گوشہ اردو
دشت ودہشت میں امن کی امیُد
محمد جان رحمت جان
خوف اور امید انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ خوف میں امید کی تلاش اور امید میں زندگی کی رنگینی کا نام ہی زندگی ہے۔ زندہ دل لوگ ہی زندگی کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ اس معاملے میں ضمیر سب سے بڑا قاضی اور سوچ سب سے بڑا ہتھیارہے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی خوف اور دہشت سے بھری پڑی ہے۔ انسان کی زمین پر آمد ہی اس کی اعمال کا نتیجہ ہے۔ انسان ہمیشہ پر امن زندگی میں امن سے نہیں رہا ہے۔ اسلامی نظریے کے مطابق جنت سے نکلنا ہی امن سے بدامنی کا سفر ہے۔ جنت امن و سکون کا نام ہے لیکن انسان سے یہ ماحول ہضم نہیں ہوااور آخر کار زمین کے دشت وصحرا میں لیل ونہار محنت و مشقت سے دوبارہ امن کی تلاش میں لگا ہے۔ انسان نے امن کو اُس دن کھو دیا ہے جس دن اُس کو جنت سے نکالا گیا۔ زمین پر پہنچتے ہی ہابیل و قابیل نے حقیقی بھائی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا قتل کرکے فساد کی بنیاد رکھ دی۔ حسد©‘ سبقت بازی اور مقابلے کا رجحان روز اوّل سے انسان کا مقدر بن چکا ہے۔ یہی نہیں اُس دن سے ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کی بھی بنیادیں پڑ گئی۔ خوف و دہشت سے نجات کا ایک ہی فارمولا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انسانوں کو دیا ہے فرماتے ہیں کہ”جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست(یعنی کوئی شخص کسی قوم کا بھی ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور اعمال نیک کریگا تو ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اور قیامت کے دن ان کو کسی طرح کا کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمناک ہوں گے“( آیت:۲۶ سورة البقرہ ترجمہ ازجالندھری)۔ علماءکے تشریحی اختلافات کے باوجود اس آیت میں انسانیت کی بات کی گئی ہے اور امن کی گارنٹی بھی ہے یعنی جو جس دین پر عمل کریں لیکن اللہ اورروز آخرت پر ایمان رکھیں ان سب کا اجر اللہ کے ہاں موجود ہے۔ یہی نہیں اللہ نے واضح ہدایت کی ہے کہ©©”۔۔۔ہم نے تم میں سے ہر ایک(فرقے)کوایک دستور اور طریقہ مقرر کر دیاہے اور اگر خداچاہتا توسب کو ایک ہی شریعت پر کر دیتامگر جو حکم اس نے تم کو دئیے ہیںان میں وہ تمھاری آزمائش کرنا چاہتا ہے سو نیک کاموں میں جلدی کرو۔تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ پھر جن باتوں میں تم کو اختلاف ہو وہ تم کو بتادے گا“(سورة المائدہ:۸۴ ترجمہ از جالندھری)۔ ان آیات کی روشنی میں زمین میں فساد کی گنجائش نہیں کیونکہ ہر ایک گروہ کے لئے اللہ نے خاص حدود مقرر کر رکھا ہے۔ ہمیں بحیثیت انسان ایک دوسرے کی گریبان کینچھنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ”اور جب ان سے کہاجاتاہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاﺅ توکہتے ہیں کہ ہم( فساد نہیں) اصلاح کرنے والے ہیں“ (البقرہ:۱۱)۔
ان آیات مبارکہ کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی واضح ہدایات کے باوجود ہم اصلاح کے نام پر زمین میں فساد پھیلانے میںمصروف ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک احادیث میں بھی ہمیں واضح ہدایات ملتی ہیں فرماتے ’اچھامسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے‘۔ اب زرا اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دیکھتے ہیں تو اس ملک میں ۸۹ فیصد مسلمان رہتے ہیں لیکن ایک مسلمان دوسرے سے محفوظ نہیں۔ جب ان سے کوئی بحث کریں تو سب کہتے ہیں کہ ”ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“۔ اب ہمیں کون سمجھائیں؟؟ ہم مسلمان تاریخ میں بغداد‘ دمشق‘ الموت‘ استبول‘ مصر‘ کوفہ‘ دجلہ و فرات اور فلسطین و کشمیر میں دہشت اور خوف کا تجربہ کرچکے ہیں اور تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کسی بھی قوم کو نہ توکچلاجاسکتاہے اور نہ ہی ختم کیا جاسکتاہے بلکہ مصلحت اس نکتے میں ہے کہ اس دنیا میں جینے کا حق ہر ایک کو دیا جائے۔ دنیا بھر میں اب تک کی تاریخ میں کوئی قوم بھی کسی اور قوم کو نیست و نابود نہیں کر سکی ہے۔ وقتی طور پر فاتح بننے کے بعد عروج وزوال کا منظر ہر ایک نے دیکھا ہے۔ اہل کتاب ہو یا غیر الہامی ادیان اللہ نے ان سے بھی اچھے تعلقات استوار رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ ہم سب مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں۔ یہود ونصاریٰ ترقی و کامرانی کے میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور یہاں تک کہ غیر الہامی ادیان کی حمایت بھی ان کو حاصل ہے لیکن ہم ایک دوسرے کو ہضم نہ کر سکے ہیں۔ ہمارے فروعات دین میں اختلاف کے باوجود ہم اسی ایک اللہ‘ رسول ‘ قرآن و سنت کے پیروکار ہیں۔ فقہی امام ہویاآئمہ شیعان‘ صحابہ کرامؓ، تابعین یا فقہا ہویا مجتہدین سب کے سب اسی ایک دین کی کثیرالجہتی تشریحات میں زمان و مکاں کی سرحدات کی وجہ سے اصطلاحات کی گوناگونی کے ساتھ اسی الہامی پیغام کی تکثیریت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہمیں ان سب کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور مشترکات کی ترویج کے لئے لائحہ عمل مقرر کرنا چائیے۔
امن میں زندگی گزارنے والی قوم کےلئے خوف کا سفر بہت بھاری پڑتاہے لیکن گلگت بلتستان میں خوف کی فضا کو دیکھ کر پیر وجواں پریشاں ہیں۔ کل تک آپس کے رشتہ دار آج ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیں۔گلگت جو کبھی پورے گلگت بلتستان کے لئے ایک نمونہ تھی آج لوگ اس کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ کسی سے کوئی پوچھے کہ مسئلہ کیا ہے تو کوئی کچھ بھی نہیں بتاسکتا ۔ اس علاقے میں ایک ایسا رجحان جنم پایا ہے کہ اب اس حالت کو راہ راست پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ لوگوں کا آپس میں کوئی دشمنی نہیں اور نہ ہی کوئی تنازعہ ہے بس ایک ایسی فضا بن گئی ہے کہ بغیر کسی مقصد کے قتل و غارت جاری ہے۔ اس میدان میں کھیت ہمارا اور پیداوار کسی اور کا ہے۔ یہاں بیج بھی کوئی اور بوتے ہیں فصل بھی کوئی اور لے جاتے ہیں ہم صرف حالات بگھتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا اس کھیل میں کوئی فائدہ نہیں۔ نامعلوم مقاصد کے اس کھیل میں کتنے اور جانیں ضائع ہونگے۔ اس کھیل کے منتظمین خوب کماتے ہونگے لیکن بچارے عوام سراپا غموں کے طوفان میں جی رہے ہیں۔ ”زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے‘ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے“۔
اس وقت بہار عرب(Arab Spring) سے جمہوریت کے حصول میں اٹھنے والی طوفانی ہوا وسط ایشائی ملکوں کی سرحدوں تک دستک دے چکی ہے اور ظاہر ہے اس طوفان کے اثرات ہمسایہ ملکوں پر بھی پڑیں گے۔ شخصی حکومتوں کے زوال کا وقت آچکا ہے۔ مصر‘ شام‘ آزربئیجان‘ مراکش سمیت خلیجی ملکوں نے اس طوفان کی اثرات کو محسوس کیا ہے۔ بہت بڑی مزاہمت کے باوجود جمہور کی طاقت کے سامنے گٹھنے ٹیک دیئے ہیں۔ اس صورتحال میں جہاں جہاں اکثریتی گروہ ہیں وہاں وہاں وہ اس نئی سیاسی تجربے سے سبق لینے کی کوشش میں ہیں۔ طالبان جو ایک ملک یا کئی ممالک میں ایک خاص طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اپنی محکومیت سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر کوئی مزاہمت کریں یا ان کے حق کو روکنے کی کوشش کریں تو ظاہر ہے وہ ہر قسم کے طاقت کا مظاہرہ کرنگے۔ ان سب حالات کے تناظر میں طاقتور ممالک ان محکوم اور غریب ملکوں میں اپنے مفادات کی جنگ کے لئے ہر حربہ استعمال کررہے ہیں۔ وہ ہر ملک میں جہاں بھی حالات سازگار ہو فرقہ ورانہ‘ لسانی‘ علاقائی‘ نسلی اور قومی رنگ دیکر ان کی پس پردہ حمایت کے ساتھ کمک بھی دے رہے ہیں۔ ان کی مثالیں ہم اپنے ملک کے علاوہ کئی ایک ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ کشمیر‘ فلسطین‘ بلوچستان‘ سوڈان‘ سومالیہ‘ برما‘ سنٹرل ایشیائی ممالک سمیت گلگت بلتستان ان مسائل کا شکار ہوچکے ہیں اب ان حالات سے نجات اسانی سے ممکن نہیں۔ ایک بڑے خون خرابے کے بعد وقت ہی ان مسائل کا حل بتادے گا۔ ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ معیشت میں کمزوری اور تعلیمی پسماندگی بھی ہمارے لئے بدآمنی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ لوگ بے روزگار اور جاہل ہونے کی وجہ سے چند مالی مفادات کی خاطر بہت جلد بڑے بڑے گروہوں کی زد میں آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس نئے سیاسی منظر نامے میں سادہ لوح عوام اور دیہاتی استعمال ہورہے ہیں کیونکہ اِن کی چند دن اور کچھ مقاصدکی سوچ پوری قوم کو لے ڈوبے گی۔
ان تمام مسائل کا حل صرف ایک نکتے میں ہے کہ لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ اس زمانے میں ہر قوم کے لئے ایک الگ ملک بنانا ضروری نہیں کیونکہ نت نئے ایجادات کی وجہ سے پوری دنیا اب ایک گاﺅں کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آج اگر ہمارے بچے دنیا کے ہر ملک میں تعلیم اور روزگار کے لئے جاتے ہیں تو ظاہر ہے وہاں کے لوگ بھی ہمارے ملک میں آئیں گے۔ اسی حالت میں دوسروں کو یا ان کے عادات و عقائد کو تسلیم نہ کرنا جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس تکثیری ماحول میں ہمیں تمام انسانیت کی زبان‘ رنگ‘ مذہب اور ثقافت کا احترام کرتے ہوئے اپنے عقائد میں مضبوط رہنا چاہئے۔ ہم کسی اور کو اس دنیا سے ختم کرسکتے ہیں اور نہ کوئی اور ہمیں ختم کرسکتا ہے اس لئے مصلحت اسی میں ہے کہ جیو اور جینے دو کی ترجمانی کرنا چاہئے۔ گلگت بلتستان اب دنیا سے کٹا ایک پسماندہ علاقہ نہیں بلکہ اس علاقے کی ایک خاص پہچان ہے۔ یہاں جس علاقے میں بھی کوئی دہشت گردی کا نشانہ بنے پورا علاقہ اس کی زد میں آئے گا اس لئے ہم سب کو زمہ داری کا مظاہرہ کرنا چائیے۔ ہمارے علاقے میں نہ صرف شاہراہ قراقرم بدنام ہورہا ہے بلکہ گلگت بلتستان کی مستقبل کا سوال ہے۔ ہمیں اس ماحول میں اپنی آنکھیں کھول دینی چاہئے ورنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے علاوہ اوروں کا بھی حق دینے کی توفیق دیں۔امن کی امید اسی میں ہے ہم اختلاف کے باوجود دوسروں کے ساتھ جینے کا طریقہ سیکھیں’آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا‘ منزل یہی گھٹن ہے قوموں کی زندگی میں‘۔