گوشہ اردو
انسانی حقوق کا عالمی دن
محمدجان رحمت جان
تصور انسانی حقوق پر لکھنے سے پہلے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی حقوق انسانی سے مراد انسانی حقوق کا وہ عالمی دستاویز ہے جو ایک بڑے بحث و مباحثے اور تاریخی مراحل کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل باڑی سے متفقہ طور پر ۰۱ دسمبر ۸۴۹۱ ءکو اپنایاگیا۔ دور جدید میں انسانی حقوق کے منشور کا عالمی معاہدہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اقوام کی متحدہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس نظریے کا آغاز بارویں اور تیرویں صدی سے ہوا تھا جو بڑے بڑے عالمی معاہدوں کے بعد اخرکار اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ اخری شکل میں عالمی پیمانے پر قابل قبول منشور کے طور پر سامنے آیا۔انفردی فطری حقوق کے جدید نظریے کا بانی مشہور فلسفی جان لاک (۲۳۶۱ تا ۴۰۷۱) کو سمجھاجاتاہے۔ آپ کے اہم اورمستند نظریات میں حریت پسندی‘ روشن خیالی‘ خودی پسندی‘ مذہبی اعتدال پسندی‘ ملکیت پسندی‘ فطری صفات اور سیاسی شعوریت شامل ہیں۔ آپ کو جدید انسانی حقوق کے بانی کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی کوششوں کی وجہ سے برطانیوی شہنشایت میں انسانی حقوق کی بات کی گئی جو بعد میں امریکی آزادی‘ انقلاب فرانس‘ آدمیت اور شہری حقوق‘ عورتوں کے حقوق اور امریکی آئین پر بہت اثر کا سبب بنے۔ فطری خاصیت‘ حق ملکیت اور حق حریت آپ کے بہت پر اثر نظریات رہے ہیں۔انسانی حقوق کے بارے میں نظریات کا عالمی جائزہ لینے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ہمیشہ انسانی تہذیب میں جنگ و جدل کی کثرت رہی ہے اور اُن جنگوں کے نتیجے میں فاتح قوموں نے شکست خردہ قوموں کےلئے بعض اوقات برابری اور مساوات کی بنیاد پر انسانی وقار کی بحالی کی کوششیں کی ہیں۔ انسانی تاریخ میں مذہب‘ سیاست‘ معیشت‘ ثقافت‘ زبان‘ رنگ‘ نسل کی بنیاد سے انسانی حقوق کی بنیادیں ملتی ہیں۔
مذہب کی روشنی میں جب ہم دیکھتے ہیں تو انسان کو سب سے پہلے حضرت آدم علیہ صلاة وسلام سے ہی حقوق و فرائض مقرر ہوئے ہیں۔ مختلف ادیان عالم نے بھی انسانی حقوق کی تعلیم دی ہے۔ اسلام میں انسانی حقوق واضح طور پر بنی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی اور خاص کر آخری خطبے میں بتادی ہے جو آپ سب کے علم میں ہے۔ آپ کا آخری خطبہ ہمارے لئے مشعل راہ اور نصب العین ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی کمزوری کی وجہ سے اس پیغام کو جدید دنیا تک پھیلانے میں وہ کردار ادا نہیں کی جو کرنا چائیے تھا۔ ہم آج کے اس کالم میں جدید تصور انسانی حقوق کے اس دستاویز کی بات کرتے ہیں۔ جو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے آج ہمارے لئے دستیاب ہے۔ سیاسی اور شعوری لحاظ سے انسانی زندگی میں انسانی حقوق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے پرانے انسانی قوانین جو لکھی صورت میں ملتے ہیں حمارابی(Code of Hammurabi,1777BC) کے قوانین معاشرت ہیں جو اُس نے بابیلین بادشاہ (Babylonian law codes) کے زمانے میں متعین کیا تھا۔ بحرحال مغربی دنیا میں سب سے پہلے انسانی حقوق کے اشارے Magna Carta, 1215 جوکہ عظیم انگلستان کی تاریخ میں حریت انسانی کا عظیم چارٹر تھا‘ میں ملتے ہیں لیکن اس چارٹر میں بادشاہ اور شہریوں کے حقوق صرف انگلستان کے حوالے سے لکھے گئے تھے۔ اس دستاویز میں عالمی انسانی حقوق کے بارے میں براہ راست کوئی بات نہیں کی گئی تھی لیکن بادشاہوں سے ایک رعایت کے طورپر چند قوانین بنائے گئے تھے۔ اس اہم دستاویز سے انفرادی حریت کی تاریخ بحرحال ملتی ہے۔ ان حالات میں جب مغرب میں قومیں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں تھے۔ مذہبی اور سیاسی رشہ کشی اپنی عروج پر تھی۔ ان جنگوں کی وجہ سے فاتح قوموں نے نہ صرف دوسرے قوموں کو محکوم بنایا بلکہ قومی تشخص اور آزادی پر بھی فلسفیوں نے سوچنا شروع کردیا۔ ”قوم“ اور قومی سوچ کے نظریے کی جنم کے بعد شہنشاہیت سے حکومیتں قومی حکومتوں کی طرف آنے لگیں۔ اس اثنا میں لسانی‘ مذہبی‘ نسلی‘ علاقائی‘ رنگی اور نظریاتی بنیاد پر قوموں نے جنم لیا اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنی شروع کی۔
جان لاگ(John Locke 1632 – 1704) نے اسی دور میں نظریہ حریت فطری (Natural law) کی بات کی۔ اس اہم نظریے کی ایک خوبی جو نظر آتی ہے وہ یہ تھی کہ یہ نظریہ عالمی سیاق کی تعین اور عالمی انسانی حقوق کی طرف پہلی قدم بن گئی۔ یہی وہ نظریہ تھی جو بعد میں امریکی آزادی اور انقلاب فرانس کا سبب بنی۔ امریکی آزادی(1776ئ)‘ انقلاب فرانس(1789–1799ئ)‘ کے ساتھ ایک اور دستاویز The Declaration of the Rights of Man and of the citizens, 1789)کی بھی بنیادیں پڑ گئی۔ ان بین الاقوامی دستاویزات کی وجہ سے دیگر قومیں بھی حرکت میں آئے۔ اب مردوں کی حقوق کی باتیں سن کر خواتین بھی اپنی حقوق کےلئے آواز بلند کرنے لگے اور خواتین کے حقوق کی تحرکیں چلنے لگی اور آخر کار ایک دستاویز ان کے لئے بھی مرتب کیا گیا۔ بحیثیت انسان‘ مرد اور عورت کے بعد بچوں کے حقوق نے سر اٹھایا اور بلترتیب ان سب کے لئے الگ الگ دستاویزات مرتب ہوتے رہے۔ ان دستاویزات کو مختلف قوموں نے تسلیم کیا اور بہتوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ آگے چل کر کانٹ نے Moralsکا نظریہ دیا۔ حالیہ چند سالوں میں انسانی حقوق میں معاشی‘ سیاسی‘ تعلمی‘ ثقافتی اور حق رائے دہی کے حقوق بھی شامل ہوئے ہیں۔ بحرحال انسانی حقوق کے حوالے سے یہ تحریکیں چلتی رہی۔ مغربی جنگ زدہ علاقوں میں خدا پرست لوگ بھی پیدا ہوئے اور انہوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی بات کی اور جنگوں میں انسانی مالی اور جانی حقوق کے ساتھ دیگر حوالے بھی شامل ہوئے۔ اس دوران بہت سارے ادبی کتابیں بھی منظرعام پر آگئی جن میں انسانی حقوق پر زور دیا گیا جن میں Jean Henri Dunant (1828-1910) بہت مشور ہیں۔ آپ ایک سوئس تاجر تھے جو ایک تجارتی سفر میں Solferino موجودہ اٹلی گئے تھے اور ان دنوں وہاں جنگ جاری تھی۔ 1859ءمیں آپ نے اُس جنگ کے بارے میں انکھوں دیکھا حال لکھا اور لاکھوں انسانی جانوں کی قتل و غارت کی حقیقی اور درد ناک داستان پیش کی۔A Memory of Solferino پہلی بار 1863ءمیں جرمن سے شائع ہوئی اور بعد میں انگریزی زبان میں ترجمہ کی گئی۔ یہی کتاب بعد میں International Committee of the Red Cross (ICRC)کیلئے پیش خیمہ بنی۔ یہی وہ خدا ترس لوگ تھے جن کی کوششوں سے مغربی اقوام کو قتل و غارت سے نجات دلانے کی کوشیش تیز تر ہوگئی۔انگلستان میںBill of Rights 1689کے بعد بھی انسانی حقوق کی تحرکیں چلتی رہی۔ Hague Conventions (1899 and 1907) کے بعد ایک بین الاقوامی دستاویز سامنے آیا اور قومیں بیدار ہونے لگی۔ سب قومیں یہ سمجھنے لگے کہ جنگ وجدل کسی مسئلے کا حل نہیں۔ بحرصورت ان تمام کوششوں کی وجہ سے کچھ اخلاقی میدان تو بن گیا لیکن دنیا میں مادی ترقی ہونے کے ساتھ ساتھ فاتح قوموں نے اپنے ملکی حدود میں پھیلاﺅ کا خواب بھی دیکھنا شروع کردیا۔ ایک طرف ان بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے قومیں ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں دوسری طرف بڑے پیمانے پر انسانی حلقے بھی بننے لگیں۔ تاج برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی ملکوں نے ان معاہدوں کی حمایت بھی کردی اور پرس امن کانفرس (1919ئ)کے بعد ایک بین الاقوامی فورم ”لیگ آف نیشن“ وجود میں آیا۔
اس سے پہلے مختلف کانفرسس اتحادی فوجیوں کے مابین بھی ہوچکے تھے۔ مثال کے طور پر جینوا کنونشن(1864ئ) جو بعد میں ایک بین الاقوامی دستور بن کر سامنے آیا اور اس سلسلے میں چار اہم اجلاس مختلف اوقات میں ہوتے رہے جن میں سے اہم 1949ءکی نشستیں ہیں۔ جن میں بہت اہم فیصلے کی گئی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود جنگ عظیم اوّل (1914تا 1919ءلڑی گئی۔ ایک بار پھر دنیا کا امن ثبوتاژ ہوگیا۔ امن کوششوں پر پانی پھیر گیا لیکن بڑے بڑوں نے ہار نہیں مانا بلکہ اپنی کوششیں اور تیز کی اور آخر کا لیک آف نیشن فعال ہوگیا۔ ورسیل امن معاہدہ(1919ئ) اور دیگر بین الملکی معاہدے بھی ہوئے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کا قیام‘ سول اور فوجداری مقدمات کےلئے قوانین بنائے گئے۔ انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے یہ بنیادی اور سنگ میل اقدامات تھی جو آگے چل کر انسانیت کے لئے اہم نمونہ بن گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض قوموں نے اب تک ان کے وجود کا ہی انکار کیا ہے جس کی وجہ سے انسانی قتل و غارت آج بھی جاری ہے۔ امن کی بحالی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق بھی اہم تر ہوتے گئے۔ مغربی دینا ایک جگہ آگئی ابھی امن کی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی اور تمام معاہدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دوسری جنگ عظیم(1939تا 1945ئ) کے خاتمے کے بعد دنیا والے ایک بار پھر جاگ گئے اور اقوام متحدہ کے نام سے ایک عالمی تنظیم بنائی جو آگے چل کرامن اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے میں مصروف ہیں۔ پچھلے معاہدوں کی یادیں بھی آئیں اور آخر کار بڑے بڑے سوچ وپچار کے بعد 10دسمبر 1948ءکو موجودہ انسانی حقوق کا عالمی منشور اقوام متحدہ نے منظور کیا جس کی یاد میں آج ہم یہ دن منا رہے ہیں۔ اس منشور میں انسانی حقوق کی وضاحت کی گئی ہیں اور قوانیں بنائیں گئے ہیں۔ دوسری طرف عالم اسلام اور ایشائی انسانی حقوق کے ساتھ دیگر اقوام کی بھی انسانی حقوق کے بین الاقوامی دساتیر اور دستاویزات سامنے آئی ہیں۔ جن میں انسانی حقوق کے اسلامی معاہدہ (Cairo Declaration of Human Rights 1990) او۔آئی۔سی کے زیرقیادت منظر عام میں آیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایشائی انسانی حقوق کے بھی قوانیں بنے ہیں۔ الغرض انسانی حقوق کے قوانین کچھ بھی ہو سب کا ایک ہی منشاءہے کہ انسان اس دنیا میںآزاد اور پرامن رہے۔
آج اتنی کوششوں کے باوجود دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکی۔ یہ ہماری دنیا کے لئے ایک بڑا المیہ ہے۔ اس دنیا میں یہودی‘ عیسائی‘ مسلمان‘ سکھ‘ ہندو‘ پارسی‘ تاﺅمت‘ بدھ مت‘ ۔۔۔سب رہتے ہیں۔ آج دنیا عالمی دیہہ بن چکی ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کی انسانیت کی کوئی سرحد نہیں۔ بحیثیت انسان ہمیں ایک دوسرے کی قدر کے ساتھ جینے کا حق بھی دینا چاہئے۔ ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور اسی کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہمارے عقائد مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مقصد ایک ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کی قدر کریں۔ صبر‘ برداشت‘ تحمل‘ دیانت داری‘ فراخدلی‘ رحمدلی‘ شفقت اور محبت جیسے تعلیمات کی پرچار کرنی چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ آج دنیا میں لوگ مسائل کا شکار ہیں۔ ایک طرف لوگ زندگی کے اعلیٰ معیار سے لطف اندوز ہورہے ہیں دوسری طرف کثرت سے لوگ بھوک‘ پیاس‘ غربت‘ جہالت‘ کم علمی‘ سیاسی شعور کی کمی‘ بے روزگاری‘ غلامی اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ طاقتور قومیں آج بھی غریب ملکوں پر مسلط ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں امید اور یقین کی طرف راہنمائی فراہم کرتاہے۔ آج بین الاقوامی مالیاتی‘ سیاسی‘ سماجی‘ لسانی‘ تعلیمی‘ اخلاقی‘ تجارتی‘ قانونی اور اشتراکی ادارے ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے انسانی حقوق کی ضرور بات کرتے ہیں۔ الغرض سترویں اور اٹھارویں صدی انسانی حقوق کے مقدمے‘ مقالے‘ مفروضے(Thesis) کا دور تھا انیسویں اور بیسویں صدی میں تنقیدی اور تقابلی تحریکیں(Antithesis) چلی اور آج یہ ایک نظریے اور کلیے (Synthesis)کے طور پر سامنے آیا ہے.۔ بحیثیت انسان آج کے دن ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ دنیا تو عالمی امن کی بات کرتی ہے ہم اپنے قرقہ وارانہ خول سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ لوگ اپنے مذہب کی تبلیغ میں عالمی معاہدے کرتے ہیں ہم ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی قرادادیں منظور کرتے رہتے ہیں۔ انسان تو دور کی بات ہے ہم ایک مسلمان کی امن کا ضامن نہیں بن سکے ہیں۔ حقوق اللہ کےلئے جان دیتے ہیں لیکن حقوق العباد کا بھول چکے ہیں۔ جنت کے حصول میں حقوق العباد کا بڑا دخل ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا سب انسان آپس میں بھائی بھائی اور بھائی بہنیں ہیں؟
گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن
ہے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے