گوشہ اردو
اشکومن : اولاد سے ملنے نہیں دینے کا رنج، دو بچوں کی ماں نے مبینہ طور پردریا میں کود کر خودکشی کر لی
چٹورکھنڈ ( کریم رانجھا ) گاﺅں دائین کی رہائشی مسمات (ن) ولد با با کی شادی گاﺅں ہاتون کے ایک شخص مسمی علی مراد کے ساتھ کافی عرصہ قبل ہوئی تھی دو بچوں کی پیدائش کے بعد مذکورہ شخص نے دوسری شادی کر لی جس پر مبینہ طور پر سوکنوں کے مابین آئے روز جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ متوفیه تنگ آکر کافی عرصے سے میکے میں رہائش پذیر تھی اور اسے اپنے بچوں سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا تھا. گذ شتہ روز متوفیہ کو معلوم ہوا کہ اس کے بچے سسرال آئے ہوئے ہیں تو ممتا کی ماری بچوں سے ملنے کی آس لئے گھر سے نکل پڑی لیکن رات ہونے پر شولجہ کے مقام پر اپنے رشتہ داروں کے ہا ں رات گزارنے گئی . متوفیہ کا والد بیٹی کو ڈھونڈتے اسی گھر پہنچ گےا اورصبح اپنی بیٹی کو سمجھا بجھا کر واپس لارہا تھا اس دوران دریا کے کنارے پہنچ کر متوفیہ نے مبینہ طور پر دریا میں چھلانگ لگا دی اور والد کے نظروں کے سامنے بے رحم موجوں کی نذر ہوگئی۔ بعد ازاں نعش قریبی علاقے سے ہی برآمد ہو گئی جسے قبضے میں لے کر پولیس تھانہ چٹورکھنڈ نے کارروائی کا آغاز دیا ہے۔
یہاں یه ذکر کرنا ضروری ہے کہ غذر میں آئے روز خودکشیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور ان میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ لیکن انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے بارے میں کام کرنے والی نام نہاد تنظیموں نے آج تک اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی ہے۔ حوا کی بیٹیوں پر ہونے والے مظالم کو منظر عام پر لایا ہی نہیں جاتا اورخودکشی کا نام دے کر دفن کر دیا جاتا ہے۔نتیجتاً آئے روز حوا کی بیٹیاں بے موت مرنے کو ترجیح دیتی ہیں ۔اس سلسلے میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کوجھنجوڑنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اداروں کے ذریعے ان وجوہات کا کھوج لگائے جن کی وجہ سے عورت خودکشی جیسا انتہائی اقدام کرنے پر مجبور ہوتی ہے. نیز ان وجوہات کی بیخ کنی کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے.