہ زار ہے۔ بہت قیمتی موبائل اِس کے ہاتھ میں ہے۔
کریمی صاحب لکھتے ہیں کہ اسے طالبہ کو لیب ٹاپ کمپیوٹر لئے لڑکوں کے حصار میں دیکھ کر اُس کے وہ غریب والدین یاد آگئے۔ صاحبِ موصوف لکھتے ہیں کہ طالبہ نے مجھے دیکھا تو اُٹھ کر میری طرف آئی اور نہایت بے شرمی سے کہاکہ اِس وقت میں ایک لڑکے کا انتظار کررہی ہوں۔ لڑکے نے میرا اسائنمنٹ تیار کرکے لانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں لڑکوں کے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں جو میرا اسائنمنٹ مکمل کرکے لاتے ہیں۔ کریمی صاحب اِس سے آگے لکھتے ہیں کہ لڑکی کے غریب والدین کو کیا معلوم کہ اُن کی بچی پڑھتی ہے یا رنگ رلیاں منانے جارہی ہے؟
حضرات! کریمی صاحب کا اداریہ اِس زمانے میں اہم ترین، منفرد ترین اور حساس ترین ہے۔ کسی بھی صاحب ادارت کو اس بارے میں مصلحتوں کے تحت سچ لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
کریمی صاحب میری طرح محض ایک لکھاری ہی نہیں، ایک مذہبی سکالر بھی ہیں۔ اس بارے میں اُن کا مطالعہ مجھ سے لامحالہ وسیع و عریض ہوگا۔ صاحبِ موصوف لکھتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو چار دیواری کی ملکہ قرار دیا ہے اور طبقہ¿ اناث پر یہ پابندی عائد کی ہے کہ اُن کی آواز چار دیواری سے باہر نہیں سنی جانی چاہئیے۔
کریمی صاحب نے اپنی طرف سے کوئی اجتہاد کیا ہے اور نہ ہی کوئی جدید فتویٰ دیا ہے بلکہ اُن کا اسلامی اقدار سے وابستگی کا نتیجہ اور اِس کا جرا¿ت مندانہ اظہار ہے۔
قارئین کرام! حضرت نظیر اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
جدید نسل کی بے راہ روی سے تنگ آمد بہ جنگ آمد وہ کہتے ہیں کہ
تمام ایسی کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ
گھر میں پرویز کے شریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہ¿ فرہاد بھی ساتھ
گلگت بلتستان کے شاعر مزاحمت و ظرافت راجہ سلطان فیروز صوفی (مرحوم) جوکہ شاعری میں حضرت مولانا ظفر علی خان کے شاگرد تھے۔ صوفی صاحب کو مزاحمت گوئی اس کے استاد سے ورثے میں ملی تھی اور فطرتاً بھی وہ نقاد تھے۔ انہوں نے نصف صدی پہلے ہمیں بشارت دی ہے کہ
اب تو آئی ہی نہیں بات جو حیرانی کی
اور ہونے دو ترقی ابھی عریانی کی
یہ تو آغاز ترقی کا ہے ململ کا لباس
عورتیں پہنیں گی شلوار مچھر دانی کی
اس بے شرم زمانہ اور زمانے والوں سے صوفی صاحب کہتے ہیں کہ
ایک غسل خانے میں تبدیل ہوئی ہے دُنیا
اب کسے دیکھ کر شرماو¿ں میں
سنا ہے حضرت شیخ سعدیؒ کو عورتوں کے بارے میں بڑے تلخ تجربات ہوئے تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا یا حضرت! دُنیا میں مردوں کی تعداد زیاہ ہے یا عورتوں کی؟ تو حضرت نے بلا توقف جواب دیا کہ عورتوں کی باتوں پر عمل اور اعتبار کرنے والے مردوں کو بھی عورتوں میں ضم کرکے عورتوں کی تعدادزیادہ ہے۔
مندرجہ بالا اشعار اور فرمودات تو دُنیا والوں کی طرف سے منقول ہیں۔ دین والوں کی طرف سے دیکھےں کیا ارشادات اور احکامات ہیں۔ عورتوں کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی ؑ شیر خدا فرماتے ہیں۔ دیکھئیے کتاب نہج البلاغہ میں مولا علی ؑ کا خطبہ78.
”اے لوگو! عورتیں ایمان میں ناقص ہیں، حصص میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں۔ نقص ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایام ماہواری میں ان کو نماز اور روزہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوتی ہے۔ حصہ اور نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے آدھا ہوتا ہے۔“
اسی خطبے میں مولا علی فرماتے ہیں کہ بُری عورتوں سے ڈرو اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہو۔ تم ان کی اچھی باتوں کو بھی نہ مانو تاکہ وہ آگے بڑھ کر بری بات منوانے پر نہ اُتر آئیں۔
کتاب نہج البالاغہ جلد دوئم کے مکتوب نمبر238 میں لکھتے ہیں کہ عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بڑی برائی اس میں یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔
حدیث سنی ہے کہ ایک دفعہ خاتونِ جنت حضرت فاطمة الزہرا ؑ نے حضور نبی کریم سے پوچھا اے ابا جان! مرد جہاد کا فریضہ میدان جنگ میں ادا کرتے ہیں مگر عورتیں اس سے محروم رہ جاتی ہیں۔ تو آپ نے فرمایا بیٹا! آپ کا جہاد آپ کی چار دیواری ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ ایک کمسن لڑکے سے حضرت فاطمة الزہرا ؑ نے اُس وقت تک ملاقات نہیں کی جب تک کہ حضرت علی ؑ سے اجازت نہیں ملی۔
کریمی صاحب نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے وہ قابلِ صد آفرین ہے۔ ایسے شرمناک واقعات اب جدید معاشرے میں فخر سے انجام دئیے جاتے ہیں۔ ایسی بے حیائی ملاحظہ کرکے ایک غیور اور خود دار آدمی غیرتِ قومی سے زمین میں گڑ جانے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے؟
جب کبھی انتظامیہ کہیں چھاپا لگاتی ہے تو پامالی چادر و چاردیواری کے بارے میں اخبارات میں واویلا کیا جاتا ہے۔ شہ سرخیاں لگتی ہیں۔ مگر سوچنے والے سوچتے ہیں کہ این ایل آئی مارکیٹ میں شاپنگ کرتے ہوئے یہ چادر اور چاردیواری کا کسی کو خیال کیوں نہیں آتا؟
اسلام کے علاوہ ادیانِ عالم میں بھی عورت کا مقام ماں، بہن اور بیٹی کے علاوہ بیوی کا بھی ہے۔ ان سب رشتوں کا حسن، تقدس اور مرتبہ پردے میں پوشیدہ ہے۔ اگر پردہ ہی نہیں ہے تو پھر تقدس کس چیز کا؟ خواتین کو حصولِ علم سے روکنا ہزار بار غلط ہے مگر تعلیم کی آڑ میں ہر بے حیائی کو خوش آمدید کہنا ہزار کو سو سے ضرب دے کر غلط ہے۔ فحاشی اور بے حیائی سے معاشرے میں شر اور انتشار کا خدشہ اور اندیشہ حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں اور پھر اُس سے آگے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
آج مغرب خود اپنی مادر پدر آزادی اور جنسی بے راہ روی پر پریشان، حیران اور پشیمان ہے مگر کیا کرے پانی سر سے گزر چکا ہے۔ واپسی کے راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ اب وہ ہمیں بھی اپنے رنگ میں رنگ کر اپنے مجروح ضمیر کو طفل تسلیاں دے کر اپنی پشیمانیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
تیس چالیس سال پہلے اس قوم کی بہو بیٹیوں نے صرف بازار کا نام ہی سنا تھا۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا لباس خود پسند کرنے کا رواج نہ تھا۔ میاں اپنی بیوی کے لئے اپنا پسندیدہ سراپا لیا کرتا تھا جس میں بیوی اس کو اچھی لگے۔ لباس وہی اچھا ہے جس میں بیوی اپنے میاں کو اچھی لگے نہ کہ دوسروں کو۔ سوسائٹی میں دوسروں کو اپنی مالی برتری جتانے اور اپنے احساسِ کمتری پر قابو پانے کے لئے مستورات ایسا کرتی رہتی ہیں۔
بعض احساسِ کمتری کے شکار ترقی پسند ایسا کرکے دراصل تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں اور چراغِ خانہ کو شمعِ محفل و مارکیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
پردہ صرف مسلمان عورتوں پر ہی واجب نہیں بلکہ نیک خصلت غیر مسلم مستورات بھی پردہ کرتی ہیں۔
حضرت علی ؑ نے جو کچھ اپنے خطبات میں ارشاد فرمایا ہے وہ قرآن سے ماخوذ اور اس کی تشریح ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ قرآن اور علی ؑ کو تو مانتے ہیںمگر قرآن اور علی ؑ کی نہیں مانتے۔ منافقت کا اس سے بڑا عروج آپ کو یہاں کے علاوہ کہاں ملے گا۔
مقامِ حیرت ہے۔ آج کراچی سے اشکومن تک بنی ہاشم کی حکومت ہے۔ سب کا تعلق سادات سے ہے مگر سب قرآن و سنت اور اسلامی شعائر کو ریاست اور سیاست سے بہت دور پار رکھنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے؟؟
administrator
Pamir Times is the pioneering community news and views portal of Gilgit – Baltistan, Kohistan, Chitral and the surrounding mountain areas. It is a voluntary, not-for-profit, non-partisan and independent venture initiated by the youth.
Like this:
Like Loading...
High lighting and discussing a social norm, both Karimi Sahib and Taj Sahib seem to have become too emotional. We need to raise issues and make comments, but we need also to be balanced as Islam and the Holy Prophet (pbuh) of Islam have taught us to be balanced. If we consider a certain kind of cloth (Libas) immoral, then what about the kind of language we use? Language also has moral parameters and vulgar should not be acceptable in literary works. We need to be careful while making comments or statements.
Very one sided views are expressed in the writing, such writing may have negative implications for the already deteriorated conditions for women in our society.
It is really disappointing to see Taj sahib favoring the parochial view expressed by Karim Karimi. does Karim want to say that if a girl was rich then she had right to sit with boys with laptop. come on we need to come out of the tribal cocoon. if the writers want to see how Islamic societies work, they should go to Syria, Jordan, Palestine or Morocco. Karimi sahid should have objected to boys sitting with the poor girl. why he has selected the poor girl as a target of criticism. it is because of misogynist view and obsolete tribal mentality.
ایک طرف یہ شعرا اور ادیب حسن کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور ان کے ھر مصرعے سے یار کی ایک جھلک دیکھںے کی حسرت چھلک رہی ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف یہ حسن کو اظہار کا موقع دینے پر بھی آمادہ نظر نہیں ہیں.
کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
must raah apni masti man na chaid kisi ki quack ko
joo chaide teri mati ko laga dey aaj os ki basti ko.
فقہیہ شہر نے تہمت لگا دی سا غر پر
یہشخص درد کی دولت کو عامکر تا ہے
بلا شبہ کریمی اچھا لکھتا ہے ۔۔۔مگر ان کی تحریروں میں سنجیدگی جلد نہیں آئے گی۔۔۔ انسان کسی کا مشورہ سنتا ہے۔۔مگر اس شخص نے تو اپنے اندر ایسی دنیا بسالی ہے جہاں وہ خودرہتا ہے۔۔۔اور اس کے شگفتہ خیالات۔۔۔کریمی اور انکے شگفتہ خیالات میں بسا اوقات جنگ رہتی ہے۔۔۔جس میں کبھی کریمی ہارتا ہے اور کبھی انکے خیالات۔۔۔۔۔ دنیا ئے صحافت کے لئے ان کا مزکورہ اداریہ ایٹم بم سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر اداریہ ہی ایسی چیزوں پر ہو تو پھر ۔۔۔۔۔صحا فت کا اللہ ہی حا فظ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ا
It is good to critique our writers as most of them are the abrupt writers and unaware of the academic writing techniques. This is why their writings are polemical, generalized and one-sided. Such critiques will enable them to take a balanced approach.
Suna tha jin logon nay tarikh raqam ki thi unki terbiat or grooming kisi university main nahi balki aik bawaqr our ezat dar khandan main aik achi maan ki gud main hoi thi thats y kisi muffakker ko kehna pada tha ki “aap mujhay achi mayain (mothers) dain main aapko behtareen qaum dunga.”
Behesi ki bhi intiha hoti hay jinab! maan liya khawateen kay haqoq ser ankhon pe… per ye kaha ka insaf hay ki hamari beti ya behen kay character ka hamain pata nahi hota jb ki NLI market kay chock main khada FC kay jawan ko pata hota hay ya siachen mahaz pe aik punjabi subedar ko pata hota hay ya kisi rest hous kay chokidar ko pata hota hay ya kisi hotel kay manager ko pata hota hay…….
Ohhh my God! ye education hay??? ye development hay??? ye roshan khyali hay??? yehi khawateen kay haqooq hain??? I am really sory jinab kam az kam main aisi behayayi ko development nahi keh sakta??? Is ki waja ye bhi ho ki meri perwarish aik aisi maan (mother, my Zizi) ki gud main hoi hay jis ko aj tak main nay Karim Manzil say baher akeli jatay howay nahi dekha hay thats y mujh main or ap main bada ferq ho sakta hay……
Baqi jahan tk logon ko meri tehriron say shinasayi nahi ya unka kehna hay ki meri tehrer main sanjeedagi nahi tou main sirf itna kehna munasib samajhta hn:
“Mukhalifat say meri shkhsiat sanwrti hay
Main dushmanoon ka bhot ehtiram kerta hon”
Or jatay jatay Pro. Kamal Ilhami sahab kay ye ash’ar bhi suntay jaye ga:
“Aati hay jin jin ko gehri methi neend
Un kay apnay hath sirhanay hotay hain
Hotay nahi paband-e-zamana ehl-e-kamal
Un kay apnay pas zamanay hotay hain”
@Karim Karimi Sahab,
App ki ghairat sir ankhoon per, app ki andaze bayan sir ankhoon per, yaqeenun app kisi azeem maa ke piyarey sapoot hain. Bus aik masla hai ke app tarekh main ji rahey hain. lagta hain ke app sun 2012 ke bajai 1812 main Mirza Ghalib aur Nazir Akbar abadi ke saath Delhi ke kisi Gali-e-Mualla main Ghoom rehay hain.
Zamana too bahut badal chuka hai, halaat bhi badal gaye hain. Waisi pardha dari jo app chahtey hain shayed ab mumkin nahin hai. Jahan mard halaat ke hathoon nafsa nafi ka shikar hai wahan hamari mayain aur behnain be in halat se doo char hain. Aurat bhi insaan hai mard ki tarha. isi liye sarey mard farishtey bhi nahin hain… in halat main aurat ka apni achey burey ki khood tameez karna intehai zaroori hain…. warna khud mard hi aurat ko apni hawas ka shikar banai!
Ghar ke chaardiwari ho ya ghar ke bahar, apni izzat-e-naf ka tahafuz her insaan (aurat aur mard) ka faraz hai. is faraz ke nibaney main kotahi der-asal muashirey ki zawal ka sabub bunti hai. Aik aurat ghar ke indher reh kar bhi buri ho sakti hai aur aik aurat ghar ke bahar zindazi main hissa lanay ke bawajud bhi pak daman ho sakti hai. isi liye her aurat ko aik hi nazar sey dekhna hud darjey ki na-insafi hai.
intahaaee jahilaana tarz e tehreer hy, or afsoos hy un logoon par jo hijaab k ander wahshii darindoo ki sura , nikaab ordy apny app ko bady azeem or gairat mand samajny walloo ki haqikat ko parkhy baigair ….un ki tahriroo ko party hy or un par gooya b ho jaty hy………
islaam deen fitrat hy…mujy bataayee wahaa oraato ki zeenat par ghazal gooee karna, or un ki hasasiat par kalaam chalaany ki ijazat kaha dee hue hy,,,,, ager nahi too iss …………karimi sahib ko bataye ki inhoon ny jo ghazly likhi hy, novals mai jo shababiat ki sifty bayaan ki hy…to wahaa iss ki gairaat kahaa gayi the….. …. kisi baat par kalaam uthaany sy phely isy 100 dafa schna chahiye…warnaa jahilloo ki kami nahi….
Thanks good God! People have renounced the annoying habit of believing in and dignifying imposters, taken for intellectuals and thinkers. Its time pseudo-intellectuals like Karim Karimi should be discouraged from propagating their own parochial view about things held sensitive in the society. Excuse me but Mr. Karimi is neither an intellectual nor a writer. He used to copy his ‘Intermediate Urdu’ book for his columns published in local papers. I highlighted one case, condemning his plagiarism and he never came up with an excuse nor did he deny my charges. God knows, whose Brain-Childs he is publishing under his name.
Hilarious to share, the title page of his ‘popular’ magazine “Fikr o Nazar” bears a photo of a child, captioned as ”یہ پیارا بچہ ایڈیٹر کا بھانجا ہے جو اُن کو ماموں فکل و نجل کہہ کر بلاتا ہے”. For this scale of juvenile innocence, Mr. Editor, better run a kid’s magazine and if you allow me, I could suggest few popular names to “COPY”. God bless you.